ملک کی تعمیر و ترقی میں مولانا ابوالکلام آزاد کا کردار

0

ڈاکٹر ریحان اختر

مولانا ابوالکلام آزاد کا شمار بیسویں صدی کی عظیم شخصیات میں ہوتا ہے آپ کثیر الجہات شخصیت کے مالک ہیں آپ کی زندگی مختلف حیثیتوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہیں مولانا بیک وقت قومی رہنما، عظیم مدبر ومفکر ،بڑے سیاستدان ، عظیم مجاہد آزادی تو وہی ماہر عالم دین ، مفسر قرآن ،زبردست مصنف ،باکمال خطیب، فلسفی ،مصلح قوم، ایک فعال اور انقلابی شخصیت کے مالک اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم ہیں۔آپ کی پیدائش نومبر کو مقدس مقام مکہ مکرمہ کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی ۔آپ کے والد مولانا خیر الدین کا شمار علاقے کے معتبر عالم دین میں ہوتا تھا ،مولانا نے بنیادی تعلیم والد محترم سے حاصل کی اور کم عمری ہی میں تعلیم مکمل کرلی۔ ابتدا ہی سے مولانا کو کتب بینی و مطالعے سے گہرا شغف اور شوق تھا اور خوب خوب مطالعے میں مشغول رہنا مولانا کا معمول زندگی تھا ۔والد محترم کسی غرض سے مکہ سے ہجرت کرکے کلکتہ آ کر رہنے لگے اور یہیں مستقل رہائش پذیر ہو گئے ۔کلکتہ ہی کو مولانا نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور لسان الصدق جاری کر کے اپنے علمی و سیاسی سفر کا آغاز کیا ۔محی الدین مولانا ابوالکلام آزاد نے کم عمری میں ہی اپنی تحریر اور تقریر سے اہل دانش کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا، انہوں نے الہلال اور البلاغ سے جہاں ہندوستانیوں کی ذہن سازی کی وہیں انہوں نے تحریک آزادی کے ہراول دستہ میں رہ کرجو کلیدی کردار ادا کیا وہ کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
مولانا ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں کہ ان کی خدمات اور کارناموں کو نوک قلم کرنا انتہائی مشکل کام ہے کہ کن خیالات اور خدمات کو بیان کیا جائے اور زندگی کے کن پہلوں پر توجہ مرکوز کی جائے اور کس کو چھوڑ دیا جائے۔سطور ذیل میں مولانا کے ان کارناموں اور خدمات کو زیرتحریر لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو ملک کی تعمیر و ترقی و تشکیل میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔
قومی تحریک:آزادی کتنی بڑی نعمت ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے؟ اس بات کا اندازہ ان لوگوں اور اقوام کو ہوتا ہے جو اس سے محروم رہتے ہیں اور کسی نہ کسی ملک کے محکوم ہوتے ہیں ۔مولانا کے دور میں ہندوستان پر پورے طور پر انگریز حکومت کا تسلط تھا اور یہاں کے باشندے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے ایسے دور میں مولانا نے مصر کا سفر کیا اور وہاں کے ان فعال و متحرک شخصیات سے ملاقات کی جو جذبہ حب الوطنی سے سرشار تھے اور انہوں نے مصر میں آزادی کی ایک جھلک دیکھ لی تھی چنانچہ مصر سے واپسی کا سال یعنی مولانا کی زندگی کا ایک فیصلہ کن سال رہا ہے اس سال سے آپنے مسلم سماج کے لیے ایک ایسا پیغام الہلال ہفتہ واری اخبار اور رسالے کے ذریعے دینا شروع کیا جس نے آگے چل کر ملک کے قومی نظریے کی ترقی میں اہم رول ادا کیا ۔مولانا آزاد آزادی اور اتحاد کی تحریک کے پرجوش اور سرگرم داعی تھے الہلال بھی مولانا کی کی آزادی کی قومی تحریک کے حوالے سے کیے گئے ایک طویل غور و خوض کا نتیجہ تھا کہ تحریر کے ذریعے اپنے خیالات و نظریات عوام تک پہنچا کر رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کیا جائے، الہلال کے ذریعے مولانا نے لوگوں کے دلوں میں آزادی کی امید جگائی جس کا اثر اتنا سحر کن تھا کہ آزادی کی صدا ہندوستان کے باہر بھی سنائی دینے لگی چنانچہ طرابلس کے مسلمان تڑپ اٹھے جس کے نتیجے میں میں اسلامی دنیا کی قیادت سنبھالنے کی بھی مولانا کو دعوت دی گئی ۔
مولانا نے الہلال کے ذریعے جس وقت آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا وہ اتنا مشکل دور تھا کہ بڑے سے بڑا انسان بھی بے باک انداز میں اپنی بات کہنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا، پنڈت جواہر لال نہرو اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھتے ہیں مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے ہفتہ وار الہلال میں مسلمانوں کو ایک نئی زبان میں مخاطب کیا ،یہ ایک ایسا انداز تخاطب تھا جس سے ہندوستان کے مسلمان آشنا نہ تھے ،وہ علی گڑھ کی قیادت کے محتاج لہجے سے واقف تھے،سر سید ،محسن الملک، نذیر احمد اور حالی کے انداز بیان کے علاوہ ہوا کا زیادہ گرم جھونکا ان تک پہنچا ہی نہ تھا ،الہلال مسلمانوں کے کسی مکتبہ خیال سے متفق نہ تھا،وہ ایک نئی دعوت اپنی قوم اور اپنے ہم وطنوں کو دے رہا تھا۔انگریز حکومت الہلال کے اثر کو دیکھ کر بھانپ گئی تھی کہ اس اخبار سے ان کی حکومت میں شگاف پڑ سکتا ہے چنانچہ انہوں نے بار بار اس کی اشاعت پر روک لگائی اور بالآخر اس کی اشاعت بند کر دی گئی جس کے بعد مولانا نے البلاغ نامی اخبار سے اپنے مشن کو جاری رکھا تاکہ قوم میں آزادی کے تئیں بیداری پیدا ہواور ملک و قوم آزادی حاصل کرکے ترقی کی منازل طے کریں۔
ہندو مسلم اتحاد:مولانا ابوالکلام آزاد جتنی شدت کے ساتھ آزادی کی جدوجہد میں مشغول تھے اور آزادی کو ضروری اور عزیز خیال کرتے تھے اس سے کہیں زیادہ مولانا کے نزدیک ہندو مسلم اتحاد و اتفاق پیارا تھا آپ ہمیشہ اسی فکر میں رہتے تھے،اور ہندو مسلم کو ہمیشہ بھائی چارہ، پیار و محبت اور اتحاد و اتفاق کے دھاگے اور رشتے میں منسلک رہنے کی ہدایت کرتے تھے ۔ہندو مسلم اتحاد کے سامنے آزادی کی ان کی نگاہ میں کوئی حیثیت نہیں تھی چنانچہ دہلی، انڈین نیشنل کانگریس اجلاس میں ان کا خطاب کچھ یوں تھا ۔ہندو مسلم اتحاد کے بغیر ہمیں قومی آزادی نہیں مل سکتی بلکہ اس کے بغیر ہم انسانیت کے ابتدائی اصول بھی اپنے اندر نہیں پیدا کرسکتے ،آج اگر فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہو جائے تو میں سوراج سے دست بردار ہو جاں گا مگر اس سے دستبردار نہیں ہوگا کیونکہ اگر سورج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا۔مضامین مولانا ابوالکلام آزاد میں ہے۔ مولانا فرماتے ہیںکہ اگر تمام عالم ہمارا وطن ہے اور اس لیے محترم ہیں تو وہ خاک تو بدرجہ اولی ہمارے احترام کی مستحق ہے جس کی آب و ہوا میں ہم صدیوں سے پرورش پا رہے ہیں،اگر تمام فرزند انسانیت ہمارے بھائی ہیں تو وہ انسان تو بدرجہ اولی ہمارے احترام اخوت کے مستحق ہیں جو اس خاک کے فرزند اور مثل ہمارے اسی کی سطح پر بہنے والے پانی کے پینے والے اور اسی فضائے محبوب کو پیار کرنے والے ہیں ۔مولانا ابوالکلام آزاد کا ہر عمل و فعل ایسا ہیکہ اس کو اختیار کر کے ملک کی تعمیر و ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ،اگر کسی مسئلہ میں ذمہ دار لوگوں میں اختلاف ہو جائے تو کبھی کبھی اس کے برے نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔بات “گیا” میں منعقدہ کانگریس کے اجلاس کی ہے جس میں یہ اختلاف ہوا کہ ایک طرف گاندھی جی تحریک ترک موالات کو جاری رکھنا چاہتے تھے وہیں دوسری طرف سی ۔آر ۔داس، موتی لال نہرو اور حکیم اجمل خان کو نسلوں میں گھس کر آئینی محاذ پر جنگ کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے سوراج نام سے پارٹی بھی بنا لی تھی، مولانا اس دوران جیل میں تھے چنانچہ جیل سے رہائی کے بعد مولانا نے سب سے پہلے اختلاف ختم کراکر اتحاد کا وعدہ کر آیا۔
تعلیم کو فروغ:اگست میں جب ہندوستان کو آزادی ملی تو آپ کو ملک کی عارضی حکومت میں وزیرتعلیم کی حیثیت سے شامل کیا گیا،وہ جب تک زندہ رہے اسی محکمے کے وزیر رہے ۔انھوں نے ہندوستان کی تعمیر میں غیر معمولی حصہ لیاتعلیمی میدان میں آپ کی سرگرمیاں بڑھ گئیں اور ممکنہ حد تک باشندگانِ ہند کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر دامن گیر رہتی تھی ۔انکی وجہ سے مغربی ایشیا کے بہت سے ممالک کے ساتھ ہندوستان کے بڑے مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات قائم ہوئے۔انکی کوششوں سے تکنیکی تعلیم میں خاص طور پر بہت توسیع ہوئی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS