سیرت وجہ تخلیق کائنات اور ہمارا طرز عمل___

0

تحریر: محمد تحسین رضا نوری شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت

ماہ ربیع الاول وہ بابرکت، معظم و مکرم مہینہ ہے جو اپنے دامن میں بے شمار فضائل و کمالات اور فیوض و برکات سمیٹے ہوئے ہے۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے یہ مبارک و مسعود مہینہ جملہ مہینوں سے افضل اور بزرگ و برتر ہے۔ اور کیوں نہ ہو ؟ یہی تو وہ مہینہ ہے جس مہینہ میں سرور بنی آدم، روح روان عالم، اقامت حدود و احکام، تعدیل ارکان اسلام، جگر گوشۂ کان کرم، نور دیدۂ ابراہیم و آدم، افصح العرب، خاتم النبیین، شفیع المذنبین، رحمت عالم، نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم معلم کائنات، محسن انسانیت بن کر دنیا میں تشریف لے آئے۔ جن کی تشریف آوری سے سارا جہان روشن و منور ہو گیا، ظلمت و تاریکی کافور ہو گئی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت سے پہلے زمانے نے وہ منظر بھی دیکھا تھا کہ جب چہار جانب اندھیرا ہی اندھیرا پھیلا ہوا تھا، بیٹیوں کو منحوس و مکروہ سمجھا جاتا تھا، بیواؤں پر ظلم و ستم کیا جاتا اُن کو بھی اُن کے شوہروں کے ساتھ نظر آتش کر دیا جاتا تھا، باپ اپنی بیٹی کو اپنے ہی ہاتھوں سے ماں کی گود سے چھین کر زمین میں زندہ دفن کر دیتا تھا، احساس انسانیت اپنا دم توڑ چکا تھا، معبودان باطلہ کی پوجا ہوا کرتی تھی، شرک و کفر، ظلم و زیادتی، بے حیائی، شراب نوشی، زنا کاری عام تھی، کوئی کسی کا سہارا نہ تھا۔
لیکن نظام قدرت یہی ہے کہ اندھیرا ہمیشہ نہیں رہتا، اندھیرا ختم ہوتا ہے تو اُجالا نمودار ہوتا ہے، پھر ایک ایسی صبح نمودار ہوئی جس نے نظام کائنات بدل کر اور ظلم و ستم کے بادل کو چھانٹ کر رکھ دیا، بے کسوں کا کس، بے چاروں کا چارہ، بے سہاروں کا سہارا بن کر وہ ذات تشریف لائی جس کی وجہ سے بزم کائنات سجائی گئی، جس ذات کے لیے اس جہان کو وجود بخشا گیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کیا ہوئی پوری دنیا میں انقلاب آ گیا، پتّھر دل موم کی طرح نرم ہو گئے، چہار جانب توحید کے نغمے گونجنے لگے، آسمان سے نور برسا تو زمین سرسبز و شاداب ہو گئی،
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
اللہ رب العالمین نے اپنے بندوں کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں، لیکن کسی بھی نعمت پر احسان نہیں جتایا، لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے احسان جتا کر پوری دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ: یہ آنے والا کوئی عام نہیں بلکہ میرا پیارا محبوب ہے، اور اس عظیم نعمت پر احسان کیوں نے جتایا جائے، اللہ تبارک وتعالی نے اپنے پیارے محبوب کو (جن کے صدقے میں رب تعالیٰ نے عالم کو وجود بخشا، اگر اُن کی آمد مقصود نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس دنیا کو ہی پیدا نہ فرماتا) ہم میں بھیجا۔ اور قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: لقد من اللہ على المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم۔ (164)
ترجمہ: بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفسرین فرماتے ہیں: عربی میں “منت” عظیم نعمت کو کہتے ہیں۔ مراد یہ کہ اللہ تعالی نے عظیم احسان فرمایا کہ انہیں اپنا سب سے عظیم رسول عطا فرمایا۔ کیسا عظیم رسول عطا فرمایا کہ اپنی ولادت مبارکہ سے لے کر وصال مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہا رہے ہیں بلکہ ہمارا تو وجود بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ سے ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات اور اس میں بسنے والے بھی وجود میں نہ آتے ۔ پیدائش مبارکہ کے وقت ہی آپ نے ہم امتیوں کو یاد فرمایا، شب معراج بھی رب العالمین کی بارگاہ میں یاد فرمایا، وصال شریف کے بعد قبر انور میں اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا تو حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے لب ہائے مبارکہ پر امت کی نجات و بخشش کی دعائیں تھیں۔ آرام دہ راتوں میں جب سارا جہاں محو استراحت ہوتا تو پیارے آقا حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم اپنا بستر مبارک چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہم گناہگاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے تھے۔ عمومی اور خصوصی دعائیں ہمارے حق میں فرماتے رہتے۔قیامت کے دن سخت گرمی کے عالم میں شدید پیاس کے وقت رب تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے لئے سر سجدہ میں رکھیں گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے۔ کہیں امتیوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری کریں گے ، کہیں پل صراط سے سلامتی سے گزاریں گے، کہیں حوض کوثر سے سیراب کریں گے، کبھی جہنم میں گرے ہوئے امتیوں کو نکال رہے ہوں گے، کسی کے درجات بلند فرما رہے ہوں گے، خود روئیں گے ہمیں ہنسائیں گے، خود غمگین ہوں گے ہمیں خوشیاں عطا فرمائیں گے، اپنے نورانی آنسوؤں سے امت کے گناہ دھوئیں گے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقے ہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم جیسی عظیم دولت عطا فرمائی، ایمان دیا ، خدا کا عرفان دیا اور ہزار ہا وہ چیزیں جن کے ہم قابل نہ تھے اپنے سایہ رحمت کے صدقے ہمیں عطا فرمائیں۔ الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات اس قدر کثیر در کثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔
(ماخوذ: تفسیر صراط الجنان)

ولادت مصطفیٰ پر خوشی کا اظہار: حضرت عمرو بن قتیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا جو کہ بہت بڑے عالم تھے، فرماتے ہیں: حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے یہاں جب ولادت با سعادت کا وقت قریب آیا، تو اللہ تعالی نے فرشتوں سے فرمایا کہ تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دو، اُس روز سورج کو عظیم نور پہنایا گیا، اور اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کی عورتوں کے لیے یہ مقدر کر دیا کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے لڑکے جنیں۔
(الخصائص الکبریٰ، جلد 01)

آپ ﷺ کی سیرت اور ہمارا کردار: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت کے پربہار موقع پر خوشیاں منانا یہ اہل ایمان کی نشانی ہے، جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اس مبارک مہینہ کے آتے ہی عاشقان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جگہ جگہ ذکر مولود شریف کی محفلیں سجانا شروع کر دیتے ہیں، جگہ جگہ جشن کے مناظر نظر آنے لگتے ہیں، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جلسہ اور جلوس کا انعقاد ہوتا ہے، جو کہ کار ثواب اور مستحسن ہے، لیکن سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہماری ذمہ داریاں صرف جلسہ اور جلوس کے انعقاد پر ہی ختم نہیں ہوئیں، آج ہم نے صرف محافل کے انعقاد کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں جبکہ حقیقتاً سیرت رسول ﷺ سے ہمارا کوئی تعلق نظر نہیں آتا،
اس دور جدید میں ہم ایک نازک موڑ سے گزر رہے ہیں، دنیا میں ہر طرف مسلمانوں کو ستایا جا رہا ہے، ہر قوم ہمارے خون کی پیاسی ہے، دین اسلام کو مٹانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں، روز بروز دشمنان اسلام طرح طرح کے حربہ استعمال کرتے ہیں، کہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں گستاخی، تو کہیں قرآن کریم کی بے حرمتی، اس مصائب و آلام کے سمندر سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ ہے کہ اُمت مسلمہ پوری طریقہ سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے سے لگا لے، گھر کا ایک ایک فرد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر مکمل پابندی کے ساتھ عمل کرنا شروع کر دے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کیا جائے، اُس کے لیے محفلیں اور جلسہ منعقد کیے جائیں، جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبارک زندگی کو لوگوں تک پہنچایا جائے۔
اور ان جلسوں کو صرف ربیع الاول شریف تک ہی محدود نہ کیا جائے بلکہ پورے سال ہفتہ دو ہفتہ میں ان جلسوں کا انعقاد کیا جائے، سیرت پر آسان چھوٹی چھوٹی کتابیں عوام الناس میں تقسیم کی جائیں، اسکولز، کالج اور مدارس اسلامیہ میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اسلامی تعلیمات کے متعلق نصاب تیار کیا جائے، بچپن ہی سے بچوں کو حضور ﷺ کی سیرت کے متعلق بتایا جائے، اسکولز کالج کے نصاب میں بچوں کو سیرت کی کوئی کتاب نہیں پڑھائی جاتی جس کی وجہ سے اس امت کا اکثر طبقہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت سے نابلد ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا ہر پہلو لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے، آپکی عبادت و ریاضت سے لے کر کے تجارتی معاملات تک کے واقعات لوگوں کے سامنے بیان کیے جائیں، لوگوں کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اخلاق و کردار، حرکات و سکنات، اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا، چلنا، غرض کہ ہر ہر چیز سے واقفیت کرائی جائے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چھوٹی چھوٹی سنتوں کو عام کیا جائے، کھانا کھانے کی سنتیں، سونے کی سنتیں، لباس پہننے کی سنتیں، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک، غریبوں اور یتیموں کی مدد، سلام و کلام کے آداب وغیرہ سکھائے جائیں، صوم و صلوٰۃ کی پابندی کرائی جائے، اسلامی کلچر اپنانے پر زور دیا جائے، مساجد میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنتوں کے فضائل بیان کیے جائیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت کی خوشی منانے کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عام کیا جائے تو زندگی سکون کا گہوارہ بن جائے گی، اور ان شاء اللہ العزیز بہت جلد اُمت کو تمام الجھنوں اور پریشانیوں سے نجات مل جائے گی، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز زندگی کے بارے میں ربِّ کریم نے اپنے مبارک کلام میں ارشاد فرمایا: ’’لقد كان لكم فی رسول الله اسوۃ حسنة“ ترجمہ: بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔ (سورة الاحزاب)
لہٰذا عبادات، معاملات، اخلاقیات، سختیوں اور مشقتوں پر صبر کرنے میں اور نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے میں، الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر پہلو کے اعتبار سے تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی اور سیرت میں ایک کامل نمونہ موجود ہے، لہٰذا ہر ایک کو اور بطور خاص مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اقوال میں، افعال میں، اخلاق میں، اور اپنے دیگر احوال میں سید المرسلین ﷺ کی مبارک سیرت پر عمل پیرا ہوں، اور اپنی زندگی کے تمام معمولات میں سید العالمین ﷺ کی پیروی کریں۔ (تفسیر صراط الجنان)

معلوم ہوا کہ حقیقی طور پر کامیاب زندگی وہی ہے جو تاجدار مدینہ ﷺ کے نقش قدم پر ہو، اگر ہمارا جینا، مرنا، سونا، جاگنا حضور ﷺ کے نقش ِقدم پر ہو جائے تو ہمارے سب کام عبادت بن جائیں گے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنے حبیب ﷺ کی کامل طریقے سے پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

✍🏻 محمد تحسین رضا نوری شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS