ہندوستان کی اصل تصویر، جامعہ نگر مندر معاملے میں مسلمانوں کا قدم

0

نئی دہلی(ایجنسی/تنویر احمد):ہندوستان کی راجدھانی دہلی کے مشہور علاقہ اوکھلا میں مسلم طبقہ کے ذریعہ ایک قدیم مندر کو بچانے کی کوششیں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہیں۔ جامعہ نگر کے نور نگر-جوہری فارم علاقہ میں موجود مندر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے مقامی بلڈر منہدم کرنا چاہتے ہیں تاکہ جگہ پر قبضہ کر مالی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ لیکن اس مذموم کوشش پر وہاں کے مسلم باشندوں نے پانی پھیر دیا اور مندر کو بچانے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر ثابت کر دیا کہ وہ ہندو بھائیوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے.

دراصل نور نگر میں دھرمشالہ بھی تھا جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے منہدم کر دیا گیا۔ جب مندر کو گرائے جانے کا اندیشہ پیدا ہوا تو مقامی انتظامیہ کو خبر کی گئی، لیکن خاطر خواہ کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے مسلم طبقہ کے دانشور حضرات نے عدالت میں عرضی داخل کر دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دہلی ہائی کورٹ نے پولیس و انتظامیہ کو سختی سے ہدایت دی ہے کہ وہاں پر کوئی قبضہ یا تعمیری کام نہ ہو۔

عدالتی احکام کے بعد نور نگر میں رہنے والے 50-40 ہندو گھرانوں میں تو خوشی کا ماحول ہے ہی، مسلم طبقہ بھی مسرور نظر آ رہا ہے۔ کئی لوگ اسے ہندو-مسلم بھائی چارے کی جیت قرار دے رہے ہیں، تو کئی اسے موجودہ دور میں ہندوستانی اقدار کا بہترین نمونہ ٹھہرا رہے ہیں۔ اس تعلق سے جامعہ ملیہ اسلامیہ سینئر سیکنڈری اسکول کے استاذ آفتاب احمد منیری کا کہنا ہے کہ ’’یہ خبر سن کر ایک گونا مسرت کا احساس ہوا کہ ایک ایسے وقت میں جب فرقہ پرست عناصر ہندوستانی معاشرہ میں زہر گھول رہے ہیں اور ہماری قدیم مشترکہ تہذیب کو زوال آتا دکھائی دے رہا ہے، جامعہ نگر کے مسلمانوں نے اپنی اعلی ظرفی کا نمونہ پیش کیا۔ مسلمانوں نے برادران وطن کی عبادت گاہ کو منہدم ہونے سے بچا کر ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے، اور اپنے اس قدم سے کلیم عاجز کے اس شعر کو معنویت عطا کر دی ہے کہ

یہی تاریخ کہتی ہے یہی حالات کہتے ہیں

عداوت تم نہ بھولو گے محبت ہم نہ بھولیں گے‘‘

جے این یو کے ریسرچ اسکالر محفوظ عالم ندوی نے بھی مسلم طبقہ کے ذریعہ مندر کو تحفظ فراہم کرنے کی کوششوں کو قابل قدر ٹھہرایا۔ ’قومی آواز‘ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’مندر کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کا آگے آنا قابل تحسین قدم ہے۔ اس سے نہ صرف ہماری آپسی بھائی چارگی کو فروغ ملے گا، بلکہ نفرت بھرے موجودہ ماحول کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’عبادت گاہ، خواہ وہ مندر ہو یا مسجد، اس کی قدر کی جانی چاہیے۔ عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا ہم سبھی کی ذمہ داری ہے، اس لیے نور نگر کے مسلمانوں نے جو کیا اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔‘‘

واضح رہے کہ سید فیض العظیم (عرشی) کی جانب سے دہلی ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کر کہا گیا تھا کہ جامعہ نگر واقع نور نگر میں ایک مندر ہے جس کے دھرمشالہ کی زمین ماکھن لال کے بیٹے جوہری لال کی تھی۔ اس مندر کو 1970 میں ماکھن لال نے بنوایا تھا۔ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے باوجود یہاں گزشتہ 50 سال سے ہندو طبقہ کے لوگ پوجا کرنے آتے تھے۔ مندر کی دیکھ ریکھ کرنے والے لوگوں نے پہلے دھرمشالہ اور پھر مندر (کے کچھ حصہ) کو بھی گرا دیا تاکہ وہ رہائشی کمپلیکس بنا سکیں۔ عرشی نے گزشتہ 20 ستمبر کو پولیس اور جنوبی ایم سی ڈی سے اس معاملے میں شکایت کی تھی، لیکن جب وہاں سے کارروائی نہیں ہوئی تو انھوں نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS