دہلی میں افغان اسکول کے بچوں کی تعلیم کا سوال، خوف اور اندیشے کا ماحول

0
Iamage: DW

دہلی: (ایجنسی) طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد دہلی میں افغان بچوں کے اسکول پر بے یقینی کے بادل چھا گئے ہیں۔ یہ اسکول افغان حکومت کے مالی تعاون سے چل رہا ہے اور اس میں اول سے بارہویں جماعت تک کے تقریباً 500 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ نئی دہلی کی بستی حضرت نظام الدین سے ملحق بھوگل نامی علاقے میں واقع جمال الدین افغانی اسکول بھارت میں رہنے والے افغان پناہ گزینوں کے بچوں کے لیے باضابطہ حصول تعلیم کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ یہ اسکول گزشتہ کئی برسوں سے چل رہا ہے حالانکہ علاقے کے بیشتر افراد اس سے واقف نہیں ہیں۔
اس اسکول کا قیام ایک غیر سرکاری تنظیم نے سن 1994میں کیا تھا تاہم بعض اسباب کی بنا پر یہ بند ہو گیا تھا۔ سن 2000 کے بعد سے جمال الدین افغانی اسکول نئی دہلی میں افغان سفارت خانے اور کابل میں افغان حکومت کے مالی تعاون سے مسلسل کام کر رہا ہے۔ یہ ان افغان بچوں کے لیے حصول تعلیم کا اہم مرکز ہے جو بھارتی زبانوں سے واقف نہیں ہیں۔افغانستان میں بدلتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے اس اسکول کی انتظامیہ کی تشویش بڑھ گئی ہے۔ اسکول کی پرنسل ثانیہ فضا تاج بتاتی ہیں کہ اس اسکول میں 515 طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ 26 ٹیچروں سمیت عملے کے ارکان کی کل تعداد 36 ہے۔ وہاں انگریزی کے علاوہ پشتو، دری، ریاضی اور سائنس جیسے مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے۔
فضا تاج نے بتایا کہ اس اسکول کا پورا خرچ افغان حکومت برداشت کرتی ہے۔ اسکول کی عمارت کا کرایہ اور ٹیچروں کی تنخواہوں کے علاوہ دیگر ضروریات حتیٰ کہ طلبہ کو کتابوں وغیرہ کے لیے مالی امداد بھی افغان حکومت کی طرف سے ہی ملتی ہے۔ لیکن پچھلے آٹھ ماہ سے افغان حکومت کی طرف سے یہ امداد معطل ہے، جس کی وجہ سے ٹیچروں کو تنخواہیں اور عمارت کا کرایہ بھی ادا نہیں کیے گئے۔
افغان اسکول کے ایک ٹیچر حمیداللہ حیدریار کا کہنا تھا کہ چونکہ اس وقت افغانستان میں کسی طرح کی حکومتی سرگرمیاں نہیں ہیں اور یہ ایک سرکاری اسکول ہے، اس لیے کابل میں حکومت کے قیام تک تو بہرحال انتظار کرنا ہی پڑے گا۔ حکومت کے قیام کے بعد ہی اسکول افغان حکام سے رابطہ کرے گا۔ اس کے بعد ہی واضح ہو سکے گا کہ آیا یہ اسکول اپنا کام جاری رکھے گا، اسے بند کر دیا جائے گا اور آیا اساتذہ کو ان کی تنخواہیں بھی ادا کی جائیں گی۔دسویں جماعت میں زیر تعلیم افغان صوبے لغمان کا رہائشی یوسف انواری بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہے۔ انواری سن 2016 میں اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ بہتر مستقبل کی تلاش میں بھار ت آیا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ بھارت آنے کے بعد اسے اور اس کے اہل کانہ کو کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور اب افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے ایک اور چیلنج سامنے آ گیا ہے۔
یوسف انواری کہتا ہے کہ اب تعلیم پس منظر میں چلی گئی ہے اور اس کے اہل خانہ کو اپنی توانائی ضروریات زندگی کے حصول پر صرف کرنا پڑ رہی ہے۔ ”ایک ہفتہ قبل تک ہماری توجہ تعلیم پر تھی، چونکہ ہم ایک جنگ زدہ ملک سے آئے تھے، اس لیے ہم سمجھتے تھے کہ تعلیم سے ہمیں اپنی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ ہر شخص کو اب اپنے وطن میں موجود رشتہ داروں کی سلامتی کی فکر لاحق ہے اور مستقبل غیر یقینی نظر آ رہا ہے۔
افغان بچوں کی تعلیم اور اسکول کے مستقبل کے حوالے سے بھارت میں ماہرین تعلیم اور سماجی کارکن بھی فکر مند نظر آ رہے ہیں۔ماہر تعلیم پروفیسر اے ایم شاہ کا کہنا تھا، ”موجودہ صورت حال میں خدشہ ہے کہ جنگ زدہ افغانستان میں سیاسی بے یقینی کی وجہ سے اسکول بند ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو بھارت میں رہنے والے افغان بچے تعلیم کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے۔
بھوگل کے مقامی رہائشی اور ریٹائرڈ ٹیچر ڈی ڈی دت بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طلبہ کی تعلیم کسی بھی صورت بند نہیں ہونا چاہیے، بالخصوص ایسے موقع پر جب ان طلبہ کا ملک ایک بڑے چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔ماہر تعلیم این ایل خان کا کہنا تھا، ”اسکول کو بچانے اور وہاں تعلیم جاری رکھنے کے لیے حکومتوں کو آگے آنا چاہیے کیونکہ یہ صرف ایک اسکول ہی نہیں بلکہ جمہوری افغانستان کی علامت بھی ہے۔ اس اسکول کے طلبہ، اساتذہ اور پرنسپل کا کہنا ہے کہ وہ تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ انہیں امید ہے کہ افغانستان میں قائم ہونے والی نئی حکومت اس اسکول پر مناسب توجہ دے گی۔

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS