شاہد زبیری
آج جبکہ عالمی سطح پر، عالمی یومِ خواتین منا یا جا رہا ہے کرناٹک میں حجاب کے مسئلہ نے ایک مرتبہ پھر سے ہندوستان میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ ہر چند کہ اس مسئلہ کے مذہبی پہلوئوں کو لے کر حجاب حامی اور مخالف دونوں کر ناٹک ہائی کورٹ میں اپنے اپنے دلائل اور شواہد پیش کر چکے ہیں۔ ہائی کورٹ نے ایک سے زائد سماعتوں کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ کورٹ کس کے دلائل پر اپنی مہرثبت کرتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے لیکن یہ طے ہے کہ اس تنازع سے جو مضر اثرات مسلم لڑکیوں کی تعلیم پر پڑنے کا خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے، وہ بے بنیاد نہیں۔ کم ازکم حجاب یعنی سر ڈھک کر اسکول اور کالج کی کلاس میں جدید تعلیم کا حصول مسلم لڑکیوں کیلئے دشوار ضرورکر دیا گیا ہے۔ ملک کے بعض حصوں میں سنگھ پریوار اور بی جے پی سے وابستہ سخت گیر ہندو تنظیموں نے حجاب کو بہانہ بنا کرمسلم لڑکیوں کیخلاف جو زہر آلود اور مذہبی منافرت کا ماحول بنا دیا ہے، وہ ملک کے ہر انصاف پسند شہری کیلئے اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کی خواہش رکھنے اور کام کر نے والوں کیلئے باعثِ تشویش ہے۔ لگتا ہے کہ مسلم لڑکیوں کو حجاب کے بہا نہ سے ان کے تعلیم کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔طرفہ تماشہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں خواتین 8مارچ کو اپنے حقوق کا دن ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ منارہی ہیں اور ہمارے ملک میں حجاب کے بہانے مسلم خواتین کو ان کی تعلیم کی آزادی کے حق سے محروم کیے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اگر تعلیم نسواں کی تحریک پر سرسری نظر ڈالیں تو ہندوستان میں 19ویں صدی کی اصلاحی تحریکوں کے تحت لڑکیوں کی جدید تعلیم کے حصول کیلئے تعلیم نسواں کی تحریک شروع ہوگئی تھی۔ ہندو ئوں میں یہ تحریک برق رفتاری سے جاری وساری تھی اور اپنا اثر دکھا رہی تھیں۔ سرسیّد احمد خاںؒ کی پیدائش سے بھی سو سال پہلے راجہ رام موہن رائے نے بنگال میں لڑکوں کی جدید تعلیم کے ساتھ لڑکیوں کی جدید تعلیم کیلئے بھی کالج قائم کر دیا تھا۔مولا نا الطاف حسین حالی ؒ، مولوی امتیاز علیؒ اورکرامت حسین تعلیم نسواںکے تحت مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے حامی تھے۔ مولانا ممتاز کی بابت کہا جا تاہے کہ وہ دیوبند مسلک کے تھے۔ ایک بڑی شخصیت ڈپٹی نذیر احمد ؒ جو بلند پایہ ادیب اور ناول نگا ر وہ بھی تعلیم نسواں کے حامی تھے، لڑکیوں کی تعلیم پر انہوں نے ناول لکھے ہیں۔ جسٹس سیّد امیر علی بھی تعلیم نسواں کیلئے پیش پیش تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندو خواتین آج جہاں ہیں، ان کو یہاں تک پہنچنے میں دقتوں کا سامنا کرنا نہیں پڑا تھا، وہ کس ماحول سے نکل کر یہاں تک پہنچیںذرا تلسی کے دوہے کو دھیان میں رکھئے جہاںناری صرف ’تاڑن‘کی ادھیکاری تھیں۔اس کیلئے راجہ رام موہن رائے جیسے مصلحین اور تعلیم نسواں کی تحریکوںاورکوششوں کا بڑا دخل ہے۔یہاں ایک واقعہ کا حوالہ ضروری ہے وہ یہ کہ سر سیّدؒ کی وفات کے بعد ان کی قائم کردہ محمڈن ایجو کیشنل کانفرنس کے1899کے کلکتہ اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر رفیق زکریا نے اپنی کتاب ’ہندوستانی سیاست میں مسلما نوں کا عروج‘ کے صفحہ 269 پر لکھا کہ ’’ایک قرارداد کے ذریعہ یہ طے کیا گیا کہ یکم جنوری 1900 سے لے کر تین سال کے عرصہ میں ہر صو بائی صدر مقام پر اسلامی قوانین اور اعلیٰ مسلم گھرانوں کی روایت کے مطابق نسوانی مدارس قائم کیے جا ئیں،شو کت علی نے جو بعد کی ہندوستانی مسلم سیاست میں ’بڑے بھائی‘کہلا ئے، اس موقع پر اس قرارداد کی تائید میں ایک دلچسپ تقریر کی اور مسلمانوں پر واضح کیا کہ وہ اپنی شریکِ حیات کو جہالت میں رکھ کر خود کوئی ترقی نہیں کرسکتے۔‘
اس کانفرنس کی قراردا دوں سے پتہ چلتا ہے کہ 1900 میں مسلما نوں میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم کیلئے تحریکِ نسواں کا آغاز ہو چکا تھا اور ایک طبقہ کی شدید مخالفت کے باوجود مسلم لڑکیو ں کی تعلیم کی ضرورت کا احساس مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کوہو چلاتھا۔ ہر چند کی مسلم لڑ کیوں کی تعلیمی رفتار اپنی ہم وطن غیر مسلم بہنوں کے مقابلہ میں بہت سست تھی جو آج بھی ہے لیکن تعلیم کی للک ان میں رہی ہے اورتعلیم کی خواہش ان میں بھی پروان چڑھتی رہی ہے۔ سرسیّدؒ نے لڑکوں کی تعلیم کے برگد کا جو پودھا لگایاتھا، اس برگد کی چھائوںمیں مسلم لڑکے ہی نہیںمسلم لڑکیاں بھی بیٹھ رہی ہیں۔ اسی علی گڑھ میں ہی شیخ عبداللہ جو پاپا میاں کے نام سے مشہور تھے، انہوں نے اپنی اہلیہ وحید جہاں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کا بیڑہ 1906میں اٹھایا تھا اورگھر میں اسکول کھول دیا لیکن پڑھانے کیلئے استانی نہیں ملی تو خود وحید جہاں نے یہ ذمہ داری اپنے سرلی۔1930میں یہ اسکول گرلس کالج کے مقام تک پہنچ گیا۔اس سے پہلے مہاراشٹر کی فاطمہ شیخ،بیگم بھوپال جیسی خواتین مسلم لڑکیوں کی تعلیم کیلئے کوشاں تھیں۔ملک کی آزادی کے بعد مسلم لڑکیوں میں تعلیمی رجحان بڑھا ہے اور تناسب بھی۔گرچہ آبادی کے لحاظ سے یہ تناسب کم ہے لیکن زندگی کے ہر شعبہ میں مسلم خواتین نے اپنی نمائندگی درج کرائی ہے۔ ادب میں رشیدہ بیگم، رضیہ سجاد ظہیر، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر جیسے بڑے بڑے نام ملتے ہیں۔ سیاست کے میدان میں کم ہی سہی نمائندگی رہی ہے، میمونہ تیمور،نجمہ ہپبت اللہ،محسنہ قدوائی، صحافت میں سیما چشتی،سیما مصطفی، سعدیہ دہلوی، دوردشن کی پہلی اینکر سلمیٰ سلطانہ،نغمہ سحر اور عارفہ خانم شیروانی، سماجی میدان میں سیّدہ سیّدین حمید، کھیلوں میںثانیہ مرزا اور فلم میں مینا کماری،سائرہ بانو اور شبانہ اعظمی اسی مسلم سماج سے آتی ہیں جو ملک کی تقسیم کے طعنے، فسادات کی مار، نامساعد حالات اور معاشی تنگی جھیلتا آرہا ہے۔ٹیچنگ کے بعد سائنس اورمیڈیکل کے میدان میں بھی مسلم لڑکیاں آرہی ہیں۔ مسلم لڑکیوں کے ڈراپ آئوٹ پر کسی طورکنٹرول کر لیا جائے تو حالات میں مزید خو شگوار تبدیلی آسکتی ہے جس کا پورا پورا امکان ہے۔ ایک نظر نیشنل سیمپل پر نظر ڈالیں تو نیشنل سیمپل سروے ہمیں بتا تا ہے کہ اسکول اور کا لجوں میں جانے والی مسلم لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2007-08 اور 2017-18 میں بھارت میں اعلیٰ تعلیم میں مسلم لڑکیوں کا اٹینڈینس ریشو (GRA)6.7فیصد سے بڑھ کر 13.5فیصد ہوگیا جس میں کالج جانے والی 18سے 23سال کی مسلم لڑکیاں شامل ہیں۔ مانا آبادی کے تناسب سے یہ فیصد کم ہے لیکن اضافہ ہوا ہے جبکہ ہندو لڑکیوں میں 2007-08 میں یہ اٹینڈینس ریشوجو 13.4فیصد تھا وہ 2017-18 میں بڑھ کر24.3 فیصد ہوگیا۔ اگر کرناٹک کی بات کریں تو 2007-08 میں یہ اٹینڈینس ریشو 1.1فیصد تھا جو 201-18میں 15.8فیصدتک پہنچ گیا۔اسی کے ساتھ یونیفائڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجو کیشن (UDISE) کے بیسک اور سیکنڈری ایجو کیشن (5th to 8th) کے کل رجسٹریشن میں مسلم لڑکیاں 2015-16میں 13.30فیصد سے بڑھ کر 14.54فیصد پر پہنچ گیا تھا جبکہ کر ناٹک میں یہ 15.16 فیصد سے بڑھ کر 15.81 فیصد تھا۔یہ اعداد شمار بتا تے ہیں کہ مسلم لڑکیاں اسی طرح آگے بڑھ رہی ہیں جس طرح دوسرے مذاہب کی لڑکیاں۔ ہر چند کہ مسلم لڑکیوں کی رفتار سست ہے لیکن ان کا سفر آگے کی طرف جاری ہے۔ کیا حجاب جیسے غیر ضروری تنازعات سے ان کا راستہ روکنے اور ان کوبیک ٹو پویلین کی یہ کوئی کوشش یا سازش ہے جو کی جا رہی ہے؟ اگر ہے تویہ وقتی ہے ہمارے خیال میں اس سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔۔۔
[email protected]