صبیح احمد
بہار ملک کے ان سب سے زیادہ سیلاب متاثرہ ریاستوں میں شامل ہے جو ملک کے سیلاب متاثرہ علاقے کا تقریباً 17.2 فیصد ہے۔ شمالی بہار کا 76 اور جنوبی بہار کا 73 فیصد زمینی حصہ سیلاب سے متاثر رہتا ہے۔ مانسون آنے کے ساتھ ہی بہار کے 38 میں سے 28 اضلاع سیلاب کی زد میں آ جاتے ہیں۔ اس سال بھی مانسون نے ریاست میں دستک دے دی ہے۔ خاص طور پر ریاست کے شمالی حصے میں خوب اور مسلسل بارش ہو رہی ہے جس کی وجہ سے متھلانچل، سیمانچل اور کوسی علاقے کی ندیوں میں طغیانی زوروں پر ہے۔ کئی علاقے سیلاب اور کٹائو کی زد میںہیں۔ گھروں میں پانی گھس گیا ہے اور بڑے پیمانے پر فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ سیلاب کے سبب جانی و مالی نقصان ہر سال کا معمول بن کر رہ گیا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شمالی بہار کے مجموعی جغرافیائی خطہ کا تقریباً 73.63 فیصد سیلاب متاثرہ ہے۔ اس خطہ میں تقریباً ہر سال سیلاب آتا ہے جس سے زندگیوں، بنیادی ڈھانچہ اور فصلوں کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ اس سال بھی خطہ میں ابھی سے یعنی برسات کے موسم کے اوائل میں ہی تباہ کن سیلاب آ چکا ہے جس سے لاکھوں لوگ متاثر ہیں اور بہت سارے لوگوں کی جانیں بھی چلی گئیں۔ ہندوستان کے مجموعی سیلاب متاثرہ علاقوں کا تقریباً 16.5 فیصد بہار میں ہے اور وہ بھی خاص طو رپر شمالی بہار میں۔ شمالی بہار کے سب سے زیادہ سیلاب متاثرہ اضلاع دربھنگہ، مدھوبنی، سپول سہرسہ، مدھے پورہ، کھگریا، مظفر پور اور خصوصاً سیمانچل کے ارریہ، کشن گنج، پورنیہ، کٹیہار کے ساتھ ساتھ مشرقی چمپارن، مغربی چمپارن، گوپال گنج و دیگر ہیں۔ گنڈک، بوڑھی گنڈک، کوسی، باگمتی، مہانندا، کنکئی، کول، کملا، بالن، پرمان اور بکرائو جیسی ندیوں کے سبب سیمانچل میں ہر سال سیلاب آتا ہے۔ حالانکہ جنوبی بہار میں سال کی 12 ماہی ندیاں نہیں کے برابر ہیں، جو ہیں وہ صرف برسات کے موسم میں ہی کبھی کبھی سیلاب کی صورتحال پیدا کرتی ہیں لیکن گنگا ندی کے جنوبی کنارہ کے نزدیک واقع علاقے ہر 2-3 سال میں سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں۔
بہار میں سیلاب کے لیے اہم وجہ نیپال کی جانب سے آنے والی ندیاں ہیں۔ برسات کے موسم کے دوران نیپال میں زبردست بارش ہوتی ہے جس سے ان ندیوں کی آبی سطح میں اچانک اضافہ ہو جاتا ہے اور اکثر پانی باہر آ جاتا ہے جس کے نتیجے میں وادی کے علاقوں (شمالی بہار) میں سیلاب آجایا کرتا ہے۔ اس کے لیے اصل ذمہ دار نیپال میں کوسی ندی پر بننے والا کوسی بیراج ہے جسے پانی کی مقدار میں اضافہ ہونے پر کھولنا پڑتا ہے اور اسی کی وجہ سے سپول اور وادی کے دیگر اضلاع میں سیلاب کا پانی آجاتا ہے۔ دیگر وجوہات میں ندیوں کے کنارے بننے والے کمزور پشتے ہیں جو پانی کے دبائو میں بہہ جاتے ہیں اور آس پاس کے علاقوں میں ندیوںکا پانی پھیل جاتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ندیاں اپنے ساتھ کچھار کی مٹی لے کر آتی ہیں جو پشتوں کے سبب آس پاس نہیں پھیل پاتی اور جس سے ندی کی گہرائی کم ہوجاتی ہے جس سے ندیوں کے پانی کے بہائو کی صلاحیت کافی کم ہو جاتی ہے اور نتیجہ کے طور پر سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔
سیلاب کی وجہ سے ہر سال بڑے پیمانے پر جانی و مالی تباہی ہوتی ہے۔ فصلوں کے ساتھ ساتھ کٹائو کے سبب درخت و جنگلات بھی سیلاب کے پانی میں بہہ جاتے ہیں۔ مکانات، بنیادی صحت مراکز، ریلوے و دیگر آمد و رفت کے وسائل اور بجلی و دیگر مواصلاتی سہولیات جیسے بنیادی ڈھانچے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ کھانے پینے کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیلاب کی وجہ سے کچھ بالواسطہ نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں، دستکاروں اور چھوٹی دکانوں کے مالکان کے روزگار ختم ہوجاتے ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی قلت ہو جاتی ہے۔ سیلاب کے بعد ملیریا، ٹائیفائڈ، ڈینگو وغیرہ جیسے مختلف متعدی اور غیر متعدی امراض کے سبب عام طور پر وبا پھیل جایا کرتی ہے۔ سیلاب کے دوران کٹائوسے زرخیز زمین کٹ کر ندی کا حصہ بن جاتی ہے اور باقی زمین بنجر ہوجاتی ہے۔ یعنی ہر سال عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سرکار کو بھی اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اتنے نقصانات کے باوجود اس مسئلہ کا مستقل حل نکالنے پر سنجیدگی سے غور کیوں نہیں کیاجاتا؟
بہار کی پہلی سیلاب پالیسی 1954 میں وضع کی گئی تھی جس میں سیلاب کا سبب بننے والی ندیوں کے پشتے کی لمبائی کو بڑھانے کی تجویز پیش کی گئی تھی جو اس وقت صرف 160کلومیٹر تھی۔ حالانکہ 2004 تک پشتوں کی لمبائی کو بڑھا کر 3465 کلومیٹر کر دیا گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیلاب کے خطرے والے علاقے بھی 25 لاکھ ہیکٹیئر سے بڑھ کر 68.9 لاکھ ہیکٹیئر ہو گئے۔ بہرحال ماہرین پشتے کو بہار میں سیلاب کے مسئلہ کے مستقل حل کے لیے معاون قرار نہیں دیتے ہیں کیونکہ اکثر اوقات ندیوں میں پانی کا دبائو بڑھنے سے یہ پشتے ٹوٹ جایا کرتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر علاقہ میں مزید تباہ کن سیلاب آ جاتا ہے۔ مسئلہ کے حل کے لیے ایک یہ ترکیب بھی تجویز کی جاتی ہے کہ ہر سال برسات کے موسم سے قبل ندیوں کی سطح کی صفائی کی جائے تاکہ ندیوں کے پانی کو اپنے اندر سمیٹنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکے۔ مختلف مقامات پر باندھ بنا کر بھی سیلاب کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ نہروں کے ذریعہ ندیوں کو جوڑکر بھی سیلاب پر بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس ترکیب کے کئی اور بھی فائدے ہو سکتے ہیں۔ مثلاً سینچائی اور زیر زمین پانی کی سطح میں اضافہ کے ساتھ ساتھ انسانی سرگرمیوں کے لیے ہمہ وقت پانی کی دستیابی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر بہار میں بہت ساری نہریں بنا کر گنڈک، باگمتی، بوڑھی گنڈک، کوسی، مہانندا اور دیگر ندیوں کو مختلف مقامات پر جوڑا جا سکتا ہے۔ ان اقدامات کے لیے وسائل کی بھی کمی نہیں ہے۔ صرف سیاسی قوت ارادی کا فقدان ہے۔
خصوصاً سیمانچل کے اہم اضلاع کٹیہار، پورنیہ، ارریہ، سہرسہ، سپول اور مدھے پورہ کوسی بیلٹ میں آتے ہیں جبکہ بہادر گنج، ٹیڑھا گاچھ، کوچا دھامن، ٹھاکر گنج اور دیگھل بینک وغیرہ بلاک پر مشتمل کشن گنج ضلع مہانندا بیلٹ میں آتا ہے۔ یہ اضلاع بلا ناغہ ہر سال سیلاب کی زد میں آتے ہیں۔ اس خطہ میں 2 درجن سے زائد ارکان اسمبلی ہیں لیکن سیمانچل کے اس خطہ میں ہر سال آنے والا تباہ کن سیلاب کبھی بھی انتخابی ایشو نہیں بن پایا۔ آخر کیوں؟ پہلی وجہ یہ ہے کہ یہاں کی سیاست مذہب، کنبہ و خاندان اور رشتوں وغیرہ کے ارد گرد ہی محصور کر دی جاتی ہے۔ دوسری یہ کہ ترقیاتی پروجیکٹس اور بہتر حکمرانی صرف کاغذ تک ہی محدود رہتی ہے، حقیقت کا جامہ شاید ہی پہن پاتی ہے۔ الیکشن کے دوران نان ایشوز کو ایشو بنا دیا جاتا ہے جبکہ اصل ایشو یہ ہے کہ سیمانچل سمیت بہار کا تقریباً 70 فیصد علاقہ سیلاب متاثرہ ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس مسئلہ کے حل کیلئے جو بھی تھوڑا بہت کام کیا جاتا ہے، سیاستدانوں، سول انجینئروں اور ٹھیکیداروں کی طاقتور تگڑی کی وجہ سے وہ بھی عارضی ثابت ہوتا ہے۔ چوتھی وجہ بے پروا اور بے حس بیوروکریسی ہے۔ یہاں تک کہ سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری کے کاموں میں بھی حد سے زیادہ بے ضابطگیاں، کرپشن اور اقربا پروری دیکھنے کو ملتی ہے۔
بہرحال ان سب کیلئے سب سے بڑی ذمہ دار سول سوسائٹی ہے۔ خطہ میں سول سوسائٹی بے حس بلکہ بے جان ہو کر رہ گئی ہے۔ سرکاری سطح پر جتنی بھی بدعنوانی یا بے ضابطگیاں ہوتی ہیں، سب کی مار عام لوگوں کو ہی جھیلنی پڑتی ہے لیکن سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی سول سوسائٹی ایسی آنکھیں بند کیے رہتی ہے جیسے اسے کچھ معلوم ہی نہیں۔ جہاں تک مقامی عوامی نمائندوں کا سوال ہے، آج کل خاص طور پر برسات کے موسم میں ان لوگوں نے ’سیلابی سیاحت‘ کا ایک نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ رکن پارلیمنٹ سے لے کر ارکان اسمبلی تک سبھی سیلاب زدہ علاقوں میں جاتے ہیں۔ لائو لشکر کے ساتھ ندیوں کے کنارے کھڑے ہو کر دور دور تک سیلابی پانی کے نظارہ سے محظوظ ہوتے ہیں اور لوگوں کو کچھ دلاسہ دے کر آ جاتے ہیں۔ اسے اپنی ذمہ داری کی ادئیگی سمجھ کر اگلے سال کے سیلاب کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ عملی طور پر تھوڑا سا چوڑا اور گڑ تقسیم کروانے کے علاوہ مسئلہ کا کوئی مستقل حل نکالنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ ہاں! فوٹو کھنچوا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنا ہرگز نہیں بھولتے!
[email protected]