شمال مشرقی ریاستوں کیلئے خطرہ بنتا زمین کا کٹاؤ

0

پنکج چترویدی

30 جون کی رات منی پور کے نونی ضلع میں ریلوے کی تعمیر کے مقام پر قہر بن کر آئی۔ ایک پورا پہاڑ ٹوٹ کر تقریباً 300 فٹ نیچے گرا اور شمال مشرقی ریاستوں کو آسیان ممالک سے سیدھے جوڑنے کے ارادے سے بن رہی 111 کلومیٹر ریلوے لائن کے زریبار-توپل تعمیرکیمپ کو نگل گیا۔ ابھی تک 46 لاشیں مل چکی ہیں، 17 سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔ مہلوکین میں ایک درجن سے زائد فوج کے ہیں، کچھ ریلوے کے ملازمین اور کنسٹرکشن کمپنی کے انجینئر اور مقامی شہری ہیں۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ منی پور کے لوگ اس پروجیکٹ سے خوش نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے وہاں اندھادھند جنگلات تو کٹے ہی، ہمالیہ کے بڑھتے جوان پہاڑوں کو بے ترتیب کاٹنے کے ممکنہ خطرات پر کوئی مطالعہ بھی نہیں کیا گیا۔ واضح ہو کہ 2014 سے 2020 کے دوران منی پور میںلینڈ سلائیڈنگ کے20 بڑے واقعات ہو چکے ہیں۔ درحقیقت پورا شمال مشرق ایک طرف ہمالیائی سلسلوں سے ڈھکا ہوا ہے، تو اس کی زمین برہم پترا اور براک ندیوں سے بہہ کر آئی مٹی سے بنی ہے۔ وہاں کی ندی دھارا یا ندی میں پانی کے بہاؤ میں ذرا سی بھی رکاوٹ آجائے تو بڑی قدرتی آفات آتی ہیں۔
جس جگہ پر یہ ہولناک حادثہ ہوا، وہاں پہاڑوں سے نیچے اتر کر اِجیئی ندی آتی ہے۔ یہ ایرانگ ندی کی معاون ہے اور نگا اکثریتی اضلاع سیناپتی، تمینگ لانگ اور نانے میں بہتی ہے اور یہاں کے لوگوں کی زندگی کی بنیاد ہے۔ یہ ندی آگے چل کر براک میں مل جاتی ہے۔ مسلسل تعمیرات، سرنگ بنانے کے لیے بھاری مشینوں کے استعمال سے اس ندی کے قدرتی پانی کے بہاؤ میں خلل پڑا اور اس کی وجہ سے وادی پر مٹی کی پکڑ کمزور پڑگئی جس کے آنچل کے نیچے ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کا کیمپ لگا تھا، تاہم گزشتہ ایک ماہ کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ تریپورہ، میزورم، منی پور اور جنوبی آسام کابڑا حصہ سڑک سے ملک سے پوری طرح کٹا رہا، کیونکہ نیشنل ہائی وے-6 میگھالیہ کے مشرقی جینتیاں ضلع میں زمین کٹاؤ سے پوری طرح تباہ ہو گیا تھا۔ وہاں ایک بار سڑک کی مرمت ہوئی اور 24 گھنٹے میں دوسری مرتبہ پھر پہاڑ کٹ کر سڑک پر آگیا۔ سوناپور سرنگ لُم-شیون کے پاس بند ہو گئی۔ ناگالینڈ میں نوکلام ضلع میں پنیاگینن، نوکیال وغیرہ میں بہت سے گاؤں غائب ہوگئے۔
لینڈ سلائیڈنگ اور ندی کے کنارے مٹی کا کٹاؤ شمال مشرقی ریاستوں کے لیے خوفناک ہے۔ صدیوں پہلے ندیوں کے ساتھ بہہ کر آئی مٹی سے بننے والی آسام ریاست اب انہی وسیع آبی زنجیروں کے جال میں پھنس کر سیلاب اور زمین کے کٹاؤ کی لعنت کی زد میں ہے۔برہم پتر اور براک اور ان کی کوئی 50 معاون ندیوں کا تیز رفتار بہاؤ شمال مشرقی ہندوستان میں اس کے کناروں پر آباد بستیوں اور کھیتوں کو جس طرح تباہ کر رہا ہے، اس سے ریاست میں کئی طرح کی سماجی-نظم و نسق سے متعلق اور معاشی بدحالی جنم لے رہی ہے۔ بارش ہوتے ہی کہیں تیز دھار زمین کو کھا رہی ہے تو کہیں دھار کے دباؤ سے پہاڑ کٹ رہے ہیں۔
نیشنل فلڈ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق شمال مشرقی ریاستوں میں ہر سال سیلاب کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے اور ان میں سب سے خطرناک ہے ندیوں کے ذریعہ اپنے ہی کناروں کو کھا جانا۔ گزشتہ 6 دہائیوں کے دوران صرف ریاست آسام کی 4.27 لاکھ ہیکٹیئر اراضی کٹ کر پانی میں بہہ چکی ہے جو ریاست کے کل رقبے کا 7.40 فیصد ہے۔ ہر سال اوسطاً آٹھ ہزار ہیکٹیئر اراضی ندیوں کے تیز بہاؤ میں کٹ رہی ہیں جبکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ شمال مشرق کی آٹھوں ریاستوں کی زندگی، عوام، معیشت کا دار و مدار دریائے برہم پتر اور اس کی سہیلیوں کی اٹھکھیلیوں پر ہے۔
سال 1912-28 کے دوران جب برہم پتر ندی کا مطالعہ کیا گیا تھا تو یہ تقریباً 3870 مربع کلومیٹر کے علاقے سے گزرتی تھی۔ 2006 میں کیے گئے اسی طرح کے مطالعے سے پتہ چلا کہ دریا کا زمینی رقبہ 57 فیصد بڑھ کر 6080 مربع کلومیٹر ہو گیا۔ حالانکہ ندی کی اوسط چوڑائی 5.46 کلومیٹر ہے لیکن کٹاؤ کی وجہ سے برہم پتر کا پل کئی جگہوں پر 15 کلومیٹر تک چوڑا ہو گیا ہے۔2001 میں 5348 ہیکٹیئر زرخیز زمین کٹاؤ سے متاثر ہوئی جس میں 227 گاؤں متاثر ہوئے اور 7395 لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا۔ 2004 میں یہ تعداد 20724 ہیکٹیئر اراضی، 1245 دیہات اور 62,258 لوگوں کے بے گھرہونے تک پہنچ گئی۔ صرف 2010 اور 2015 کے دوران ندی کے بہاؤ میں 880 گاوؤں پوری طرح بہہ گئے جبکہ 67 گاوؤں جزوی طور پر متاثر ہوئے۔ ایسے گاوؤں کے مستقبل کا اندازہ زیادہ سے زیادہ دس سال لگایا گیا ہے۔ ویسے آسام کی تقریباً 25 لاکھ آبادی ایسے گاوؤں میں رہتی ہے جہاں ہر سال ندی ان کے گھر کے قریب آ رہی ہے۔ ایسے علاقوں کو یہاں ’چار‘ کہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سی ندیوں کے درمیان جزیرے بھی ہیں۔ ہر بار ’چار‘ کا بحران، زمین کے کٹاؤ کو روکنا، معاوضہ، بحالی انتخابی ایشوز بھی ہوتے ہیں، لیکن یہاں کی آبادی کو کس قدر نظر انداز کیا جاتا ہے، اس کا نمونہ یہاں کی شرح خواندگی ہے جو کہ صرف 19 فیصد ہے۔ یہاں کی 67 فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے ہے۔ تن سکھیا سے دھبری تک ندی کے کنارے زمین کا کٹاؤ، مکانات اور کھیتوں کی بربادی، نقل مکانی، غربت اور غیر یقینی کی انتہائی قابل رحم تصویر ہے۔ کہیں لوگوں کے پاس زمین کے کاغذات ہیں تو زمین نہیں تو کہیں سیلاب-کٹاؤ میں ان کے دستاویز بہہ گئے اور وہ شہریت کے رجسٹر میں ’ڈی‘زمرے میں آ گئے جس کی وجہ سے آپسی تنازعات، سماجی ٹکراؤ بھی گہرے درد دے رہے ہیں۔
سال2019 میں پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں آبی وسائل کے وزیر مملکت رتن لال کٹاریہ نے معلومات فراہم کی تھی کہ اب تک ریاست میں 86536لوگ کٹاؤ کی وجہ سے بے زمین ہوگئے ہیں۔ سونیت پور ضلع میں 27,11 لوگوں کی زمین ندی میں بہہ گئی تو موریگاؤں میں 18,425، ماجولی میں 10500، کامروپ میں 9337 لوگ اپنی زمین سے محروم ہوگئے ہیں۔
یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ آب و ہوا میں تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر شمال مشرقی ریاستوں پر پڑا ہے۔ صدیوں تک دنیا میں سب سے زیادہ بارشوں کے لیے مشہور اور پھر کم بارشوں کی وجہ سے دہائیوں تک بدنام ہوگئے چیرا پونجی میں اس سال دو دن میں ہی بارش نے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ گزشتہ ایک دہائی میں شمال مشرق کی اچھوتی فطرت پر جنگلات کی کٹائی سے لے کر کان کنی تک نے زبردست قہر بپا کیا ہے۔ زمین کے کٹاؤ کی بڑی وجہ ریاستوں کے جنگلات اور گیلی زمینوں پر تجاوزات اور کئی جگہوں پر کان کنی بھی ہے۔ ہزاروں پکھری دھبری ندی سے چھلکے پانی کو پورے سال سنبھالتے تھے۔ بدقسمتی سے ایسی جگہوں پر تجاوزات سے گائوں کی سطح پر متاثر ہوگئے اور تبھی ندی کو اپنے ہی کنارے کاٹنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں نظر آیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شمال مشرق کے جغرافیائی حالات پیچیدہ ہیں۔ چین نے برہم پتر پر کئی بڑے ڈیم بنائے ہیں۔ ان ڈیموں میں جب کبھی پانی کافی جمع ہو جاتا ہے تو پانی بے ترتیب طریقے سے چھوڑا جاتا ہے، ایک تو ندیوں کا اپنا بہاؤ اور پھر ساتھ میں ڈیم سے چھوڑا گیا پانی، ان کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے اور اس سے زمین کا کٹاؤ ہونا ہی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ شمال مشرق کی ندیوں میں ڈریجنگ کے ذریعہ گہرائی کو بڑھایا جائے۔ اس کے کناروں پر گھنے جنگلات لگیں اور ریت کی کان کنی پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ امریکہ کی مسی سیپی ندی بھی کبھی ایسے ہی زمین کا کٹاؤ کرتی تھی۔ وہاں 1989 میں پشتے کو مختلف طریقے سے بنایا گیا اور اس کے ساتھ کھیتی باڑی کے تجربات کیے گئے۔ آج وہاں ندی کا کٹاؤ پوری طرح قابو میں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS