نمک کا حق ادا ہوا اب قیمت کی باری

0

انجینئر خالد رشید علیگ
یوپی الیکشن کے نتائج اب دو ہفتہ پرانے ہو چکے ہیں، یوگی جی دوبارہ وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی ٹیم بھی بنا لی ہے جو کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں ٹیم یوگی سے زیادہ ٹیم مودی لگ رہی ہے وہ اے کے شرما جن کو یوگی جی نے اپنی کابینہ میں شامل کرنے سے 2021 میں انکار کر دیا تھا اور چار دن ان کو ملنے کا وقت نہیں دیا تھا ان کو بھی کابینہ میں نہ صرف جگہ مل گئی ہے بلکہ شہری ترقی اور توانائی کی اہم وزارت سونپ دی گئی ہے اور ان کیشو پرساد کو بھی الیکشن ہار جانے کے باوجود نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی واپس مل گئی ہے جن کو یوگی جی نے اسٹول پر بیٹھا دیا تھا ان کو بھی دیہی ترقی کا ذمہ مل گیا ہے اور انہوں نے جس طرح حلف برداری کے بعد مودی جی کے پیر چھوئے اس سے بھی سیاسی پنڈتوں کی ان قیاس آرائیوں کو نئے پر عطا کر دیے ہیںجو اس کابینہ کو امت شاہ کے دماغ کی اپج بتا رہے ہیں۔ اب یہ خیال اور بھی قوی ہو چکا ہے کہ بی جے پی کی اس جیت میں یوگی جی کے بلڈوزر سے زیادہ مودی جی کے اس دال اور نمک کا رول تھا جو عوام کو مفت تقسیم کیا گیا جس کو آیوشمان پردھان منتری آواس یوجنا، نقد 6 ہزار روپے کسانوں کے اکاؤنٹ میں ڈالنے اور اجولا گیس سلنڈر نے مزید تقویت پہنچائی۔ شاید یوگی جی کو ان کی غلطیوں کا احساس چناوی مہم کے دوران ہی کرا دیا گیا تھا جس کا ثبوت ان کا چپ چاپ ایودھیا سے گورکھپور سے الیکشن لڑنے کے لئے تیار ہو جانا تھا۔ یہ ساری باتیں اس حقیقت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں کہ یوگی جی کی جیت میں ان مستفیدین لابھارتھیوں کا بہت بڑا رول رہا اور انہیں فائدہ مند اسکیموں کے ذریعہ بی جے پی ذات پات کے اس تانے بانے کو توڑنے میں کامیاب رہی جو اکھلیش یادو اور ان کے ساتھیوں نے بنایا تھا۔ بی جے پی کو بھی اس امر کا بخوبی اندازہ تھا اسی لیے یوپی کابینہ نے جیتنے کے فوراً بعد مفت راشن کی اسکیم کو مزید تین ماہ کے لیے بڑھا دیا۔ سنا یہ جا رہا ہے کہ مفت راشن کی اس اسکیم کو آنے والے پارلیمانی انتخابات تک جاری رکھا جائے گا۔
سیاسی تجزیہ نگار اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ اتنی اگر ایک اگریسو الیکشن مہم چلانے اور مضبوط اتحاد بنانے کے بعد بھی اکھلیش کا الیکشن ہار جانا اور یوگی جی کا دوبارہ وزیر اعلیٰ بن جانا ایک معجزے سے کم نہیں تھا جو صرف ان لابھارتھیوں کی وجہ سے ممکن ہو پایا، اب سیاست تو اپنے انجام کو پہنچی اب سوال ان اسکیموںکا ہے جن مراعات کے نتیجہ میں یہ معجزہ ہوا ہے ان کو جاری رکھنا اور اپنے دوسرے چناوی وعدوں کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہو یا نہ ہو مجبوری ضرور ہے۔ 2024 میں پھر اگنی پریکشا میں جانا ہے اور اگر اس اگنی پریکشا میں کامیاب ہونا ہے تو ووٹر کو پہلے سے زیادہ ہی کچھ دینا ہوگا۔ یعنی اگر پہلے معمولی نمک سے کام چل گیا تھا تو اب ووٹر آیوڈین والے نمک کا مطالبہ کرے گا اور حکومت کو وہ دینا پڑے گا ورنہ اس بار ووٹر سرکار پہ نمک حرامی کا الزام لگا کر منہ موڑ لے گا۔ ہندوستان کے غریب عوام کے لیے یہ نئے لابھارتھیوں کی پالیسی بری نہیں ہے، پہلے تو یہ ہوا کرتا تھا کہ ووٹر کو الیکشن کی رات 500 روپے کے ساتھ ایک شراب کی بوتل دے کر کام چل جایا کرتا تھا مگر دلی کے کجریوال نے ووٹر کے ذہن میں نئی امیدیں جگا دیں اور مودی جی نے ان امیدوں کو سنہری کاغذمیں لپیٹ کر عوام کو پروس دیا اور اب تو ووٹر ہر سیاسی پارٹی سے یہی مطالبہ کرے گا او ر تمام سیاسی پارٹیوں کو اسی پالیسی پہ عمل کرنا ہوگا۔ ملین ڈالر کاسوال یہ ہے کہ ان پرکشش وعدوں اور اسکیموں کے لئے ذرائع کون مہیا کرائے گا اور اس کی قیمت کون ادا کرے گا؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اگر سرکاریں کسی طرح اس روبن ہوڈ پالیسی کو جاری رکھنے میں کامیاب ہو بھی گئیں اور وہ پیسہ بھی مہیا کرا دیا گیا جس کی ان اسکیموں کو جاری رکھنے کے ضرورت پڑے گی تو بھی ملک کی سماجی صورت حال پر اس کا کیا اثر مرتب ہوگا اور اگر ملک کے 80 کروڑ عوام کو گھر بیٹھے دال، روٹی، گیس سلنڈر، تیل، چاول اور پھر مفت گھر اور اس گھر میں مفت بجلی اور مفت دوا ملنے لگے تو کسی کو کام کرنے کی ضرورت پیش کیوںآئے گی؟ اور کیا ملک میں 80 کروڑ نکموں کی ایک فوج پیدا نہیں ہو جائے گی؟ ملک کی مسلح افواج میں اکثریت ان غریب اور متوسط طبقوں سے آتی ہے اگر ان سب نو جوانوں کو مفت اناج مفت اسکوٹی اور پھر ہر ماہ 2 لیٹر مفت پٹرول گھر بیٹھے مہیا کرا دیا جائے گا تو کون فوج میں بھرتی ہونے کے لیے جدوجہد کرے گا اور کیوں کرے گا؟ کیا ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا ان سیاسی پارٹیوں کا فرض نہیں جو ملک کی خدمت کے لیے دن رات محنت کر رہی ہیں جو اس ملک کو ایک بار پھر مغلوں کے دور کی طرح سونے کی چڑیا بنانا چاہتی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پرکشش وعدوں کا یہ پٹارہ کسی ایک سیاسی جماعت کی ملکیت نہیں ہے بلکہ سبھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ ایک فری بجلی کی بات کرتا ہے تو دوسرا اس میں اسکوٹی جوڑ دیتا ہے اور تیسرے کو اسکوٹی کے ساتھ فری پٹرول کا وعدہ کرنا پڑتا ہے۔ چوتھا نمک سے لے کر مفت مسکن تک فراہم کرانے کی بات کرتا ہے اور ووٹر فی الحال تو بہت خوش ہے کہ گھر بیٹھے سب کچھ مل رہا ہے۔ گاؤں میں کھیتی کے لیے مزدور نہیں ملتے کسی کو مزدوری کی ضرورت ہی نہیں، پہلے تو صرف منریگا تھی، اس میں بھی تھوڑا بہت کام کرنا پڑتا تھا۔ ا ب سب مگن ہیں، گھر بیٹھے سب کچھ ملے گا اور ہر چناؤ کے ساتھ اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہی ہوگا۔ ہو سکتا ہے 2024 سے پہلے سیاسی پارٹیاں اپنے منشوروں میں ہر دن ایک بوتل شراب کا بھی وعدہ کر لیں۔ لکھنے کو ابھی بھی بہت کچھ باقی ہے مگر کالم کی اپنی مجبوری ہوتی ہے فی الحال ایک مہاورے سے ختم کرتا ہوں جسے ملے یوں وہ کرے کیوں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS