محمد حنیف خان
جمہوریت میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس میں کوئی شک نہیں، لیکن ریاست کی سیاست میں جو لوگ ہوتے ہیں ان میں اکثریت کا مذہب ضرور ہوتا ہے،اس میں بھی کسی طرح کا کوئی تذبذب نہیں۔ایسے میں اگر حکومت اتر پردیش نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی مدرسہ کو سرکاری مراعات اور سرکاری فنڈ /مالی امداد نہیں دے گی تو مسلمانوں کو کسی بھی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔لیکن کوئی بھی حکومت یک رخی نہیں چل سکتی ہے، حکومت کا کام یہ ہے کہ وہ ملک اور قوم کی چہار طرفہ ترقی کے لیے کام کرے۔وہ کسی بھی مذہب کو فروغ دینے کے بجائے جمہوریت میں یقین کرے اور اسی کو فروغ دے۔آئین نے جمہوری نظام کے تحت اقلیتوں اور اکثریتوں کو جو حقوق دیے ہیں، ان میں کسی بھی طرح سے وہ نہ تو کتر بیونت کرے اور نہ ہی دخل اندازی کی کوشش کرے۔اس تناظر میں اگر حکومت اتر پردیش کی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو کیا وہ ایک جمہوری حکومت کے طرز پر کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے؟
سوالات بہت سے ہیں اور ان کے جوابات بھی بہت سے ہو سکتے ہیں لیکن ان دونوں کے برعکس ہمیں حکومت کے ظاہری عمل کے ساتھ اس کے موقف اور فکری تناظر کو بھی دیکھنا ہوگا۔یوپی میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں دوسری بار بی جے پی نے حکومت بنائی ہے اور وہ پہلے کی طرح اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔جس حکومت کی کابینہ نے مدرسوں کو مالیاتی فنڈ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے،اسی حکومت نے اجودھیا میںدیوالی کے موقع پر لاکھوں کروڑوں روپے کے دیئے جلوائے تھے، اسی حکومت کے اعلیٰ افسران نے کانوڑیوں پر ہیلی کاپٹر سے پھول برسائے تھے۔اس کے علاوہ اور بھی متعدد ایسے کام ہیں جو حکومت کی جانب سے ایک طبقے کے لیے کیے گئے ہیں۔جب سرکار نے یہ سب کیا تو اقلیتی طبقے میں سے کسی نے اس کے خلاف آواز تک نہیں اٹھائی،اب اگر حکومت ان مدرسوں کو مالی تعاون نہیں دے رہی ہے جن کو اکھلیش یادو کی قیادت والی سماجوادی پارٹی نے مالی تعاون دینے کا صرف اس لیے فیصلہ کیا تھا تاکہ اقلیتی طبقہ بھی تعلیم کی راہ سے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کرسکے تو ہمیں اس پر اعتراض ضرور ہوگا۔چونکہ حکومت کا مذہب نہیں ہوتا، اس کے باوجود اگر حکومت ایک طبقے کے مذہبی امور میں تعاون کرتی ہے اور دوسرے کے لیے دروازے بند کرتی ہے تو یقینی طور پر اس کو حکومت کے دو چشمی نظر سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔
اعداد و شمار کے مطابق اتر پردیش میں16461مدارس چل رہے ہیں جن میں سے 558ایسے مدارس ہیں جن کو حکومت کی جانب سے مالی تعاون مل رہا ہے۔در اصل سماج وادی پارٹی کی حکومت نے سال 2003تک منظور شدہ 146مدرسوں کو مالی تعاون کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر ان میں سے صرف 100مدارس کو ہی شامل کیا جاسکا جس کی وجہ سے 46مدرسے مالی تعاون کی فہرست میں شمولیت سے بچ گئے تھے۔ان مدرسوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس کے حکم کی بنیاد پر ایک مدرسے کو پھر اس فہرست میں شامل کر لیا گیا،لیکن اترپردیش حکومت کی کابینہ نے اکھلیش یادو کی حکومت کے فیصلے کو پلٹ دیا ہے۔اس فیصلے میں ایسی شقیں بھی ڈالی گئی ہیں جن کی وجہ سے یہ مدارس اب عدالت کا بھی دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتے ہیں۔دوسری طرف اسی حکومت نے چند دنوں قبل یہ حکم نامہ جاری کیا تھا کہ اترپردیش میں چلنے والے سبھی مدارس خواہ وہ مالی تعاون پاتے ہوں یا نہ پاتے ہوں کلاس شروع ہونے سے قبل ’دعائیہ تقریب ‘ میں قومی ترانہ ضرور پڑھیں گے۔قومی ترانہ پڑھنے پر کسی بھی مسلم کو کبھی کوئی اعتراض نہیں رہا ہے لیکن یہ عمل مخصوص تقریبات میں ہی انجام پاتا تھا۔مگر چونکہ حکومت کو ایک خاص پیغام دینا تھا اور ملک کو یہ بتانا تھا کہ وہ اس لیے قومی ترانہ لازم کررہی ہے کیونکہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ملک سے محبت نہیں کرتی ہے، اس لیے اس میں یہ جذبہ پیدا کرنے کے لیے ہم نے یہ کام کیا ہے۔ حکومت کے اس قدم پر بھی کسی نے اعتراض نہیں کیا کیونکہ بظاہر اس کا مستحسن قدم تھا کہ وہ ملک کے عوام میں حب الوطنی کو فروغ دے رہی ہے لیکن اس کے پس پشت جو مقاصد تھے، وہ بھی عیاں تھے۔جب مدارس میں قومی ترانے کو یومیہ لازم قرار دیا گیا اور سماجی روابط کی ویب سائٹوں پر یہ خبر آئی تو ان خبروں کے نیچے جو تبصرے نظر آئے ان سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت محب وطن نہیں ہے۔مدارس کو مالی امداد نہ دینے کی خبر پر بھی اسی طرح کا رد عمل دیکھنے کو مل رہاہے۔بہت سے لوگ حکومت کے اس قدم کو مستحسن قرار دے رہے ہیں، ان کے مطابق چونکہ حکومت کا کام مذہبی امور کی انجام دہی میں تعاون نہیں ہے اس لیے حکومت نے یہ قدم اٹھایا ہے مگر یہی افراد اس وقت بالکل خاموش تھے جب کانوڑیوں پر ہیلی کاپٹر سے پھول برسائے جارہے تھے اور اجودھیامیں سرکاری خرچ پر دیئے جلائے گئے تھے بلکہ یہ اس بات پر خوش اور نازاں تھے کہ حکومت نے پوری اجودھیا کو روشن کردیا ہے اور یہ پہلی بار ہوا ہے۔اس سے حکومت اور اس کے ہمنواؤں کی ذہنیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔وہ اکثریتی طبقے کے خالص مذہبی امور میں تعاون پر تو خوش ہوتے ہیں لیکن اقلیتی طبقے کی تعلیم کے میدان میں تعاون پر ان کے پیٹ میں درد ہوتا ہے جب کہ اس سے دلتوں سے بھی پسماندہ طبقے کو پرواز ملنے کا امکان ہے اور اسی مقصد کے تحت مدارس کو گرانٹ لسٹ میں شامل بھی کیا گیا تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ اقلیتی طبقہ حکومت کے ہر قدم کو شک کی نگاہ سے ہی دیکھتا ہے، 3؍اپریل 2022کو حکومت اترپردیش نے مدرسہ تعلیم میں بڑی تبدیلی کا فیصلہ کیا تو اس کا استقبال کیا گیا تھا چونکہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ٹیچر ایلجبلٹی ٹیسٹ (ٹی ای ٹی)کی طرح اب مدارس میں بھی ایم ٹی ای ٹی پاس کرنا اساتذہ کے لیے ضروری ہوگا تاکہ ایسے اساتذہ کا انتخاب ہوسکے جو درس و تدریس کے فن میں ماہر ہوں،اسی طرح یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ مدارس سے بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے اب مدارس کے منتظمین /منیجر کو اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ براہ راست بھرتی کرسکیں تو اس قدم کو سراہا بھی گیا تھا کیونکہ مدارس کی تعلیم میں یہ دو ایسے مواقع تھے جب نئی نسل کے مستقبل سے سمجھوتا کر لیا جاتا تھا اور منتظمین اپنے اور اپنے اہل و عیال و اعزہ و اقارب کو اہلیت نہ ہونے کے باوجود استاد کی کرسی پر بٹھادیتے تھے اور حکومت سے ملنے والی تنخواہ کا فائدہ ان کو پہنچاتے تھے۔
حکومت کا مندرجہ بالا قدم تو یقینا مستحسن تھا لیکن جس طرح سے اس نے مدارس کو مالی تعاون نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ غیر مناسب ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مالی تعاون سے ایک پسماندہ قوم کا دو طرفہ فائدہ تھا ایک تو ملازمت کے مواقع تھے جس سے ان مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ اور ان کے اہل و عیال کی زندگی میں خوشحالی کا دروازہ کھلتا تھا۔دوسرے یہ اساتذہ اور اس سے وابستہ افراد کے بچے مالی فراوانی کی بنا پر عصری علوم حاصل کرنے کی استطاعت رکھتے تھے اور وہ اس بند دائرے سے نکل کر مین اسٹریم میں آجاتے تھے۔لیکن حکومت نے اس کو صرف اساتذہ کی زندگی میں خوشحالی کے طور پر دیکھا اور سوچا کہ اس نے مدارس میں پڑھنے والوں کی خوشحالی کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے، اس لیے امداد بند کردی مگر اس کو اس تعاون کو وسیع تناظر میں دیکھناچاہیے تھا۔حکومتیں کسی چیز کو محدود تناظر میں نہیں دیکھتی ہیں مگر اترپردیش کی بی جے پی سرکار نے ایسا ہی کیا ہے۔ حکومت کو مالی امداد روکنے کے بجائے ان مدارس کے نصاب اور نظام میں تبدیلی کرنا چاہیے تھی جس سے مدرسہ بورڈ کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوتا اور ملک و ریاست کی سب سے بڑی اقلیت کو مین اسٹریم میں شمولیت کا موقع ملتا،اس سے وہ ملک کی تعمیر وترقی میں بڑا کردار ادا کرسکتی تھی مگر حکومت نے ایسا نہ کرکے جو قدم اٹھایا ہے، اس سے ایک بڑے طبقے کو ناامیدی ہاتھ لگی ہے،ایک طرف نئی نسل کا مستقبل تاریکی کی نذر ہوا ہے تو دوسری طرف ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے حکومت نے اس کے راستے بھی مسدود کردیے ہیں جو کسی بھی صورت میں ملک و قوم کے لیے مناسب نہیں ہے۔حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت میں مذہب کی سیاست میں نقصان صرف ملک کو ہوتا ہے،حکومت کے فیصلے محض چند برسوں کے لیے کسی قوم کی ترقی کو روک سکتے ہیں مگر ہمیشہ کے لیے نہیں، لیکن اس سے برا نتیجہ یہ برا ٓمد ہوتا ہے کہ اس سے ملک کی ترقی رک جاتی ہے۔
[email protected]