گیان واپی مسجد تنازع: قدامت پسندی اور جدیدیت کی کشمکش

0

عبدالماجد نظامی

تشدد پسند ہندوؤں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت اور پھر ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے ذریعہ مسجد کی شہادت کو مجرمانہ عمل قرار دیے جانے کے باوجود ہندوؤں کے حق میں اپنا فیصلہ سنانے کے بعد سے ہی مسلمانوں میں یہ احساس جڑ پکڑ گیا ہے کہ انہیں عدالتی چارہ جوئی کے ذریعے بھی انصاف کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ اس کے برعکس جن انتہا پسند ہندوؤں نے یہ نعرہ دیا تھا کہ ’’بابری مسجد تو جھانکی ہے کاشی متھرا باقی ہے‘‘، ان کے سیاسی فلسفہ کو ملک کی عدالتیں بھی جواز فراہم کرنے میں لگ گئی ہیں۔ امید کی جا رہی تھی کہ بابری مسجد کو سپریم کورٹ کی مدد سے ہتھیانے کے بعد آئندہ کسی بھی مسجد یا عبادت گاہ پر ہندو انتہا پسند اپنا دعویٰ پیش نہیں کریں گے اور اسی امید میں مسلمانوں نے بابری مسجد کو کھو دینے کا غم بھی برداشت کر لیا تھا۔ آر ایس ایس نے بھی اپنے بیانات سے ظاہر کیا تھا کہ وہ آئندہ رام مندر جیسی کسی تحریک کا حصہ نہیں بنے گا اور شاید اسی لیے بابری مسجد معاملہ پر سپریم کورٹ کا جب فیصلہ متوقع تھا تب بھی اور اس کے بعد جب ہندوؤں کے حق میں عدالت کے ججوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا، اس وقت بھی آر ایس ایس نے اپنی تمام ماتحت تنظیموں اور افراد کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ اس فیصلہ پر جشن کا ماحول نہ بنائیں۔ بابری مسجد-رام مندر معاملہ پر سپریم کورٹ نے 9؍نومبر 2019 کو جب فیصلہ سنایا تھا تو اسی دن صحافیوں نے خود آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ اب وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ کا مسئلہ اٹھائیں گے؟ اس کے جواب میں موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ’’ایک خاص تاریخی پس منظر کی وجہ سے آر ایس ایس بطور تنظیم ایودھیا تحریک سے منسلک ہوگیا تھا۔ وہ ایک استثنائی صورت تھی۔ اب ہم دوبارہ سے اپنی توجہ انسانی ترقی کے معاملہ پر مرکوز کریں گے اور اس تحریک سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہوگا۔‘‘ اس کے علاوہ وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ’’اس دن کو ہر طرح کی تلخی مٹانے والے دن کی طرح یاد کیا جائے گا۔‘‘ لیکن حالیہ واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں جو کہ ایک ہی مسئلہ پر کئی قسم کے متضاد بیانات دے کر عوام کو گمراہ کرنے کی طویل تاریخ رکھتی ہیں، یہ بیان بھی عوام کو گمراہ کرنے کی غرض سے ہی دیا تھا ورنہ بابری مسجد کے بعد کاشی و متھرا کو ہندو ووٹ حاصل کرنے کے ذریعہ کے طور پر استعمال کرنے اور ہندو-مسلم تفرقہ کو ہوا دینے کا ان کا قدیم نسخہ کبھی سنگھ کے ایجنڈہ سے باہر گیا ہی نہیں تھا۔ اس کی واضح دلیل آر ایس ایس کے اکھل بھارتیہ پرچار پرمکھ سنیل امبیڈکر کا وہ بیان ہے جو انہوں نے صحافیوں کو اعزاز بخشنے کے لیے منعقد دیو رشی نارد جینتی اور پترکار سمان سماروہ میں دو دن قبل ہی دیا ہے۔ سنیل امبیڈکر نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’ان دنوں گیان واپی کا مسئلہ چل رہا ہے اور کچھ نئے حقائق سامنے آ رہے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ ان حقائق کو باہر آنے دینا چاہیے۔ سچائی بہر صورت باہر آنے کا راستہ ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔ آخر کار سچائی کو آپ کب تک چھپا سکتے ہیں؟ ہمارا ماننا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ تاریخی حقائق کو صحیح تناظر میں سماج کے سامنے پیش کر دیا جائے۔‘‘ اسی طرح بی جے پی کے اعلیٰ عہدیداران اب یہ بیانات دیتے نظر آ رہے ہیں کہ گیان واپی معاملہ پر جو نئی پیش رفت ہو رہی ہے، اس کی وجہ سے پارٹی کے اندر ازسر نو بحث شروع ہوگئی ہے جس کے تحت اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ شاید1991کی عبادت گاہوں سے متعلق خصوصی قانون پر بھی نظر ثانی کی ضرورت پیش آ جائے۔ اس قانون کے تحت15؍اگست1947کو عبادت گاہوں کی جو صورت تھی، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی اور خود سپریم کورٹ نے ایودھیا معاملہ پر فیصلہ سناتے وقت اس قانون کو ہماری سیکولر قدروں کی اہم خصوصیات میں شمار کیا تھا۔ اگر ساری باتیں اس حد تک صاف اور واضح تھیں تو آخر اس نئے ڈرامہ کا کیا مطلب ہے جس کا آغاز عدالتوں میں عرضیوں کے پیش کرنے سے ہوا اور اب معاملہ نچلی عدالت سے نکل کر ایک بار پھر سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ عرضی کی تفصیل یہ ہے کہ گزشتہ برس اپریل میں پانچ ہندو عورتوں نے وارانسی کی ایک نچلی عدالت میں یہ عرضی پیش کی کہ انہیں روزانہ درشن اور قدیم مندر کمپلیکس میں موجود ماں شرنگار گوری اور دیگر دیوی دیوتاؤں کی پوجا ارچنا کی اجازت دی جائے۔ عرضی گزاروں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ کاشی وشوناتھ مندر سے متصل مسجد کی جو مغربی دیوار ہے، اس پر دیوی ماں کی تصویر بھی موجود ہے۔ عدالت کو1991ایکٹ کو دھیان میں رکھتے ہوئے اس عرضی کو فوراً مسترد کر دینا چاہیے تھا لیکن اس نے ایک سول کمشنر کو متعین کر دیا اور انہیں یہ ذمہ داری سونپ دی کہ وہ ویڈیوگرافی کے ذریعہ مسجد احاطہ کا سروے کریں۔ سروے میں حیرت انگیز طور پر یہ دعویٰ کر دیا گیا کہ ’شیولنگ‘ مسجد کے احاطہ میں پایا گیا ہے جبکہ انجمن مسجد انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ شیولنگ نہیں بلکہ وضو خانہ کا فوارہ ہے۔ تادم تحریر معاملہ کی نوعیت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے مسلمانوں کو بلا روک ٹوک مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دے دی ہے جبکہ وارانسی کے ڈی ایم کو اس حصہ کو محفوظ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جہاں پر شیولنگ ملنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ گیان واپی مسجد معاملہ پر یہ کوئی پہلی عرضی نہیں تھی۔ دہائیوں پرانے اس تنازع پر ماضی میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور وارانسی کورٹ میں پہلے بھی کئی عرضیاں پیش کی جا چکی ہیں لیکن ان کو قبول نہیں کیا گیا تھا۔ مقامی پنڈتوں نے1991میں ایک عرضی وارانسی کورٹ میں پیش کی تھی اور عدالت سے اجازت مانگی تھی کہ انہیں گیان واپی مسجد علاقہ میں پوجا کرنے دی جائے۔ دسمبر2019میں وارانسی کے ایک وکیل وجے شنکر رستوگی نے وہاں کی نچلی عدالت میں ایک عرضی داخل کی اور دعویٰ کیا کہ مسجد کی تعمیر غیر قانونی ہے اور اس لیے آرکیالوجیکل سروے کا مطالبہ کیا۔ اپریل 2021 میں وارانسی کورٹ نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو حکم دے دیا کہ وہ آرکیالوجیکل سروے کرنے کے بعد کورٹ میں رپورٹ جمع کرے۔ اترپردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ اور انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی نے اس عرضی کو کورٹ میں چیلنج کیا اور مسجد کے سروے کی مخالفت کی جس کے بعد یہ معاملہ الٰہ آباد ہائی کورٹ پہنچا۔ تمام فریقوں کے دلائل سننے کے بعد کورٹ نے عارضی طور پر آرکیالوجیکل سروے پر پابندی عائد کردی۔ آخرکار مارچ 2021میں چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی قیادت والی سپریم کورٹ کی بنچ نے 1991والے عبادت گاہ ایکٹ کی معقولیت کو جانچنے کے لیے اپنی منظوری دے دی۔ ان تمام تر تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے لیے جو کام کارسیوکوں سے لیا گیا تھا، وہی کام اب ملک کی عدالتوں سے لیا جا رہا ہے۔ اب یہاں کی عدالتوں کو یہ طے کرنا ہے کہ یہ ملک جدید سیاسی فلسفوں کی بنیاد پر چلے گا یا عہد وسطیٰ کے اس نظام کی طرف لوٹ کر جائے گا جہاں داخلی طور پر حکومت کرنے کے لیے حکمرانوں کو آسمانی احکامات یا میتھالوجی کا حوالہ دینا ہوتا تھا جبکہ خارجہ پالیسی کے سلسلہ میں فوج اور قوت کا استعمال ہوتا تھا اور فاتح بادشاہ کو یہ طے کرنے کا حق ہوتا تھا کہ کون سی عمارت باقی رہے گی اور کس کو برباد کردیا جائے گا یا اس کی ہیئت و ماہیت بدل جائے گی۔ انقلاب فرانس کے بعد دنیا نے حکومت کے لیے آسمانی جواز کے بجائے زمینی حقائق کو اہمیت دینا شروع کیا اور عہد جدیدیت کا آغاز ہوا جس میں تشدد کی گنجائش نہیں تھی۔ موجودہ حکومت کی شہ پر ملک کے تمام جمہوری اداروں نے ماڈرن فلسفہ سے منھ موڑ کر عہد وسطیٰ کی قدامت پسندی کی طرف اپنا رخ کرلیا جو ایک خطرناک ٹرینڈ ہے۔ یہ اس جدیدیت کے خلاف قدم ہے جس کے تحت ملک کو چلانے کا فیصلہ ہمارے مجاہدین آزادی نے کیا تھا اور اسی لیے بعد کے لیڈران نے بھی یہ طے کیا تھا کہ 15؍اگست1947کو جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اسی پر وہ باقی رہے گی اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ عقل و دانش کا تقاضا یہی ہے کہ عدالتیں ان تمام عرضیوں کو یکلخت مسترد کردیں جو عبادت گاہوں کی موجودہ حالت کو بدلنے کا مطالبہ کر رہی ہیں تاکہ قدامت پسندی اور جدیدیت کی اس کشمکش میں جدیدیت کو فتح نصیب ہو اور ایک ماڈرن اسٹیٹ کی طرح ہندوستان دنیا کے نقشہ پر اپنا اہم کردار نبھانے کی پوزیشن میں آجائے۔ سولہویں صدی میں اورنگ زیب نے کیا کیا تھا، اس پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ بند ہونا ہی ملک کے لیے مفید ہوسکتا ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS