کلیم الحفیظ
ہر قوم کی ایک عبادت گاہ ہوتی ہے ۔جس میں وہ اپنے معبود کی عبادت کرتی ہے ۔ہندوستان تمام مذاہب کا گہوارہ ہے ۔یہاں تقریباًہر مذہب کی عبادت گاہیں موجود ہیں، یہاں کئی ہزار سال پرانے مندر اور مٹھ بھی ہیں،سیکڑوں سال پرانی مساجد بھی،انگریزی راج میں قائم ہونے والے چرچ بھی ہیں،سکھ بھائیوں کے گرودوارے بھی، ہندوستان میں حکومت کرنے والی اقوام کی تبدیلی کے باوجود قدیم عبادت گاہیں موجود ہیں۔حالانکہ مسلم بادشاہوں پر بے بنیاد الزامات لگائے جاتے رہے ہیں کہ انھوں نے یہاں کے مندروں کو مسمار کیا اور ان کی جگہ مساجد تعمیر کیں۔
انگریزوں نے ہندوستانیوں کو آپس میں لڑانے کے لیے مندر انہدام کی فرضی داستانیں پھیلائیں۔ان کے بعد آرایس ایس نے باقاعدہ اپنی پاٹھ شالائوں اور شاکھائوں میں اس جھوٹ کو ہوا دی ۔مختلف مساجد پر مقدمات قائم کرائے،جس میں سب سے مشہور مقدمہ بابری مسجد اجودھیا کا رہاہے۔بابری مسجد کے علاوہ بھی آزادی کے بعد ملک میں درجنوں مساجد مسمار کردی گئیں۔سیکڑوں مساجد پر مقدمات قائم کیے گئے۔نئی مساجد کی تعمیر پر روک لگائی گئی۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔تازہ واقعات میں اترپردیش کے ضلع بارہ بنکی واقع رام سنیہی گھاٹ میں 18مئی کو مقامی انتظامیہ نے تقریباً 80 سال قدیم مسجد کو منہدم کر دیا۔جب کہ 24 اپریل 2021 کو ہائی کورٹ نے کہہ دیا تھا کہ 31 مئی 2021 تک کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔اسی طرح مظفر نگرکے ’کھتولی‘میں بھی ایک مسجد کی شہادت کا معاملہ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس مسجد کو بی جے پی کے بعض لیڈران کی شکایت پر انتظامیہ نے شہید کرایا ہے۔یہ واقعہ 26مئی کا ہے ۔۱۰؍اپریل کو امروہہ ضلع کے جویا کے قریب ہائی وے پر ایک مزار کو شہید کیا گیا۔ان کے علاوہ بھی ہر ضلع کی ایک طویل فہرست انتظامیہ کے پاس ہے جن کو منہدم کیا جانا ہے۔
مسلم امت کو مسجد کے بھرپوراستعمال پر غور کرنا چاہیے۔ نبی اکرمؐ کی مسجد جسے ہم مسجد نبویؐ کے نام سے جانتے ہیں، دور نبوت اوردورخلافت میں نماز کے لیے عبادت گاہ ، تعلیم کے لیے اسکول، فیصلوں کے لیے عدالت، مشوروں کے لیے کمیونٹی سینٹر کا درجہ رکھتی تھی۔ غزوہ بدر کے مشرک قیدیوں کو مسجد نبویؐ کے ستون سے ہی باندھا گیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے مسجد نبویؐ میں بیٹھ کر ہی خلافت کے امور انجام دیے تھے۔ آج مسجد میں ملّی مسائل کی بات یا ملکی حالات پر کوئی گفتگو کرتا ہے تو اسے روکا اور ٹوکا جاتا ہے کہ یہ دنیا داری کی باتیں ہیں۔
یہ تمام واقعات دراصل لکھنؤ بینچ کے فیصلے مورخہ3؍ مئی 2016کے مطابق انجام پارہے ہیں جس کے مطابق یکم جنوری 2011سے قبل کی تمام مذہبی عمارات خواہ ان کا تعلق کسی بھی دین دھرم سے ہو اگر وہ مفاد عامہ میں رکاوٹ ہوں گی تو انھیں تمام لیگل کاغذات کی موجود گی میں ان کی بازآبادکاری Rehabilitate))کی جائے گی۔یعنی یا تو مفاد عامہ کے لیے کیا جانے والا عمل اس مذہبی عمارت کی وجہ سے منتقل کیا جائے گا یا پھر مذہبی عمارت کو دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا۔البتہ جنوری 2011کے بعد تعمیر پانے والی تمام مذہبی عمارات اگر مفاد عامہ ،سڑک،ریل،ہائی وے وغیرہ میں حارج ہوں گی تو انھیں سرے سے منہدم کردیا جائے گا۔ اسی کے ساتھ 26مارچ 2021کو اترپردیش سکریٹریٹ سے کمشنری کے نام ایک سرکلر جاری کیاگیا جس میں انھیں پابند کیا گیا کہ وہ کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں اپنی کمشنری کے اضلاع کی تفصیلات جمع کریں۔مطلب یہ ہے کہ اگر خدا نخواستہ قانونی کاغذات میں کچھ کمزوری ہوگی تو پھر کوئی لحاظ نہیں کیا جائے گا اوروہ عمارت غیر قانونی کہہ کر گرادی جائے گی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ کورٹ کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی گئی ۔تمام مسلم تنظیمیں سوتی رہیں، فرقہ پرستوں نے اپنے لیے قانونی راہیں ہموار کرلیں۔ ہماری مسلم تنظیمیں جو مسجد ،مدرسہ،مزار اور خانقاہوں کے نام پر مستقل چندہ کرتی رہتی ہیں انھیں اس بات کا ذرا بھی ہوش نہیں کہ اپنی مذہبی عمارات کے قانونی تحفظ کی فکر کریں۔
موجودہ یوگی حکومت آر ایس آرایس کے اس ایجنڈے پر عمل کررہی ہے جس میں مسلمانوں اوران کی عبادت گاہوںکو نقصان پہنچا کر ایک طرف مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کرنا،انھیں خوف زدہ کرکے غلامی پر مجبور کرنا ہے تو دوسری طرف ہندو ووٹوں کو پولرائز کرنا ہے۔بی جے پی نے ملک میں ہونے والے حالیہ ریاستی انتخابات خاص طورپر یوپی کے پنچایت الیکشن میں کوئی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔اس کے علاوہ مودی سرکار کے سات سال میں ملک جس تیزی سے معاشی تباہی کی طرف گیا ہے اور حالیہ کورونا لہر میں لاکھوں انسان جس طرح لقمہ ٔ اجل بنے ہیں، اترپردیش میں لاشوں کی بے حرمتی کے جو شرمناک مناظر سامنے آئے ہیں، اس نے ملک کی شبیہ داغ دار کردی ہے۔کورونا کی لہر میں آکسیجن اور اسپتال کی بدانتظامی نے یوگی سرکار کوبیک فٹ پر کھڑا کردیا ہے۔ ان سب نے ہندوتووادی تنظیموں کی نیندیں اڑادی ہیں۔بی جے پی کے پاس وکاس اور وشواس کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے جسے لے کر وہ عوام کے سامنے جاسکے، اب صرف ہندو-مسلم فسادات کا ہی حربہ ہے جو انھیں کامیابی دلا سکتا ہے۔لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ حادثات صرف الیکشن جیتنے کی حد تک ہی نہیں ہیں بلکہ رام راجیہ کے قیام کے لیے بھی ہیں۔ اس لیے جب تک بی جے پی کی حکومتیں ہیں اور جہاں جہاں ہیں وہاں وہاں ہجومی تشدد کے واقعات بھی ہوں گے اور مساجد کے انہدام کے واقعات بھی ہوں گے۔یہاں تک کہ لکشدیپ جیسے جزیرے میں جہاں 97فیصد مسلمان ہیں وہاں بھی آر ایس ایس نے اپنا ایجنڈا نافذ کرنا شروع کردیا ہے۔
ان حالات میں امت مسلمہ کو یہ سوچنا ہے کہ اپنی مساجد اورشعائر کی حفاظت کس طرح کرے؟اس کے لیے پہلی بات یہ ہے کہ مساجد کے تعلق سے مسلکی تنازعات سے بچاجائے۔ملک بھر میں سیکڑوں مساجد پرمقدمات مسلکی بنیاد پر قائم ہیں۔ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث کے نام پر جھگڑے ہیں، کئی مساجد میں تالے تک لگے ہوئے ہیں۔اس لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے باہمی تنازعات ختم کرنے ہوں گے۔جب قرآن کریم کلیسا اور گرجا گھروں کے احترام اور تحفظ کی بات کرتا ہے تو پھر مساجد پر تنازعات کہاں گوارا کیے جاسکتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ نئی مساجد کی تعمیر اس وقت کی جائے جب کاغذات مکمل کرلیے جائیں۔مسجد کے لیے سوسائٹی یا ٹرسٹ رجسٹرڈ کرایا جائے،زمین کے کاغذات اس ٹرسٹ کے نام پر ہوں۔ تیسرا کام یہ ہے کہ مساجد کے لیے مقامی یا ملکی سطح پر ایک فیڈریشن یا بورڈ بنایا جائے،یہ کام وقف بورڈ یا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو کرنا چاہیے۔اس بورڈ یا فیڈریشن سے تمام مساجد کا الحاق ہو بعض بہی خواہوں نے وقف فورم کے نام سے بھی ایک پلیٹ فارم بنایا ہے۔یہ بورڈ مساجد کو قانونی تحفظ فراہم کرے۔ غیر ضروری مسلکی مداخلت نہ کرے۔اس طرح کی ایک سوسائٹی کرناٹک میں بنی ہوئی ہے۔اس کی جانب سے مساجد کی ڈائریکٹری بھی شائع ہوتی ہے جس میں ریاست کی تمام مساجد کی مکمل تفصیلات درج ہوتی ہیں،یہ سوسائٹی ایک دوسرے کو قانونی مدد فراہم کرتی ہے۔بعض مقامات پر چند شرپسند عناصر کسی زمین پر قبضہ وغیرہ کرنے کے لیے مسجد اور مدرسے کا بہانہ تلاش کرتے ہیں اورہمارے سیدھے سچے مسلمان ان کا شکار ہوجاتے ہیں۔بعد میں یہ مسئلہ فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرلیتا ہے۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ مسجد کی تعمیر صاف ستھری اور غیرمتنازع جگہ پر ہو یعنی اس میں کوئی قانونی پیچیدگی نہ ہو۔ہمیں اس بات کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ مذہبی تعمیرات مفاد عامہ میں حارج نہ ہورہی ہوں یعنی ان کی وجہ سے راستے تنگ نہ ہوں،کسی کا نقصان نہ ہورہا ہو۔ہماری مسلم تنظیموں خاص طور پر وقف بورڈ کو اس طرح کے عدالتی فیصلوں پر گہری نظر رکھنا چاہیے اور بروقت ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہیے ۔سانپ گزرجانے کے بعد لاٹھی پیٹنا کوئی دانشمندی نہیں ہے ۔آخری بات یہ ہے کہ مسجدکے تعلق سے برادران وطن کی غلط فہمیاں دور کی جائیں،سنگ بنیاد اور دیگر مواقع پر انھیں مدعو کیا جائے۔ان کو نماز پر مشتمل مناظر دکھائے جائیں ،انھیں وہ لٹریچر فراہم کیا جائے جس سے وہ اسلام کی بنیادی معلومات سے واقف ہوسکیں۔
مسلم امت کو مسجد کے بھرپوراستعمال پر بھی غور کرنا چاہیے۔ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد جسے ہم مسجد نبوی کے نام سے جانتے ہیں، دور نبوت اوردورخلافت میں نماز کے لیے عبادت گاہ ، تعلیم کے لیے اسکول، فیصلوں کے لیے عدالت، مشوروں کے لیے کمیونٹی سینٹر کا درجہ رکھتی تھی۔ غزوہ بدر کے مشرک قیدیوں کو مسجد نبوی کے ستون سے ہی باندھا گیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے مسجد نبوی میں بیٹھ کر ہی خلافت کے امور انجام دیے تھے۔ آج مسجد میں ملی مسائل کی بات یا ملکی حالات پر کوئی گفتگو کرتاہے تواسے روکا اور ٹوکا جاتا ہے کہ یہ دنیا داری کی باتیں ہیں۔ دین اور عبادت کے غلط تصور نے مسجد کے کردار کو بھی بہت محدود کردیا ہے۔
[email protected]