اسکول کے معصوم بچوں تک پہنچی نفرت کی زہریلی آگ

0

ایم اے کنول جعفری

گزشتہ کئی برسوں سے نفرت کی چنگاری کو جس طرح ہوا دے کر آگ بھڑکائی جا رہی ہے، اُس کی آنچ نے اَب اسکول کے معصوم بچوں کو اپنی گرفت میں لینا شروع کردیا ہے۔ 25 اگست کو سوشل میڈیا پر اُترپردیش کے ضلع مظفر نگر کے تھانہ منصورپور کے گاؤں کھبا پور کے نیہا پبلک اسکول کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ویڈیو میں تعلیم کی بغیہ میں خوش رنگ، پیارے، معصوم اور کھلنے کو بیتاب غنچوں کو فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ٹیچر ترپتا تیاگی نے گھر میں اسکول چلا رکھا ہے۔ ٹیچر ویڈیو میںاپنے پاس کھڑے7 برس کے مسلم بچے کو غیر مسلم بچوںسے تھپڑ لگوا رہی ہے۔ قد میں چھوٹے بچے کا ہاتھ آہستہ سے لگنے پر ٹیچر کہہ رہی ہے،’ آہستہ سے مارا۔ اے کیا ماررہا ہے تو اسے؟ زور سے کیوں نہیں مارتے؟ کمر میں مارو۔ چلواَب کس کا نمبر ہے؟۔۔۔۔‘ اس کے بعد دوسرے بچے آکر مارتے ہیں۔ بچہ زاروقطار رو رہا ہے،لیکن میڈم کو رحم نہیں آیا۔ ‘
یو کے جی کے طالب علم کا قصور صرف اتنا تھا کہ اُس نے ہوم ورک نہیں کیا تھا اور 5کا پہاڑا بھی یاد نہیں تھا۔اس سے قبل مذہبی نفرت اور امتیازی سلوک کا معاملہ گجرات کے مہسانہ ضلع کے لنوا گاؤں میں واقع شری کے ٹی پٹیل اسمرتی ودیالیہ میں سامنے آیا تھا۔ یوم آزادی کے موقع پر اسکول کے ٹاپرس کو اعزاز سے نوازا جانا تھا۔ہائی اسکول میں 87فیصد نمبروں کے ساتھ اسکول ٹاپ کرنے والی مسلم بچی کواُمید تھی کہ پہلے اُسے اسٹیج پر بلاکر انعام دیا جائے گا،لیکن انتظامیہ نے دوسرے نمبر پر آنے والی غیرمسلم طالبہ کو انعام سے نوازا۔ لڑکی کے والدین نے جب اسکول کے پرنسپل سے اس کی شکایت کی تو انہوں نے کہا کہ ہم اس بچی کواپنے دفتر میں بلا کر انعام دیں گے جو ان لوگوں نے لینے سے انکار کر دیا۔لڑکی کے والد نے کہا کہ انہیں انعام نہیں، پہچان چاہیے۔ اسلاموفوبیا کا ٹرین سانحہ بھی زیادہ پرانا نہیں ہے۔ آر پی ایف کے کانسٹیبل چیتن سنگھ نے مہاراشٹر کے پالگھر ریلوے اسٹیشن کے قریب ٹرین میں سوار اپنے سینئر ٹیکارام مینا سمیت تین مسلمان مسافر عبدالقادر، محمد حسین اور اصغر عباس شیخ کو یہ کہتے ہوئے کہ ہندوستان میں رہنا ہے تو مودی، یوگی کہنا ہوگا، گولی مار کر ہلاک کردیا۔
’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اورسب کا پریاس‘ کے دعوؤںکے درمیان ملک کا مستقبل سنوارنے والے تعلیمی اداروں تک نفرت کی تپش پہنچنا معمولی بات نہیں ہے۔اسکول اَب تک نفرت سے اچھوتے تھے۔ معصوم کے چہرے پر پڑنے والے تھپڑوں کی گونج ملک کے گوشے گوشے کے ساتھ بیرون ملک بھی سنی جا رہی ہے۔اس سے ملک کا سر شرم سے تو جھکا ہی، عالمی سطح پر ملک کی شبیہ بھی خراب ہوئی۔کئی لوگوں نے اس سانحہ پر اپنی برہمی کااظہار کرتے ہوئے فرقہ پرستی کا مظاہرہ کرنے والی ٹیچر کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ متاثرہ بچہ کی ماں کا کہنا ہے کہ ٹیچر خود مارتی،تو کوئی بات نہ تھی،لیکن اس نے بچوں سے پٹوایا۔ گال سرخ ہونے پر کمر پر مروایا۔ایسے تو بچہ مر ہی جاتا۔ بچے نے صحافیوں کو بتایا کہ میڈم کہہ رہی تھی کہ محمڈنوں کو مارو۔ بچے کے والد محمد ارشاد کا کہنا ہے،’ گاؤں میں پنچایت ہوئی۔ ٹیچر نے معافی مانگ لی۔ ہم نے مفاہمت کرلی۔ہم نے اسکول سے بچے کو ہٹا لیا۔فیس لوٹا دی گئی۔ ٹیچر کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔‘ اس کے باوجود سیاستدانوں،دیہی قائدین،صحافیوں اور مقامی لوگوں کے آنے کا سلسلہ رہا۔ معاملہ طول پکڑنے پر پولیس نے ارشاد کی شکایت پر 26اگست کو ناقابل دست درازی الزامات کے تحت ایک مقدمہ درج کیا۔مظفر نگر کے ڈی ایم اروند ملپا بنگاری نے،سی او ڈاکٹر روی شنکر نے کیس درج کی تائید اور تفتیش جاری کی بات کہی۔ ٹیچر کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات 323(رضاکارانہ طور پر زک پہنچانے کے لیے سزا دینا) اور504 (امن کو درہم برہم کرنے کے لیے اُکساتے ہوئے دانستہ تضحیک کرنا) کے تحت این سی آر درج کی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس وارنٹ کے بغیر ملزم کو گرفتار نہیں کر سکتی۔ ایسے معاملے کی تحقیق شروع کرنے کے لیے مجسٹریٹ سے اجازت لینا ضروری ہے۔ ٹیچر کی سنگین غلطی پر معمولی دفعات لگانے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے ترکش سے تیر نکال کر آزمانا شروع کر دیے۔کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے کہا، ’معصوم بچوں کے ذہن میں بھیدبھاؤ کا زہر گھولنا،اسکول جیسی پاک صاف جگہ کو نفرت کا بازار بنا نا، ایک ٹیچر، دیش کے لیے اس سے برا کچھ نہیں کر سکتا۔یہ بی جے پی کا پھیلایا ہوا وہی کیروسن ہے،جس نے بھارت کے کونے کونے میں آگ لگا رکھی ہے۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے ملک کی شبیہ خراب کرنے والے قصورواروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا، تاکہ کوئی دوبارہ ایسی حرکت کی جرأت نہ کر سکے۔ پرینکا گاندھی نے کہا،’ ہم اپنی آنے والی نسل کو کیسا کلاس روم،کیسا سماج دینا چاہتے ہیں؟ جہاں چاند پر جانے کی تکنیک کی باتیں ہوں یا نفرت کی چہاردیواری کھڑی کرنے والی باتیں۔نفرت ترقی کی سب سے بڑی دشمن ہے۔‘ ایوان بالا کے رکن کپل سبل نے سوال کیا کہ کیا یوگی آدتیہ ناتھ لب کشائی اور وزیراعظم نریندر مودی سرعام مذمت کریں گے؟ ٹیچر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی یا نفرت کے کلچر کو فروغ دینے کی اجازت دی جائے گی؟ یو پی کے نائب وزیراعلیٰ برجیش پاٹھک اور مرکزی وزیر سنجیو بالیان نے پٹائی کو غلط بتاتے ہوئے کارروائی کی بات کہی، لیکن اسے مذہبی نقطہ نظر سے جوڑنے کی کوشش کو غلط بتایا۔ بی جے پی رہنما ورون گاندھی نے کہا،’ تعلیم کے مندر میں بچے کے تئیں نفرتی تصور نے دیش کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ٹیچر وہ مالی ہے،جو بنیادی ضابطوں میںعلم کا کھاد ڈال کر شخصیت ہی نہیں راشٹرکو گھڑتا ہے۔‘بالی ووڈ کی کئی مشہور شخصیات نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے ٹیچر کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
مشہور صحافی رویش کمار نے کہا،’ ٹیچر معصوم بچے کو ہندو کے نام پر فسادی بنا رہی ہے‘۔ اجیت انجم نے کہا،’ یہ مذہبی جنون، یہ نفرت، یہ زہر،یہ ہندو-مسلم والی سوچ ملک کو بہت خطرناک راستے کی طرف لے جا رہی ہے۔ ایس پی صدر اکھلیش یادو، جمعیۃ علماء ہندکے قومی صدر مولانا ارشد مدنی و مولانا محمود مدنی اور اے آئی ایم آئی ایم کے قائد اسد الدین اویسی کے علاوہ آر ایل ڈی اور بھیم آرمی نے تاہم خاندان کی حمایت کی،جبکہ دیہاتوں کے سربراہ شکایت واپس لینے کے حق میں رہے۔ کسان لیڈر نریش ٹکیت اور سماجوادی پارٹی کے ہریندر ملک وغیرہ نے متاثرہ بچہ اور اسے پیٹنے والے بچے کو گلے ملا کر سمجھوتہ کرایا۔
ٹیچر نے صفائی دی،’میں معذور ہوں، اُٹھ نہیں سکتی، اس لیے بچوں سے پٹوایا۔ میں نے بچے کو پٹواکر غلط کیا۔ میں غلطی قبول کرتی ہوں۔‘ دوسری جانب مذہبی بنیاد پر طالب علم کے ساتھ تشدد معاملے میں محکمہ تعلیم نے کارروائی کرتے ہوئے تحقیقات مکمل ہونے تک اسکول بند کرنے، بچوں کو دوسرے اسکول میں داخل کرانے اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے اسکول کا رجسٹریشن منسوخ کرنے کا عمل شروع کر دیا۔ یاد رہے کہ جس طرح نفرت کا زہر بچوں کے معصوم ذہنوں میں بویا جا رہاہے،اس کے نتائج خراب سے خراب تر ہوں گے۔نفرت ختم کرنے کے لیے حکمراں جماعت اور حزب اختلاف کے لیے لازم ہے کہ وہ ووٹوں کی سیاست سے اُوپر اُٹھیں۔ ایک ساتھ مل کر محبت کے پھول کھلانا ہی ملک کو ترقی کی بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS