محمد حنیف خان
میڈیا کو جمہوریت میں چوتھے ستون کا درجہ حاصل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت/یکسانیت کے قیام میں میڈیا کی حیثیت بہت اہم ہے۔اس کے باوجود پورے برصغیر میں میڈیا مسلسل بے حیثیت ہوتا جا رہا ہے، سرکاریں میڈیا کو اہمیت نہیں دے رہی ہیں بلکہ وہ ان کا استعمال کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں اور میڈیا سے وابستہ ایسے افراد جو کسی بھی طرح سے ان کی ہاں میں ہاں نہ ملاتے ہوں، ان کا استحصال کرکے زبان بند کرانا ان کا آسان حربہ ہے۔برصغیر میں پریس کی آزادی ایک مسئلہ بن کر ابھری ہے۔ ہندوستان، سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں جمہوریت کے اس چوتھے ستون کو عزت دی جا رہی ہو اور اس کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت ہو۔ ان سبھی ممالک میں میڈیا پر جبر دیکھنے کو مل رہا ہے۔میڈیا پر جبر سرکاروں کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتاہے اور جب تک سرکاریں اسے آزادی نہیں دیں گی تب تک عوام اور سرکار کے درمیان پل کا کام کرنے والا یہ ادارہ اپنا فرض منصبی نہیں ادا کرسکے گا۔
عالمی ادارہ آر ایس ایف رپورٹرس وداؤٹ بارڈرس کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کو آٹھ پوائنٹ کا نقصان ہوا ہے اور وہ اس وقت 142ویں مقام سے لڑھک کر150پر پہنچ گیا ہے۔ پاکستان157ویں، سری لنکا146 اور بنگلہ دیش162مقام پر ہیں جبکہ میانمار 176ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔اس پورے علاقے میں صرف نیپال ہی ایک ایسا ملک ہے جس میں گراوٹ نہیں آئی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان میں یہ اس لیے بھی بہت تشویشناک ہے کیونکہ ان دونوں ممالک میں میڈیا ہاؤس کھلے اور بند دونوں طرح سے سرکار کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ ہندوستان میں حکومت کی تو حمایت کا یہ عالم رہاہے کہ میڈیا کو ’’گودی میڈیا‘‘ کا بھی نام دے دیا گیا۔ اس کے باوجود اگر سرکاریں میڈیا پر نکیل کستی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ناکامی پر ایک حرف سننا اور دیکھنا پسند نہیں کرتی ہیں۔ چونکہ شہرت اور دولت دونوں انسان کی جبلی خواہش رہی ہے جو حکومت کی حمایت سے آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے۔ اس وقت میڈیا کا عالم یہ ہے کہ ہندوستان کے وزیراعظم نے گزشتہ سات برس میں ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی، اس کے باوجود کسی میں ہمت نہیں کہ وہ اس سے متعلق کبھی لائیو ڈبیٹ کرلیں، یا اخبارات میں اداریے لکھ دیں کیونکہ اس سے انہیں کئی طرح کے خطرات ہیں، در اصل جمہوری قدریں میڈیا کے اندر سے اب ختم ہوچکی ہیں یہی وجہ ہے کہ اب اس کایہ موقف ’جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو‘‘پوری طرح سے بدل چکاہے۔
بہت کم چینل اور اخبار ہیں جن میں حکومت کے خلاف مواد ملے گا، جس کی سب سے بڑی وجہ اس نعرے کی تبدیلی ہے، اب جمہوریت کی بقا کے بجائے دولت اور شہرت کے حصول کے لیے میڈیا ہاؤس قائم کیے جاتے ہیں۔ میڈیا کی ساکھ گرنے میں سرکاروں سے کہیں زیادہ میڈیا ہاؤس کے مالکان کا ہاتھ ہے کیونکہ وہ اپنے مفادات اور جلب منفعت کے لیے نہ صرف دخل اندازی کرتے ہیں بلکہ اپنی ضرورت کے مطابق ایجنڈے سیٹ کرتے ہیں اور یہ کوئی راز کی نہیں بلکہ بہت کھلی اور واضح بات ہے۔
ایک چینل میں میرا ایک جاننے والا دیہی علاقے سے رپورٹ تیار کرکے بھیجتا ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت نے گئوشالے کا انتظام کیا ہے تاکہ گایوں کا تحفظ کیا جا سکے مگر ان گئوشالوں کی جو حالت ہے، اس سے عوام بھی واقف ہیں اور سرکار بھی۔ اسی سے متعلق اس نے ایک گئوشالا کی رپورٹ بھیجی جس میں اس گئوشالہ کی بدنظمی اور وہاں ہونے والی بدعنوانی کو اجاگر کیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ جب تین دن تک چینل پر نشر نہیں ہوئی تو اس نے اس سے متعلق سوال کیا، پہلے تو ٹال دیا گیا مگر جب اس نے کہا میں نے اتنی محنت سے رپورٹ تیار کی ہے پھر بھی نشر نہیں کی جارہی تو اس کی بات چینل کے اعلیٰ افسر سے کرائی گئی جب اس نے پوری بات بتائی تو اس سے کہا گیا کہ یہ محنت سرکار کے خلاف کرنے کے بجائے کہیں اور کریں، وہ زیادہ بہتر ہے اور بات ختم کردی گئی، اس سے خود میڈیا کی قدروں کا اندازہ لگایا جا سکتاہے، در اصل دونوں جمہوریت کے بجائے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
میڈیا ہاؤس کے اس طرح کے رویوں کی وجہ سے حکومت کا مزاج خوشامد پسندانہ ہوا ہے اور اب وہ اپنے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرتی ہے، اس معاملے میں ایک دو نہیں متعدد معاملات سامنے آچکے ہیں۔ صرف اترپردیش میں ہی ایسے کئی معاملات سامنے آئے جب کسی صحافی نے حکومت کے خلاف خبر لکھی اور پھر اسے اس کی سزا بھگتنی پڑی۔کووڈ کے دور میں بنارس میں جب بھوک سے گھاس پوس کھانے پر لوگ مجبور ہوئے اور اس کی خبر آگئی تو رپورٹر کو اس جرأت کی سزا بھی ملی، مڈ ڈے میل میں ہوئی بدعنوانی کو جب رپورٹ کیا گیا تو اسی اترپردیش میں رپورٹر کو سزا بھگتنی پڑی۔ ہاتھرس کیس کے ساتھ متوازی ایک اور معاملہ ہوا تھا جب ایک صدیق کپن کو حکومت اتر پردیش نے گرفتار کرلیا تھا، ان پر پہلے تو نقض امن کی دفعات کے تحت ایف آئی آر ہوئی پھر اس کے بعد ملک مخالف ہونے کے الزامات بھی عائد کر دیے گئے۔ وہ آج تک جیل میں ہے، ابھی تک اسے ضمانت نہیں ملی ہے۔ یہ گرفتاری موقع پر رپورٹر کے پہنچنے پر ہی ہوئی تھی۔ یہاں سرکار بالکل الگ اینگل سے اس معاملے کو آگے بڑھاتی ہے اور وہ ایک ایسا چشمہ پہن لیتی ہے جو اس کی شناخت ہے۔ ایسے میں میڈیا کی ساکھ بہتر ہونے کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟
یہی حال پاکستان اور سری لنکا کا ہے، ان دونوں ممالک کے میڈیا بھی سرکار اور عوام کے مابین پل کا کام کرنے کے بجائے اپنے نفع و نقصان کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔سری لنکا اس وقت جس بحران سے گزر رہاہے، اگر میڈیا حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کرتا، ان کا جائزہ لیتا اور حکومت پر تنقید کرکے اس کو پالیسیوں کی تبدیلی پر مجبور کرتا تو اس کے آج یہ حالات نہ ہوتے مگر چونکہ اپنے مفادات زیادہ عزیز تھے، اس لیے حکومت نے جو بھی کیا اس کی حمایت کی گئی، آج حالات سب کے سامنے ہیں۔ یہی حال پاکستان کا ہے کہ وہاں بھی میڈیا سیاست دانوں کے اشاروں پر ناچتا ہے۔
مجموعی طور پر پورے ایشیا میں میڈیا کی ساکھ کا جائزہ لیا جائے تو اس پر دو طرفہ مار پڑ رہی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے میڈیا کو جلب منفعت کا وسیلہ بنایا اور اس کا گلا گھونٹ دیا اور دوسرے وہ حکمراں ہیں جن کے کان خوشامد سننے کے عادی ہوگئے ہیں، ان دونوں نے مل کر جمہوریت کے چوتھے ستون کے نیچے کی زمین کھود کر رکھ دی ہے۔خوشامد پسند حکومتوں اور میڈیا ہاؤس کے مالکان کو سوچنا چاہیے کہ وہ نہیں رہیں گے لیکن ملک رہے گا اور اگر انہوں نے اس سے اس کی روح جمہوریت اور یکسانیت ہی چھین لی تو پھر وہ ملک کو دے کر کیا جائیں گے، ان کے دعویٰ حب الوطنی کو کس زمرے میں رکھاجائے؟ اس لیے میڈیا کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کے لیے ماحول دینا ان دونوں کی ذمہ داری ہے۔
[email protected]