جہالت کی کرشمہ سازی

0

مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی مشہور زمانہ مسدس کے ابتدائی بندوں میں زمانہ جاہلیت کے عرب کی جو تصویر کشی کی ہے، اس کا اطلاق اگر آج کے ہندوستان پر کیاجائے توکچھ غلط نہیں ہوگا۔ وحشیانہ چلن، لوٹ مار، فسادوں میں کٹتازمانہ، ایک معمولی شرارے سے پورے ملک کا بھڑک اٹھنا، قانون کا تازیانہ نہ ہونا یہ سب آج ہندوستان میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہاہے۔ مسلمانوں کے خلاف شدت پسندوں کی یلغار کی وجہ نہ تو کوئی مال و دولت ہے اور نہ ہی دوسرا کوئی ٹھوس سبب ہے، یہ نری جہالت کا ہی کرشمہ ہے کہ مہاراشٹر سے راجستھان تک، مغربی بنگال سے دہلی تک اور مدھیہ پردیش سے آسام تک مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کرکے باقاعدہ ان کے خلاف جنگ شروع کردی گئی ہے۔مسلمانوں کی جان و مال کونقصان پہنچانے اوران کے شیشہ آبرو پر سنگ زنی کا سلسلہ شروع کردیاگیا ہے۔ رام نومی، ہنومان جینتی کے جلوسوں میں جان بوجھ کر مسلمانوں کو اشتعال دلانا اورپھر ان کے گھروں کو بلڈوز کرنا، عید کے ایام میں مسلمانوں پر جبر و ظلم توڑنا اور ردعمل پر قانون کی بالادستی کا راگ الاپنابھی اسی جہالت کا کرشمہ ہے۔
دہلی کے ویلکم علاقہ میں بچوں کے کھیل کے دوران ہونے والے معمولی تنازع پرپتھر بازی اور فرقہ وارانہ تشدد ہو یا عید سے قبل کی شام راجستھان کے جودھپور میں ہونے والا فرقہ وارانہ فساد یا پھر عید کے بعد کی رات راجستھان کے ہی ضلع بھیلواڑہ میں مسلم نوجوانوں پر نقاب پوش گروہ کا حملہ ہویا پھر مہاراشٹر میں ابو جہل راج ٹھاکرے کی ہرزہ سرائیوں اور اذان کی لاہوتی آوازکے مقابلے میں مسلمانوں کو ڈرانے اور خوف زدہ کرنے کیلئے مندروں میں غیر قانونی طریقہ سے لائوڈ اسپیکر لگاکر ہنومان چالیسا کی سیاست، یہ سب اسی نری جہالت کی پیداوار ہیں جس نے عربوں کے درمیان صدیوں تک کشت و خون اور فتنہ و فساد برپا کر رکھا تھا۔لیکن مقام اطمینان یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کی تمام تر ہرزہ سرائیوں اور فتنہ انگیزیوں کے باوجود مسلمان اپنے جوابی ردعمل میں احتیاط کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔
جودھ پور میں ایک چوراہے پر مذہبی جھنڈے لگانے پر شروع ہونے والا تنازع فرقہ پرستوں اور شدت پسندگروہوں کی جہالت کی وجہ سے ہی بڑی لڑائی میں بدل گیا۔ کئی علاقوں میں توڑ پھوڑکی گئی اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایاگیا۔جودھپور میں بھڑک اٹھنے والا فرقہ وارانہ تشدد تو ایسا تھا کہ اگر مسلمانوں نے احتیاط کا دامن چھوڑ دیاہوتا تو اس کی آگ پورے ملک میں پھیل سکتی تھی۔ واقعے کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ملزمان منصوبہ بندی کے ساتھ آئے تھے۔ شرپسندوں نے لوگوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے تلواریں سونت لیں، تیزاب کی بوتلیں پھینکی گئیں، کئی جگہ خواتین سے بدتمیزی کی گئی، معصوم بچوں کو ڈرایا گیا۔ تشدد کو روکنے کیلئے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا اور بھیڑ کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔
جودھپور کے واقعہ کی بازگشت ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسی ریاست راجستھان کے بھیلواڑ میں شر پسندوں کاایک گروہ نقاب لگائے آیا اورسانگانیر کے کربلا روڈ محلہ میں بیٹھے ہوئے دو نوجوانوں پر حملہ آور ہوکرا نہیں شدید طور سے مجروح کردیا۔فرار کے دوران حملہ آوروں کے موٹر سائیکل کو آگ لگادیے جانے کے بعد پورے علاقہ میں کشیدگی پھیل گئی۔
قانون کی بالادستی اورقوت و اقتدار اور حکومت کی جبروت و شوکت کی علامت قومی راجدھانی میں تو اس جہالت نے اپنا الگ ہی رنگ دکھایا،بچوں کے کھیل کے دوران ہونے والی معمولی سی کہاسنی بڑے فساد میں بدل گئی۔
ان تمام ہی مقامات پر سرد ست حالات قابو میں کرلیے گئے ہیں اور قانونی کارروائی کی جارہی ہے لیکن جہالت کی کوکھ سے جنم لینے والے ان واقعات نے معاشرے میں نفرت اور شکوک کی جو فضابنادی ہے، اسے آسانی سے قابو میں نہیں کیاجاسکتا ہے۔اس کی وجہ سے عالمی سطح پر ہندوستان کو سبک سری کا سامنا کرناپڑرہاہے۔ جودھ پور کے واقعہ کی گونج بھی عالمی سطح پر سنائی دی حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس کے ترجمان نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ مل کر کام کریں گے اور ہندوستانی حکومت اور سیکورٹی فورسز اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ ہر کوئی اپنے تہوار پرامن طریقے سے منا سکے۔
ہندوستان، جس کی پانچ ہزارسالہ ’ تہذیب وثقافت ‘ کی دہائی دیتے ہوئے مسلمانوںپر بزن بولاجارہاہے، کیلئے یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ ان واقعات کا عالمی سطح پر چرچا ہورہا ہے۔سیکولرزم اور بین مذاہب رواداری عالم میں ہندوستان کی منفرد شناخت ہواکرتی تھی لیکن اب یہ عالمی شناخت مسخ ہوتی چلی جارہی ہے اورشرپسندوں، فرقہ پرستوں اورشدت پسندوں کی جہالت ہندوستان جنت نشان کے منہ پر کالک مل رہی ہے۔ ملک کے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں نے اگر ان حالات کو بدلنے کی کوشش نہیں کی تو کچھ عجب نہیں کہ یہ جہالت پورے ملک کوتاراج کردے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS