ملک کے کسانوں کی جو حالت ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ کسان کیوں اتنے پریشان رہتے ہیں؟ وہ بھی ہرکوئی جانتا اور سمجھتا ہے۔کسان مقروض ہوتے ہیں اوران کے قرض کی معافی کا ایشو برابر اٹھایا جاتا ہے لیکن کتنے کسان مقروض ہیں اوران پر کتنا قرض ہے یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں ۔اسی لئے گزشتہ دنوں جب پارلیمنٹ میں سرکار نے یہ بتایا کہ 16680366.77کروڑ کے مقروض ہیں ۔ اوریہ قرض بھی ہزاروں یالاکھوں کسانوں پر نہیں بلکہ 13,85,40,234کسان کھاتوں پرہے۔یعنی تقریباً 14کروڑ کسانوں پر تقریباً 17لاکھ کروڑ کا قرض ہے ۔اتنی بڑی تعداد میں کسانوں کا مقروض ہونااوران پر اتنا بڑا قرض معمولی بات نہیں ہے۔ غور طلب امریہ ہے کہ سارے قرض زرعی نوعیت کے ہیں ۔یعنی کاشتکاری کے لئے لئے گئے تھے۔ کسانوں پر بڑے پیمانے پر زرعی قرض کی بات اس وقت آرہی ہے جب ان کی آمدنی دوگنی کرنے کی باتیں ہورہی ہیں ۔جب کسان خودکشی کرتے ہیں تو اس کے پیچھے دوہی وجہیں بتائی جاتی ہیں ، ایک ان کی فصل تباہ ہوگئی اوردوسری وہ قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے،پریشان تھے۔ مسائل حل ہونے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا ۔
کسانوں کے زرعی قرضوں کاانکشاف کسی رپورٹ میں نہیں ہوا بلکہ لوک سبھا میں اس وقت ہوا جب تامل ناڈو کی ممبر پارلیمنٹ ایس جوتھی منی نے سرکار سے ریاستی سطح پر کسانوں پربقایازرعی قرضوں کی تفصیل مانگی۔اس پر تحریری جواب دیتے ہوئے وزیرمملکت برائے مالیات بھاگوت کشن رائوکراڈنے مذکورہ تفصیل بتائی اورکہا کہ تامل ناڈو،آندھراپردیش ، اترپردیش ، مہاراشٹر اورکرناٹک میں سب سے زیادہ کھاتوں پر اور سب سے زیادہ قرض بھی ہے ۔رہی بات کسانوں کے قرض معافی کی جس کا اعلان وقتاً فوقتاً خاص طورسے الیکشن کے موقع پرکیا جاتا ہے اورقرض معافی سے کسانوں کو کافی راحت بھی ملتی ہے ۔یہ سوال کسانوں پر قرض کے ضمن میں پارلیمنٹ میں بھی کیا گیاتو اس پر مالیات کے وزیرمملکت نے صاف صاف کہا کہ کسانوں کے قرض معاف کرنے کا سرکار کاکوئی منصوبہ نہیں ہے ۔اس کامطلب یہ ہوا کہ کسانوں پر زرعی قرض اور بڑھے گا ۔ویسے بھی سرکار نے امسال 31مارچ تک ہی کے اعدادوشمارپیش کئے ہیں ۔ اس کے بعد بھی کسانوں نے قرض لیا ہوگا ۔بہرحال کسانوں پر جتنا بقایا قرض ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔اس پر سنجیدگی سے غور کرنے اورقدم اٹھانے کی ضرورت ہے کہ آخر کسان اتنا قرض کیوں لے رہے ہیں ؟ اوراگر لے رہے ہیں تو اداکیوں نہیں کرپارہے ہیں ؟ دوسری بات یہ ہے کہ اتنے بڑے قرضوں کے بوجھ کو کب تک کسان اٹھاتے پھریں گے ؟اورکیا قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارے کی ایک ہی صورت ہے کہ معاف کردیا جائے ۔جیساکہ اب تک ہوتا رہا ہے ۔حال ہی میں پنجاب سرکار نے کسانوں کے 590کروڑ روپے کے قرض کو معاف کیا ہے ۔اس سے پہلے بھی ریاستی حکومت اس طرح کے قرضوں کو معاف کرچکی ہے ۔مرکزی حکومت اوردیگر ریاستی حکومتیں بھی ایسا کرتی رہتی ہیں ۔آگے بھی اسے سیاسی وانتخابی ایشو بنایا جائے گا اورقرض معافی کی مانگ کی جائے گی ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک میں کسانوںکی اکثریت کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسم جس طرح بگڑ رہا ہے ۔ اس کی مار سب سے زیادہ کسانوں پر پڑرہی ہے ۔بے موسم بارش اورسیلاب کی وجہ سے ان کی فصلیں تباہ ہورہی ہیں ۔اوراگر فصل اچھی ہوجاتی ہے تو اس کی صحیح قیمت نہیں ملتی۔ جبکہ کاشتکاری دن بدن مہنگی ہوتی جارہی ہے ۔وہ کھیتی کے لئے بینکوں سے قرض لیتے ہیں تو اس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ اسے اداکرسکیں ۔وہ کاشتکاری کے لئے قرض کے جال میں تو پھنس جاتے ہیں لیکن اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔بہر حال کسانوں کی پریشانی کے لئے انہیں قرض فراہم کرنا اورملک وقوم کے علم میں اسے لانانہ تو کسانوں کے مسائل کا صحیح حل ہے اورنہ اس سے ان کی پریشانی میں کمی آئے گی۔ سوال یہ ہے کہ کھیت بھی وہی ہیں ، اناج بھی وہی ہیں اورکاشتکاری میں نئی ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ہورہا ہے ،پھر بھی کسان آج اتنے بدحال کیوں ہیں ؟سرکارکو اس پہلو سے سوچنا چاہئے اورکسانوں کے مسائل کا دائمی حل تلاش کرنا چاہئے ۔تب ہی ان کی حالت میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ۔۔
[email protected]
کسانوںکی بدحالی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS