’محبت کی دکان‘ پر عوام کی مہر ثبت!

0

صبیح احمد

کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ اس کے بعد کانگریس لیڈروں، کارکنوں اور پارٹی کے حامیوں میں خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ ہر طرف جشن کا ماحول ہے۔ پورے ملک میں کانگریس کارکنوں کے اندر جوش اور امنگ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ حالانکہ یہ کوئی نہیں بات نہیں ہے۔ ہر الیکشن میں ہار اور جیت ہوتی ہے۔ کسی کو شکست کی تلخی برداشت کرنی پڑتی ہے تو کسی کو جیت کا مزہ نصیب ہوتا ہے۔ لیکن کرناٹک کے انتخابی نتائج کچھ الگ ہی پیغام لے کر آئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بی جے پی اور خاص طور پر بھگوا بریگیڈ کی سب سے اہم تجربہ گاہ تصور کیے جانے والے صوبہ کرناٹک میں اس طرح کے نتائج کا شاید کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا، خصوصاً زعفرانی خیمہ کو تو ہرگز نہیں۔ ایک طرح سے آئندہ سال کے عام انتخابات کے لیے وضع کردہ ان کی پوری پلاننگ پر ہی راکھ پڑ گئی ہے۔ ان پر تو جنوبی ہند کا دروازہ ہی بند ہوگیا ہے۔ اسی دروازے سے بی جے پی نے جنوبی ہندوستان میں داخل ہونے کی بڑے پیمانے پر حکمت عملی تیار کر رکھی تھی۔ ہندی بیلٹ سے اسے جو حاصل کرنا تھا، وہ کر چکی ہے۔ جو کسر باقی رہ گئی ہے، اسے اب وہ جنوبی ہند میں پوری کرنے کی کوشش میں تھی۔ دوسری جانب کرناٹک کے انتخابی نتائج کے بعد کانگریس خیمے میں آج جو جوش اور ولولہ دیکھنے کو مل رہا ہے، یہ خواہ مخواہ نہیں ہے۔ طویل عرصہ سے خشک سالی کی شکار اس تاریخ ساز پارٹی کوکرناٹک میں ایک طرح سے ’سنجیونی‘ مل گئی ہے۔ پارٹی کیڈروں میں نئی جان پڑگئی ہے۔ اگلے سال ہی یعنی 2024 میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور یہ الیکشن صرف ہار اور جیت تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ ملک کے نظریاتی موقف کا بھی تعین کرے گا۔ اس سے پہلے کئی اور اہم ریاستوں میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، ان کے نتائج بھی کافی اہمیت کے حامل ہوں گے۔
بہرحال کانگریس کے لیے ’نفرت کے بازار میں محبت کی دکانوں کے کھلنے‘ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پہلے ہماچل پردیش اور اب کرناٹک! یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا یا وقتی ثابت ہوگا، یہ مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے کافی حد تک واضح ہو جائے گا۔ فی الحال کرناٹک انتخابات میں کانگریس کی اس نمایاں کامیابی کو ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے مثبت نتائج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے قبل ہماچل پردیش میں ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران ہی انتخابات ہوئے تھے۔ کرناٹک میں ووٹوں کی گنتی کے دوران جیسے ہی کانگریس کی سبقت کی خبر آئی، کانگریس پارٹی نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ’یاترا‘ کے دوران کا ایک ویڈیو شیئر کیا اور لکھا کہ ’میں ناقابل تسخیر ہوں، مجھے بھروسہ ہے کہ آج مجھے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔‘ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج سے ثابت ہو گیا ہے کہ راہل گاندھی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے ذریعہ پارٹی کو عوام سے جوڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔ خود یاترا سے متعلق ویڈیو شیئر کرکے پارٹی نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔ ’یاترا‘ کے دوران کانگریس قائدین اور کارکنان ریاست کے مختلف علاقوں میں گئے، گاؤں گاؤں گئے اور لوگوں سے ملاقات کی۔ کرناٹک کے 7 لوک سبھا حلقوں اور 20 سے زیادہ اسمبلی حلقوں سے یہ یاترا گزری۔ کرناٹک کے میسورو میں راہل گاندھی کو موسلا دھار بارش بھی لوگوں سے خطاب کرنے سے نہیں روک پائی۔ کانگریس کی اس وقت کی عبوری صدر سونیا گاندھی نے بھی کرناٹک میں ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں حصہ لیا تھا۔اس دوران کچھ جذباتی لمحات بھی دیکھے گئے۔ یاترا کے دوران راہل گاندھی اپنی ماں کے جوتے کے تسمے باندھتے ہوئے نظر آئے۔ کانگریس نے اس دوران ووٹروں کو جذباتی ٹچ دینے کی کوشش کی تھی جس پر رائے دہندگان نے مہر ثبت کر دی ہے۔
کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے کے لیے بھی یہ انتخابی نتائج کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ کرناٹک کھڑگے کی آبائی ریاست ہونے کے سبب یہ الیکشن درحقیقت ان کے لیے وقار کا مسئلہ بن گیا تھا۔ اس جیت سے کانگریس صدر کی حیثیت سے ان کی پوزیشن مزید مستحکم ہو ئی ہے۔ سینئر ریاستی لیڈروں سابق وزیراعلیٰ سدارمیا اور ریاستی کانگریس صدر ڈی کے شیو کمار کے ساتھ ساتھ کھڑگے نے پارٹی کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے کوئی بھی کسر نہیں چھوڑی۔ انتخابی مہم کے دوران سامنے آنے والے بجرنگ دل اور بجرنگ بلی جیسے انتخابی ایشوز سے پہلے ہونے والی ’بھارت جوڑا یاترا‘ کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے لیے ’رام بان‘ ثابت ہوئی۔ درحقیقت کرناٹک کی سڑکوں پر راہل گاندھی نے اپنی چھوٹی بہن اور کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی کے ساتھ بہت محنت کی اور پسینہ بہایا۔ یاترا کے دوران کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ سدارمیا کو راہل گاندھی کا ہاتھ پکڑ کر دوڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ ڈی کے شیوکمار اور سدارمیا نے بھی راہل کا خوب ساتھ دیا۔ ان دونوں سینئر لیڈروں نے بھی یاترا کو کامیاب بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیا، جس کا فائدہ کانگریس کے حق میں انتخابی نتائج میں نظر آیا۔ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے بعد پہلے ہماچل اور اب کرناٹک میں کانگریس نے اپنی جیت کا پرچم لہرا دیا ہے۔ کرناٹک کی جیت ہماچل سے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ ریاست بی جے پی کے سخت گیر ہندوتو کا اکھاڑا بنا ہوا تھا۔ اس کے باوجود راہل گاندھی اپنی بات ووٹروں تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔
کانگریس کی جیت میں بہت سے عوامل کارفرما تھے لیکن جی پرمیشور، رندیپ سرجے والا، ایم بی پاٹل، ششی کانت سیتھل اور سنیل کانوگولو جیسے اس کے 5 لیڈروں کی حکمت عملی نے بھی پارٹی کی جیت میں اہم کردارادا کیا۔ کانگریس پارٹی نے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں ’ہماچل پردیش‘ ماڈل کو دہرایا۔ انتخابی مہم کے آغاز سے ووٹنگ تک کانگریس نے مقامی مسائل پر توجہ مرکوز رکھی۔ ان میں بے روزگاری، بدعنوانی، پرانی پنشن کی بحالی کا وعدہ اور مقامی مسائل پر بی جے پی کو 40 فیصد حکومت قرار دیتے ہوئے آخری دم تک انتخابی مہم کو ان چیزوں سے بھٹکنے نہیں دیا۔ ادھر کرناٹک میں بی جے پی کی کشتی کو ڈبونے میں یدی یورپا کے ساتھ ’لکاچھپی‘کے کھیل کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ پہلے تو پارٹی نے انہیں اقتدار سے بے دخل ہونے پر مجبور کیا لیکن بعد میں لنگایت برادری سے تعلق رکھنے والے کرناٹک کے اس سینئر لیڈر کے اثر ورسوخ کا جب خیال آیا تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ کانگریس کی جیت میں یہ فیکٹر بھی کا فی اہم ہے۔ ’نفرت کے بازار میںمحبت کی دکانیں‘ والے بیان کے ساتھ ساتھ راہل گاندھی نے انتخابی نتائج کو غریب عوام کی جیت اور سرمایہ دار طاقتوں کی کراری شکست قرار دیتے ہوئے اپنے سیاسی موقف اور پالیسی کو صحیح ٹھہرانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ آئندہ ایک سال کے اندر ہندوستان کے عوام یہ طے کر دیں گے کہ راہل گاندھی اپنے دعویٰ کے حوالے سے کس حد تک درست ہیں اور یہ بھی طے ہوجائے گا کہ عوام کا یہ ’راہل پریم‘ وقتی ہے یا دیر پا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS