مولانا عبدالحفیظ اسلامی
خالق کائنات نے اپنی عظیم الشان سلطنت میں، جن و انس کی جو تخلیق فرمائی ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ خالق و مالک کی بندگی کی جائے۔ سورۃ دھر میں، ارشاد فرمایاگیا کہ ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تا کہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کیلئے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اْسے راستہ دکھایا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘ (ترجمانی آیات ۲ تا ۳)۔ اس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو دنیامیں بھیجاتا کہ اس کی آزمائش کی جائے کہ وہ کونسا رویہ اپنے مالک کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جہاں انسان کو پیدا فرمایاہے وہیں پر اس کی ہدایت و رہنمائی کیلئے بھی سامان مہیا فرمادیا اور بتلادیا کہ ہدایت کا راستہ کونسا ہے اور گمراہی و بربادی کی طرف جانے والے کون کون سے راستے ہیں۔ سورۃ البلد میں یہ بات یوں فرمائی گئی کہ ’’اور ہم نے اسے دونوں راستے (یعنی خیر و شر کے ) نمایاں کر کے بتادیئے’’اس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ ہر انسان پر اس کا فجور اور اس کا تقوی یہ دونوں چیزیں اس پر الہام کردیا۔ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ضمیر (نفسِ لوامہ) نام کی ایک چیز رکھ دی ہے جو اسے ہر اس موقع پر ٹوکتی ہے جب وہ کوئی برائی کرنے والا ہو یا کررہا یا کرچکا ہو۔ اس ضمیر کو خواہ انسان کتنی ہی تھپکیاں دے کر سْلائے، اور اس کو بے حِس بنانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کرلے لیکن وہ اسے بالکل فنا کردینے پر قادر نہیں ہے۔ وہ دنیامیں ڈھیٹ بن کر اپنے آپ کو قطعی بے ضمیر ثابت کرسکتا ہے، وہ حجتیں بگھار کردینا کو دھوکہ دینے کی بھی ہر کوشش کرسکتا ہے، وہ اپنے نفس کو بھی فریب دینے کیلئے اپنے افعال کیلئے بے شمار عذرات تراش سکتا ہے،مگر اس کے باوجود اللہ نے اس کی فطرت میں محاسبِ بٹھا رکھا ہے وہ اتنا جاندار ہے کہ کسی برے انسان سے یہ بات چھپی نہیں رہتی کہ وہ حقیقت میں کیا ہے۔ یہی بات ہے جو سورہ قیامہ میں فرمائی گئی ہے کہ ’’انسان خود اپنے آپ کو خوب جانتا ہے خواہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے ‘‘۔اللہ تبارک تعالیٰ ہر انسان میں یہ خوبی رکھ دی اور یہ سمجھداری عطا کی کہ ڈھٹائی کیاہے اور گناہوں سے بچ کر چلنا کسے کہتے ہیں۔ سورۃ ملک میں ارشاد ربانی یوں ہوا’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تا کہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا کی زندگی ایک امتحان ہے۔ ’’سب سے پہلے فرمایا کہ موت اور حیات کا تسلسل قائم کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی کے حکم سے کوئی چیز معرض وجود میں آتی ہے اور اسی کے حکم سے نیست و نابود ہوتی ہے، کوئی چیز نہ خود بخود موجود ہوسکتی ہے اور نہ از خود معدوم ہوسکتی ہے۔ ساتھ ہی اس کی حکمت بھی بیان کردی کہ اس سے مقصد تمہارا امتحان لینا ہے کہ ہم نے سمع و بصر، فہم و تدبر کی جو بے پناہ صلاحیتیں تمہیں عطا فرمائی ہیں، پھر اس نظامِ کائنات میں تمہیں اعلی و ارفع مقام بخشا ہے اور تمہاری رہنمائی کیلئے انبیاء و رسل کو مبعوث فرمایا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ ان نعمتوں کی تم قدر پہچانتے ہو اور ان قوتوں کو اپنی خوشی سے رضا الٰہی کے حصول کیلئے صرف کرتے ہو یا دولت اور اقتدار، جوانی اور صحت کا نشہ تمہیں بدمست کردیتا ہے اور تم اللہ کی نافرمانی میں اپنی قوتیں اور اپنا وقت عزیز خرچ کرتے ہو۔ ایک مرتبہ حضور سرورِ عالم ؐ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو ان الفاظ سے نصیحت فرمائی ترجمہ ’’اپنی صحت کی حالت میں بیماری کیلئے، اپنی جوانی کی حالت میں بڑھاپے کیلئے،اپنے فرصت کے لمحات میں مصروفیت کیلئے اور جب تک زندگی کی شمع روشن ہے موت کیلئے ذخیرہ کرلو۔ تو نہیں جانتا کہ کل تیرا کیا نام ہوگا۔
قرآن حکیم کے مطالعہ سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ دنیا کی زندگی آدمی کیلئے امتحان گاہ ہے اور اس امتحان گاہ میں ہر آدمی پرچہ حل کررہا ہے،ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی سوالات کے صحیح جوابات تحریر کررہا ہے اور کوئی غلط جوابات دے کر آخرت کی ہمیشہ والی زندگی میں ناکام و نامردار ہونے والا ہے جیسا کہ سورۃ شمس میں فرمایا ’’یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہو ا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔ (ترجمانی آیات ۹ تا ۱۰)یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لئے جانے والے امتحان میں وہی شخص کامیابی کی سند حاصل کرے گا جو اپنے نفس کو شرک و کفر سے اور برے عقائد و اعمال اور خراب اخلاق سے پاک کرلیا، جس کا نتیجہ بھی اچھا نکلتا ہے اور جو شخص اپنی ضمیر کی آواز کو دبادیا (جو خیر و شر کی خبریں دیتی رہتی ہے) تو سمجھ لو کہ ناکام ہوگیا کیونکہ فجور کی بنیاد پر جو اعمال انجام دیئے جاتے ہیں وہ نتیجے کے لحاظ سے ناکامی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔اور یہ بات ایک حقیقت ہے کہ جنت و درجات جنت صرف متقین و پرہیز گاروں کیلئے تیار رکھی گئی ہے اور جو لوگ اللہ کے عذاب سے بے خوف ہوکر زندگی بسر کرتے ہیں اور وہ جو بے لگام ہوکر اپنی من مانی کرتے ہیں ان کیلئے دوزخ کی آگ تیار رکھی گئی ہے۔انسان کو دوزخ میں جانے کیلئے کچھ بھی محنت کرنی نہیں پڑتی صرف ضمیر کی آواز کو دبا دینا اس کیلئے کافی ہے پھر اس کے بعد لذات دنیا کا حصول اس کیلئے آسان ہوجاتا ہے اور حرام و حلال کی تمیز کئے بغیر اور اپنے خالق و مالک کے ساتھ غداری کرتے ہوئے (اس عارضی دنیا میں)خوب مزے لوٹتا ہے لیکن اس بد بخت کی اخروی حیات (جوابدی اور باقی رہنے والی ہے) تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس ’’جنت‘‘ ہے اس کا حصول دشوار گزار گھاٹی کو پار کرنے کے بعد ہی ممکن ہوسکتا ہے کیونکہ جنت آدمی کو یوں ہی نہیںملتی بلکہ اس کیلئے طرح طرح کے آزمائش سے دو چار ہونا پڑتا ہے کیونکہ جنت کی طرف جانے کا راستہ،دشوار گزار گھاٹی سے ہوکر گزرتا ہے لیکن یہ دشواری اہل ایمان کیلئے آسان بنادی جاتی ہے،اس کیلئے آدمی کو ہمت کرنا پرتا ہے اور یہ چیز اسی صورت میں حاصل ہوسکتی ہے جبکہ آدمی اللہ پر ایمان لائے اور اس کے تقاضے پورے کرے کیونکہ اللہ کے نزدیک کوئی بڑے سے بڑا عمل مقبولیت حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ اس میں ایمان خالص شامل نہ ہو اور یہ ایمان ہی کی طاقت ہے کہ آدمی اعمال صالحات کی ادائیگی میں تنگی محسوس نہیں کرتا کیونکہ دنیا کی تنگی، رضا الٰہی اور حصول جنت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے۔آدمی کا ایمان جب پختہ ہوجاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو پورے طریقہ سے اللہ تبارک تعالیٰ اور اس کی کتاب اور اس کے نبی و رسول محمد ؐ کی تعلیمات کے حوالہ کردیتا ہے، اور اہل ایمان بن کر دنیامیں زندگی گزارنے میں جو بھی آزمائش آتی ہیں اور جو بھی دشوار گمار گھاٹیاں اس کی راہ میں حائل ہوتی ہیں اسے ثابت قدمی اورپورے صبر و استقلال کے ساتھ عبور کردیتا ہے کیونکہ یہ حقیقت اس کے سامنے روز روشن کی طرح رہتی ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لاکر اپنے پورے وجود کو یہاں تک کہ اپنی جان و مال کو بھی اللہ کے ہاتھ جنت کے بدلے میں فروخت کرچکا پھر اس کے بعد دنیا کی بڑی سے بڑی تکلیف کو خوشی خوشی برداشت کرلیتا۔جو لوگ جنت کے مستحق ہوتے ہیں تھوڑا ان کے اوصاف حمیدہ پر ہم روشنی ڈالیں گے تا کہ ہمارے لئے کچھ درس عبرت کا سامان ہوجائے جس کا ذکر قرآن حکیم کرتا ہے اور رسول اللہ ؐ کے ارشادات گرامی میں بھی واضح طور پر ہمارے لئے رہنمائی موجود ہے۔ سورۃ لقمان میں فلاح پانے والوں کے کچھ اوصاف یوں بیان فرمائے کہ ’’حکمت والی کتاب (قرآن حکیم ) ہدایت اور رحمت نیکوکار لوگوں کیلئے، جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں‘‘ ایمان پر قائم رہتے ہوئے ہر آنے و الی مصیبت پر صبر کرنا اور حق پر ڈٹے رہنا اور خدا کی نعمتیں استعمال کرتے ہوئے احسان فراموشی نہ کرنا اور ہر وقت اپنے منعم کو یاد رکھنا یہ مومن کی شان ہے۔ جو لوگ جنتوں کی قیام گاہوں میں مزے سے رہنے والے ہیں ان کا ذکر سورۃ السجدۃ میں یوں ہوا۔ ’’ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تکبرنہیں کرتے۔ اْن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف و طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں (ترجمانی)۔ یعنی آخرت میںکامیاب ہونے والے اور نیک بخت لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے کچھ خاص اوصاف گنوائے گے پہلا یہ کہ اللہ کی آیات سے نصیحت پکڑنا اور اس کے آگے جھک جانا۔ دوسرا یہ کہ اللہ تبارک تعالیٰ کی تعریف بیان کرنا اور اسی کے گن گانا۔ تیسرا کہ ان کے نفس میں کبر کی کیفیت نہیں پائی جاتی۔ چوتھا یہ کہ اپنے بستروں سے الگ ہوکر راتوں کا ایک حصہ اللہ کی عبادت میں صرف کرتے ہیں۔ پانچواں یہ کہ اللہ کا خوف ان پر ہمیشہ طاری رہتا اور اس سے امید رکھتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ چھٹا یہ کہ انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہیں۔ صاحب تدبر قرآن نے آیت ۶۱کی تفسیر یوں فرمائی :’’یعنی ان لوگوں پر خدا کے حضور پیشی اور آخرت کی باز پرس کا خوف چونکہ ہر وقت طاری رہتا ہے اس وجہ سے وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اور بستروں کی لذت و راحت سے اپنے کو محروم رکھ کر اپنے رب کو پکارتے اور اس کی نمازیں پڑھتے ہیں۔ یہ ڈرتے بھی اسی سے ہیں اور امید بھی اسی سے رکھتے ہیں اور جو کچھ خدا نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں‘‘۔ان آیات میں دو چیزوں کا ذکر آیا ہے، ایک نماز، دوسری انفاق۔ ایمان کے بعد یہی دو چیزیں اس کے اولین مظاہر کی حیثیت رکھتی ہیں اور پھر انہی دو پر پورے دین کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔اللہ کی طرف سے مغفرت اور اجر عظیم آدمی کو یوں ہی نہیں ملتی بلکہ اس کا ایک ضابطہ مقرر فرما دیاگیا اور اس کا طریقہ بتلادیا گیا ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
سورۃ احزاب کی آیت کریمہ ۵۳ میں، اسلام کی بنیادی قدروں کا ذکر فرمایا گیا۔’’بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے،صدقہ دینے والے،روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کیلئے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے‘‘۔یعنی جن میں مذکورہ بالا نیک صفتیں پائی جاتی ہیں تو اللہ نے ان کیلئے مغفرت اور اجر عظیم (جنت )تیار رکھی ہے۔اس سلسلہ میں صاحب تفسیر ابن کثیریوں رقمطراز ہوئے جو سات چیزوں پر مشتمل ہے:(1) قنوت سے مراد سکون کے ساتھ اطاعت گزاری ہے۔ یعنی خدا کے سامنے با ادب فرماں برداری کی صورت میںکھڑے ہوا کرو۔ پس اسلام کے اوپر کا مرتبہ ایمان ہے اور اس کے اجتماع سے انسان میں حکم برداری اور اطاعت گزاری پیدا ہوجاتی ہے۔(2)سچائی نیکی کی طرف رہبری کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف۔ جھوٹ سے بچو جھوٹ بدکاری کی طرف رہبری کرتا ہے اور فسق و فجور انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے، انسان سچ بولتے بولتے اور سچائی کا قصد کرتے کرتے خدا کے ہاں صدیق لکھ لیاجاتا ہے۔(3)صبر ثابت قدمی کا نتیجہ ہے، سب سے زیادہ سخت صبر صدمے کے ابتدائی وقت پر ہے اور اسی کا اجر زیادہ ہے۔(4)خشوع سے مراد تسکین دلجمعی تواضح فروتنی اور عاجزی ہے یہ انسان میں اس وقت آتی ہے جب کہ دل میں خوفِ خدا ہو اور رب کو ہر وقت حاضر و ناظر جانتا ہو اور اس طرح خدا کی عبادت کرتا ہو جیسے وہ خدا کو دیکھ رہا ہو اور یہ نہیں تو کم از کم اس درجہ پر تو ضرور ہو کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے۔(5) صدقے سے مراد محتاج ضعیفوں کو جن کی کوئی کمائی نہ ہونہ جن کا کوئی کمانے والا ہوا نہیں اپنا فالتو مال دینا اس نیت سے کہ خدا کی اطاعت ہو اور مخلوق کا کام بنے۔ صحیحین کی حدیث میں ہے سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سواء کوئی سایہ نہ ہوگا اس میں ایک وہ بھی ہے جو صدقہ دیتا ہے۔(6)روزے کی بابت حدیث میں ہے کہ یہ بدن کی زکوۃ ہے یعنی اسے پاک صاف کردیتا ہے۔ حضرت سعید بن جبیرؓ فرماتے ہیں، رمضان کے روزے رکھ کر جس نے ہر مہینے میں تین روزے رکھ لئے وہ والصائمین و الصئمت میں داخل ہوگیا،روزہ شہوت کو بھی جھکا دینے والا ہے۔(7)روزوں کے ذکر کے بعد ہی بدکاری سے بچنے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ مسلمان مرد و عورت حرام سے اور گناہ کے کاموں سے بچے رہتے ہیں۔اپنی اس خاص قوت کو جائز جگہ صرف کرتے ہیں۔اس سلسلہ کی آخری چیز جو ذکر اللہ کی اہمیت کو واضح کرتی ہے اس کا خلاصہ بھی یہاں مفید رہے گا۔’’ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملہ میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے۔ یہ کیفیت آدمی پر اس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو، انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لا شعور تک میں جب یہ خیال گہرا اْتر جاتا ہے تب ہی اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا‘‘۔
کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا۔ فارغ ہوگا تو الحمد اللہ کہے گا۔ سوئے گا تو اللہ کو یاد کر کے اور اٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ،الحمد اللہ،انشاء اللہ،ماشاء اللہ اور اس طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے۔ غرض اْٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہوگا یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، جلد چہارم، صفحہ 94 تا 97)
ذکر اللہ کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ سرکار دو عالمؐ کی اس حدیث سے ہم کرسکتے ہیں حضرت معاذ بن انس جہنی? روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ؐ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ، جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے؟
فرمایا جو ان میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے۔ اس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گا؟ فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرنے والا ہو۔ پھر اس شخص نے اسی طرح نماز، زکوۃ، حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا اور حضورؐ نے ہر ایک کا یہی جواب ارشاد فرمایا کہ اکثر ھم للہ ذکرا جو اللہ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو۔ (مسند احمد)
حقیت یہ ہے کہ اللہ کی یاد، اس کا ذکر ہی دلوں کو اطمینان بخشتا ہے اور اس سے اعمال صالحات کی ادائیگی میں آسانی پیدا ہوتی ہے،اسی لئے زندگی کے ہر لمحہ پر خدا کی یاد ضروری ہے۔ یہ خدا کی یاد ہی کی برکت ہے کہ آدمی بخل سے اجتناب کرتا ہے، نماز پڑھنا اور اس پر ہمیشہ قائم رہنا، غریبوں اور مستحقین پر اپنا مال خرچ کرنا، انصاف پر قائم رہنا اور روز جزا کو حق مانتے ہوئے اپنے رب سے ڈرتے رہنا، زنا کاری و بدکاری سے سے اپنے دامن کو بچائے رکھنا، امانت داری اور عہد کا پاس خیال رکھنا خواہ اس کا تعلق اللہ سے ہو یا اس کے بندوں سے، کسی معاملہ میں گواہی دینے کی ضرورت پڑ جائے تواس میں راست بازی سے کام لینا، اپنی نمازوں کو وقت پر ادا کرنا، کسی گردن کو غلامی سے نجات دلانا، یتیموں اور خاک نشینوں کو کھانا کھلانا، صبر اور رحم پر قائم رہنا اور دوسروں کو اس کی تلقین کرنا اور جس چیز کو وہ حق سمجھ کر قبول کیا ہے یعنی دین اسلام یہی چیز دیگر بندگان خدا کیلئے پسند کرنا اور اس کی اشاعت کیلئے جدوجہد کرنا وغیرہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو خدائے تعالیٰ کی یاد ہی سے ممکن ہے۔
مذکورہ بالا تمام اعمال ایک محنت طلب کام ہیں اور اس راستے میں سخت امتحان ہوتا ہے آزمائش آتی ہے، جو ان پر پورا اترتا ہے اس کیلئے اللہ کی رحمت و مغفرت ہے اور جنت اس کا آخری ٹھکانہ ہے۔
اقتباسات و استفادہ
تفہیم القرآن، ضیاء القرآن، تدبر قرآن، تفسیر ابن کثیر اور معارف القرآن
٭٭٭