تارکِ جمعہ کا دردناک انجام

0

مفتی محمدشمس تبریز علیمی

جمعہ یعنی اجتماع کادن ،زمانہ جاہلیت میں اس دن کو عروبہ کہا جاتا تھا ۔حضورؐ کی بعثت سے پانچ سوساٹھ برس پہلے کعب بن لوئی نے اس دن کانام جمعہ رکھا کہ اس زمانہ میں قریش ایک جگہ جمع ہوتے تھے اورکعب خطبہ دیاکرتے تھے۔ بہر حال عروبہ کے لئے لفظ جمعہ کااہتمام زمانہ جاہلیت ہی میں ہوچکاتھا لیکن یہ لفظ عام عرب میں مشہورنہ تھا۔ صرف قریش کے درمیان ہی اس کااستعمال تھا۔ حضور ؐ کی بعثت اور نزول قرآن کے بعد اس کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ عروبہ کالفظ تقریبا لغت عرب سے ختم ہوگیا اوراسے جمعہ ہی کہاجانے لگا۔ اللہ رب العزت فرماتاہے: اے ایمان والو ! جب نمازکے لئے جمعہ کے دن اذان دی جائے توذکرِ خدا کی طرف دوڑو اورخرید وفروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔(پارہ ،سورہ جمعہ:) دوڑنے سے بھاگنا مراد نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ نماز کیلئے تیاری شروع کردو اور اطمینان و سکون کے ساتھ خطبہ سے قبل مسجد میں پہنچ جاؤ۔
نماز جمعہ کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کاذکر اور اس کی پابندی کرنے کا واضح حکم قرآن کریم میں موجودہے۔ علاوہ ازیں معلم کائنات ؐ نے نہایت تاکیدکے ساتھ اس کی پابندی کی تعلیم دی اور اس سے لاپرواہی کرنے والوں کو سخت وعید سنائی۔ آقائے کریم ؐ کے چندارشادات ملاحظہ کریں:
مسلم ابوہریرہ و ابن عمر سے اور نسائی وابن ماجہ ابن عباس وابن عمر رضی اللہ تعالی عنہم سے راوی ہیں، حضورؐ فرماتے ہیں: لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آئیں گے یا اللہ تعالی ان کے دلوں پر مہر کردے گا پھرغافلین میں ہوجائیں گے۔ رسول اللہ ؐ فرماتے ہیں:جوتین جمعہ سستی کی وجہ سے چھوڑے گا اللہ تعالی اس کے دل پر مہر کردے گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے جوتین جمعہ بلاعذر چھوڑے وہ منافق ہے۔ ترغیب وترہیب کی روایت میں ہے،جو تین جمعہ بغیرکسی عذر شرعی کے چھوڑدے وہ اللہ عزوجل سے بے علاقہ ہے۔ اور طبرانی میں ہے کہ وہ منافقین میں لکھ دیاگیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حضورنبی کریم ؐ نے فرمایا:جوشخص بلاضرورت ومجبوری جمعہ ترک کردے۔ وہ ایسی کتاب میں منافقوں میں لکھ دیاجاتاہے جونہ مٹائی جاسکتی ہے نہ اس میں کوئی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ یعنی وہ ہمیشہ کے لئے اللہ کے نزدیک منافقوں کی فہرست میں شامل کردیاجاتاہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے۔جو تین جمعہ پے درپے چھوڑے اس نے اسلام کوپیٹھ کے پیچھے بھینک دیا۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے راوایت ہے کہ حضور اکرم ؐ فرماتے ہیں:جوبغیرعذر جمعہ چھوڑے ،ایک دینار صدقہ دے اوراگرنہ پائے توآدھا دینار اوریہ دینار صدقہ کرنا شاید اس لئے ہوکہ قبول توبہ کے لئے معین ہو ورنہ حقیقتا تو توبہ کرنا فرض ہے۔
مسلم شریف میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ؐ فرماتے ہیں:میں نے قصد کیاکہ ایک شخص کونماز پڑھانے کاحکم دوں اور جو لوگ جمعہ سے پیچھے رہ گئے ان کے گھروں کوجلادوں۔ ابن ماجہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ،کہ نبی کریم ؐ نے خطبہ دیا اورفرمایا: اے لوگو! مرنے سے پہلے اللہ عزوجل کی طرف توبہ کرو اور مشغول ہونے سے پہلے نیک کاموں کی طرف سبقت کرو اور یادِ خداکی کثرت اورظاہرو پوشیدہ صدقہ کی کثرت سے جوتعلقات تمہارے اورتمہارے رب کے درمیان ہیں ملاو۔ ایسا کرو گے تو تمہیں روزی دی جائے گی اور تمہاری مدد کی جائے گی اور تمہاری شکستگی دور کی جائے گی اورجان لو کہ اس جگہ اس دن اس سال میں قیامت تک کے لئے اللہ نے تم پر جمعہ فرض کیا، دارقطنی کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ؐنے ارشادفرمایا : جو اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لاتا ہے اس پر جمعہ کے دن جمعہ فرض ہے۔
بڑی متانت وسنجیدگی کے ساتھ غورکرنے کی بات ہے کہ مخبرصادق ؐ بلاعذر شرعی بغیرکسی مجبوری کے محض لاپرواہی اور سستی کے جمعہ کی نماز چھوڑ دینے والوں کاکیابھیانک انجام بیان فرمارہے ہیں کہ جس نے متواتر تین جمعہ چھوڑ دیئے اللہ تعالی اس کے دل پرمہرلگا دیتاہے کہ انہوں نے کھلم کھلااللہ تبارک وتعالی کے حکم کی تعمیل سے لاپرواہی اور سستی کی۔ پس یہ فسق وفجور میں مبتلا ہوگئے ،یہ لوگ نہایت ہی سرکش ہیں، سورہ یونس میں اللہ رب العزت کافرمان ہے: ہم اسی طرح سرکشوں کے دلوں پرمہرلگادیتے ہیں۔ اللہ تعالی محفوظ رکھے جس کے دل پریہ مہرلگ جاتی ہے یعنی اللہ کی رحمت اس سے منہ پھیرلیتی ہے، اس کوجانوروں جیسی زندگی بسرکرنے کے لئے چھوڑ دیاجاتاہے۔ ایسے شخص کے دل میں پھرکبھی دین کی طرف مائل ہونے کی امنگ پیدانہیں ہوتی حتی کہ وہ عبادت کرنے سے بھی محروم کردیاجاتاہے اور ان لوگوں کا تومزید بد ترانجام ہے جوکبھی نماز جمعہ پڑھتے ہی نہیں کہ انہیں ہمیشہ کے لئے منافقوں کی فہرست میں شامل کردیاجاتاہے، چاہے انہیں شرعا منافق کہہ کر نہ بلایاجاسکے لیکن بہرحال اللہ کے یہاں ان کا انجام منافقوں ہی کے ساتھ بتایاگیا ہے۔ افسوس ! ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ،مدتیں گزرجاتی ہیں ان ظالموں کااللہ کے دربارمیں سر نہیں جھکتا، ان میں بہت سے توایسے بدنصیب ہیں جونماز عیدالفطر اورعید الاضحی سے بھی محروم رہتے ہیں کہ یہ ان کے سونے کاوقت ہوتاہے۔ پھر ایسے لوگ اس قدربے شرم اور بے حیا ہوتے ہیں کہ اپنی مرضی اور اپنی سہولت کے مطابق عیدمناتے ،زرق برق لباس پہنتے، تحفے ،تحائف لینے دینے میں پیش پیش نظر آتے ہیں کہ یہ عید کو بس ایک تہوار کے سواکچھ نہیں سمجھتے ۔ اللہ تعالی ایسی بدعملی اورکج فہمی سے ہمیں محفوظ رکھے ، آمین۔
سورہ جمعہ کی آیات میں غورکرنے پریہ واضح ہوجاتاہے کہ نمازِ جمعہ کے لئے مسجدمیں خطبہ شروع ہونے سے پہلے داخل ہوناچاہیئے تاکہ سنتوں وغیرہ سے فارغ ہوکراطمینان کے ساتھ خطبہ بھی سناجاسکے اوراللہ کے حکم پرپوری طرح عمل ہوسکے۔ صرف نمازِ جمعہ میں شامل ہوجاناحکم الہی کی تکمیل نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کاعمل ہماری رہنمائی کررہاہے کہ حضرت سہل بن ساعد رضی اللہ عنہ نے بتایا: ہم نہ تودوپہرکوآرام کرتے تھے اورنہ ہی دوپہرکاکھانا کھاتے تھے مگرنماز جمعہ کے بعد، کہ کہیں ان کاموں کے سبب نمازِ جمعہ میں تاخیرنہ ہوجائے۔ ذرا سوچیں کہ صحابہ کرام اللہ ورسول کے احکام کی تعمیل کے لئے کس قدراحتیاط فرماتے تھے۔اللہ تعالی نے فرمایا:اور بیع چھوڑدو۔ بیع کے معنی اگرچہ صرف بیچناہے لیکن یہ لفظ خریدوفروخت دونوں ہی کے لئے استعمال ہوتاہے۔ یہاں قرآن کریم نے اس کومزیدوسیع مفہوم میں استعمال فرمایاہے اوراس سے مراد تمام کاروبار ہے کیونکہ اصل بیع وشرا ہی ہے یعنی تمام کاروبار کا دارومدار تجارت پرہی ہے، چاہے اس کاتعلق زراعت ، صنعت وحرفت سے یاملازمت سے ہو، سب کاسرچشمہ تجارت ہی ہے۔ پس ہدایت کی جارہی ہے کہ جونہی اذانِ جمعہ سنی جائے یااس کاوقت ہوجائے توتمام کاروباربندکردیاجائے کہ اذانِ جمعہ سے قبل کاروبارکرناحرام ہے اور حرام میں کبھی برکت نہیں ہوسکتی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS