ملک میں مہنگائی خوف ناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے لگانے جانے والے سارے بند ٹوٹ چکے ہیں۔پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخاب کے نتائج آنے کے بعد سے روزانہ ہی کسی نہ کسی چیز کی قیمت میں اضافہ ہورہاہے۔روزانہ80کی شرح سے ہونے والے اضافہ کے بعد اب پٹر ول ڈیزل12سے 15 روپے فی لیٹر مہنگا ہوگیا ہے اوران کی قیمتوں میں کمی کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ سی این جی کی قیمتوں میں بھی فی لیٹر 9 سے12 روپے کا اضافہ کردیاگیاہے۔گھریلو رسوئی گیس ایک ہزارروپے سے زیادہ اور تجارتی استعمال میں آنے والا رسوئی گیس کا ایک سیلنڈر 2200 سے 2500روپے میں بیچاجارہاہے۔ایندھن کی بڑھتی قیمتوں نے ترقی کے پہیہ کو الٹا گھماناشروع کردیا ہے اور لوگوں کی قابل لحاظ تعداد لکڑی اور کوئلہ کے چولہے کی جانب لوٹ رہی ہے۔دودھ اور سبزیوں کی قیمتیں بھی بے قابو ہوتی جارہی ہیں۔ مارچ میں دودھ کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب ایک بار پھر قیمت میں اضافے کی خبر ہے۔ جو لیموں80روپے فی کلو گرام ملتا تھا اب اس کی قیمت 300 روپے فی کلو گرام سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ خوراک کی افراط زر مارچ میں بڑھ کر 7.68 فیصد ہو گئی ہے جو فروری 2022 میں 5.85 فیصد تھی۔ تقریباً دو فیصد کے اس اضافہ کی وجہ سے عام آدمی شدید تکلیف محسوس کر رہا ہے۔ اس ماہ سبزیوں کی قیمتوں میں 11.64 فیصد، گوشت اور مچھلی کی قیمتوں میں 9.63 فیصد اور مصالحوں کی قیمتوں میں 8.50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایندھن اور توانائی میں 7.52 فیصد، کپڑے اور جوتے کی قیمتوں میں 9.40 فیصد اضافہ ہوا۔ یعنی روزمرہ استعمال کی ہر چیز عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ خردہ مہنگائی کی شرح جنوری میں6.01 فیصد، فروری میں6.07 فیصد اور اب 6.95 فیصد ہوگئی ہے۔کچھ عجب نہیں کہ اگلے مہینہ یہ سات فیصدسے بھی تجاوز کر جائے۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب عالمی بینک نے مالی سال2023 کیلئے ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) کی شرح نموکی پیش گوئی میں واضح کمی کردی ہے۔عالمی بینک نے اس سے قبل اندازہ لگایاتھا کہ مالی سال2023میں ہندوستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو8.7فیصد رہے گی لیکن اب اسے کم کرتے ہوئے 8 فیصد کردیاگیا ہے۔عالمی بینک نے کہا ہے کہ روس – یوکرین جنگ کی وجہ سے غیر متوازن طلب و رسد اور بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ہندوستان کی جی ڈی پی کی ترقی کی پیش گوئی میں کمی کی گئی ہے۔
اس خوفناک صورتحال کے باوجود حکومت مہنگائی کے حوالے سے کوئی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ ترقی کے اس الٹے گھومتے پہیہ کے باوجود آج بھی حکومت ملک کی معیشت کو 5 کھرب امریکی ڈالربنانے کا خواب دکھارہی ہے۔ معیشت میں بہتری کے خواب کا یہ سلسلہ2019میں شروع ہواتھا۔ مودی حکومت نے اپنے دوسرے دورکے آغازمیں کہاتھا کہ آئندہ 2024تک ملک کو 5 کھرب امریکی ڈالر کی معیشت بنادیاجائے گا۔ لیکن آج ملکی معیشت جس بحران سے گزررہی ہے، اس میںاس کا اپنے پیروں پر کھڑا ہوجاناہی معجزہ ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ 5کھرب کی معیشت کا اعلان بھی مودی حکومت کے پہلے دور کے ہر اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے اور ہر سال 2 کروڑ نوکری فراہم کرنے کے اعلان جیسا ہی ثابت ہوگا۔2019 میں مودی حکومت کے دوسرے دور کے آغازمیں ملکی معیشت کا حجم2.7لاکھ کروڑ امریکی ڈالر تھا لیکن گزشتہ دو برسوں میں ہندوستان کی معیشت کی جو ریڑھ کی ہڈی ٹوٹی ہے وہ دنیا کی نظروں کے سامنے ہے۔اس سے قبل جی ایس ٹی اور نوٹ بندی جیسے فیصلوں کی وجہ سے بھی معیشت اور روزگار کو شدید دھچکا لگاتھا اور کورونا وباکے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے کیاجانے والا اچانک لاک ڈاؤن کا ظالمانہ فیصلہ بھی عوام کیلئے مہلک ثابت ہوا۔اس فیصلہ کی وجہ سے کروڑوں نوکریاں چلی گئیں، لوگوں کے کاروبار تباہ ہوگئے اور ایک بڑی آبادی غربت کے زمرے میں آگئی۔ دو سالوں میں کورونا نے ملک کی معیشت کو کھوکھلا کردیا ہے۔ حکومت نے معیشت کی بہتری کیلئے20لاکھ کروڑ روپے کے جس مجموعہ مراعات کا اعلان کیاتھا وہ صنعت کاروں کی جھولی میں چلاگیا اور عوام کے حصہ میں فقط پانچ کلو اناج ہی آیا۔ ان حالات نے روزگار اور کاروبار سب کچھ ختم کردیا۔ عوام کی جیب خالی ہوگئی ہے۔
کورونا کے بعد مستحکم صورتحال میں لوگوں کو یہ امید تھی کہ اب کاروبار دوبارہ پٹری پرآئے گا لیکن بڑھتی مہنگائی نے سب کچھ پٹری سے اتار دیا ہے۔روزمرہ استعمال کی ہر چیز عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔بڑھتی مہنگائی عوام کیلئے عذاب جان بنی ہوئی ہے۔حکومت نے اگر مہنگائی کی اس اذیت سے عوام کو نجات دلانے کی راہ نہیں نکالی تو کچھ عجب نہیں ہندوستان میں بھی سری لنکا جیسے حالات پیداہوجائیں۔
[email protected]
مہنگائی کی اذیت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS