زین شمسی
میلکم ایکس نے خوب کہا ہے کہ میڈیا کے پاس طاقت ہے کہ وہ آپ کے دل میں ان لوگوں سے نفرت کرنا سکھا دیں گے جو ستائے جارہے ہیں اور ان لوگوں کے تئیں محبت بھر دیں گے جو انہیں ستا رہے ہیں۔ تازہ حجاب معاملہ ہو یا پھر ہر سو پھیلی بدعنوانی اور مہنگائی، میکس اپنے بیان پر کھرے اترتے ہیں۔ بہار اور اترپردیش میں طلبا کے غصہ کو بیان کرتے ہوئے میڈیا نے اپنا پورا غصہ طلبا پر ہی اتار دیا۔ تمام ٹی وی چینلوں نے فیصلہ سنا دیا کہ ریلوے کی نوکری بھیک میں نہیں دی جاتی۔ مفت میں نہیں بانٹی جاتی۔ طلبا اس نوکری کے اہل ہی نہیں تھے۔ گویا ریلوے کی اسامیوں میں تاخیر اور اس میں ہوئی بدعنوانی کی میڈیا کے سامنے کوئی اہمیت نہیں تھی بلکہ طلبا کو قصوروار ثابت کرنے کے لیے ان کی قابلیت کو مرکزی اہمیت دے دی گئی اور ستانے والے کا کردار مثبت ہوگیا اور مظلومین کا رول منفی ہو گیا۔
اسکول میں حجاب پہن کر آنے والی لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھنے کا واقعہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ تعلیم ہر ہندوستانی کا بنیادی حق ہے اور لباس اس کی پسند ہے۔ پسند کو حق پر ترجیح دے کر اسلامی پہناوے کو طالبانی سوچ میں تبدیل کر دیا گیا اور اس بیجا مسئلہ کو بھارت کا بڑا مسئلہ بنا کر پیش کر دیا گیا اور اس مسئلہ کی آڑ میں سیاسی مفاد کو ترجیح دے دی گئی اور پھر یوں ہوا کہ ستائی ہوئی بچیاں ہی ظالم ثابت ہو گئیں۔
کسان تحریک کا معاملہ سب کے سامنے ہے، وہ لوگ اپنے حق کی لڑائی کے لیے سراپا احتجاج ہوئے اور میڈیا بغیر کسی تحقیق کے، بغیر کسی قانونی دلیل کے انہیں خالصتانی اور آتنک وادی ثابت کرنے کے درپے ہو گیا اور سرکار نے جب کسانوں کی مشکلات اور جوش کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بل واپس لیا تو میڈیا نے باضابطہ یہ کہتے ہوئے سرکار سے اپیل کی کہ ہم لوگوں نے کسانوں کے خلاف عوام کا موقف تبدیل کرنے کے لیے کیا کیا جتن کیے، مگر آپ نے کسانوں کی حمایت کر کے ہماری اس محنت کو برباد کر دیا جس میں ہم تقریباً کسانوں کو ظالم قرار دینے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ اس معاملہ میں عدالت کا یہ بیان بھی حیرت ناک ہے جوکسانوں کو اپنی گاڑی سے کچل کر مار دینے والے اترپردیش کے وزیر داخلہ کے بیٹے آشیش کو ضمانت دیتے وقت آیا کہ کسانوں کے ہجوم سے بچنے کے لیے انہوں نے گاڑی کی رفتار بڑھائی ہوگی۔ گویا یہاں بھی یہ ثابت ہوگیا کہ جو مظلوم تھے، دراصل وہی ظالم تھے۔ بات عدالت کی نکلی ہے تو کل ہی جسٹس رنجن گوگوئی کا ایک بیان دیکھنے کو ملا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ میں عدالت نہیں جاؤں گا کیونکہ وہاں انصاف نہیں ملتا۔
مہنگائی، بدعنوانی، صحت، تعلیم اور دیگر عوامی مسائل پر کبھی کبھی جب بات ہوئی بھی تو یہاں پر بھی یہی فارمولہ اپنایا گیا کہ کانگریس کی گزشتہ حکومت میں بھی بدعنوانی تھی، مہنگائی تھی اور تعلیمی سطح میں گراوٹ تھی۔ اس حکومت میں بھی ہے تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو بحث کا موضوع بنے اور یہاں تک کہ اگر ایسے موضوعات کو اٹھانے پر کوئی بضد ہوتا ہے تو پھر اسے سرکار مخالف، وطن مخالف اور ترقی مخالف سب کچھ کہہ دیا جاتا ہے۔ گویا عوامی مفاد میں ہونے والی گفتگو کو بھی عوام کے خلاف بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ یعنی ستائی جانے والی کمیونٹی کو ہی ستانے والی کمیونٹی ثابت کرنے کی کامیاب کوشش ہو رہی ہے۔
ایک بہترین ملک، خوشحال ملک، ترقی یافتہ ملک رائٹس آف انفارمیشن کی شفافیت پر منحصر کرتا ہے۔ ملک کی بہتری اور مفاد کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ میڈیا توازن برقرار رکھے اور عوام اور سرکار کے درمیان برج یعنی پل کا کام کرے۔ عوام کی تشویشات اور مظلوموں کی آہ و بکا سے سرکار کو آگاہ کرے، سرکار کو مجبور کرے کہ وہ ملک کے تانے بانے کو مضبوط کرنے کے جو بھی اقدام ہوسکیں، اسے ہر قیمت پر اٹھایا جائے۔ سرکار سے سوال کرنا میڈیا کی اہم ذمہ داری ہے، مگر جب میڈیا سرکار کے لیے سوال کرنے لگتا ہے تب ملک کا نقصان طے ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں میڈیا سب سے نچلی سطح پر پہنچ گیا۔ نتیجہ میں سرکار بے لگام ہو گئی۔ اہم ایشوز کو نفرت کے غیر اہم ایشو کے نیچے دبایا جانے لگا اور ملک کا سماجی ڈھانچہ منہدم کرنے کی ایسی کوشش شروع کر دی گئی کہ سیاست تو شاید اپنے وقت پر بدل جائے، مگر سماج کو بے حد خطرناک صورت سے گزرنا پڑے گا۔ سماج کی بربادی کا ذمہ دار میڈیا ہے اس سچائی سے کوئی اختلاف نہیں کرسکتا۔ جب سرکار، انتظامیہ، مقننہ سب عوام سے دور ہو جاتے ہیں تو میڈیا ہی اس کاآخری سہارا ہوتا ہے، مگر اب تو عوام کا سب سے بڑا سہارا ہی عوام کے بالکل خلاف کھڑا ہوا ہے۔ کس سے التجا کیجیے، کس سے فریاد کیجیے۔۔۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]