تحقیقاتی صحافت کی بابت چیف جسٹس آف انڈیا کی رائے واجب التعظیم

0

خواجہ عبدالمنتقم

ہمارے ملک کے چیف جسٹس این وی رمن، جنھوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی شروعات ایک صحافی کے طور پر کی تھی ،کچھ دن قبل سدھاکر ریڈی اڈومولا کی کتاب “Blood Sanders: The Great Forest Heist” کے اجرا کے موقع پر حاضرین و سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ ہمارے میڈیا کینوس سے تحقیقی صحافت (Investigative journalism) غائب ہوتی جا رہی ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ اب ہمارے صحافی تو کسی اسکینڈل یا کسی کی بداطواری تک کا انکشاف نہیں کرتے جبکہ موجودہ صورت حال اتنی امید افزا یا تابناک تو نہیں جس میں ایسے واقعات رونما ہی نہ ہوتے ہوں۔ کبھی کبھی ایک دو اس طرح کی اسٹوریز ہی سامنے آتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے صحافیوں کو چاہیے کہ وہ انفرادی، اجتماعی اور ادارہ جاتی ناکامیوں کو اجاگر کریں تا کہ لوگوں کو پتہ لگے کہ کہاں اور کس سے لغزش ہوئی ہے۔ انھوں نے تحقیقی صحافت کے تعلق سے گاندھی جی کے اس قول کا بھی حوالہ دیا کہ اخبارات حقائق کو جاننے کے لیے پڑھے جانے چاہئیں۔ مزید یہ کہ قارئین کو آزاد سوچ کی عادت ختم کرنے کی قطعی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صحافی گاندھی جی کے اس قول کی کسوٹی پر خود کو پرکھیں اور اپنا احتساب کریں۔جج موصوف کی رائے قابل قدر ہے مگر یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ ہمارے صحافی وقتاً فوقتاً کتنے ہی شدید نوعیت کے حساس معاملوں، جن میں جنسی زیادتیاں، اقتصادی جرائم، منشیات، سودوں میں مبینہ کوتاہی، امتحانات کے پرچے لیک ہونے، ملازمتوں کے انتخابی عمل میں بد عنوانی وغیرہ کی بابت اسٹوریز بروقت تیار و پیش کرتے رہے ہیں۔
میڈیا نے دنیا کے کم و بیش تمام ممالک میں ہمیشہ بڑے بڑے اسکینڈلوں کا پردہ فاش کیا ہے لیکن ان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا پردہ فاش کرتے وقت ان پر بھی اقتدار قانون کے اصول کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح فریق ثانی پر۔ ویسے تو ہمارے صحافی، زود حس،درد آشنا اور قابل اعتماد ہیں ہی لیکن پھر بھی انھیں چاہیے کہ وہ ہندوستان کے چیف جسٹس جیسی عظیم المرتبت شخصیت کی نصیحت پر صدق دلی اور ایمانداری سے عمل کرنے کی کوشش کریں اور اپنے فرائض مزید مستعدی اور دلجمعی سے انجام دیں اور اپنی ہر اسٹوری نیک نیتی کے ساتھ تیار کریں نہ کہ کسی کو بدنام کرنے کی نیت سے۔ان کی ہر اسٹوری مبنی بر حقائق ہونی چاہیے۔صحافیوں کو اپنے فرائض ادا کرتے وقت پریس کونسل آف انڈیا کے ذریعہ تحقیقاتی صحافیوں،جنھیں کبھی کبھی تفتیشی صحافی بھی کہا جاتا ہے،کے لیے وضع کیے گئے ضابطۂ اخلاق میں درج مندرجہ ذیل تحقیقاتی صحافت کے اصول و حدود کا بھی پورا پورا خیال ر کھنا چاہیے اور وہ عام طور پر رکھتے بھی ہیں:
٭تحقیقاتی رپورٹر کو اصولی طور پر اپنی اسٹوری کے لیے ان حقائق کو بنیاد بنانا چاہیے جو اس نے خود پتہ لگائے ہیں یاخود تحقیق وتصدیق کی ہے اور یہ محض سنی سنائی باتیں نہیں ہیں اور نہ ہی کسی تیسرے فریق سے حاصل کردہ ایسے ثبوتوں یا شہادت پر مبنی ہیں جو اس نے براہ راست معتبر ذرائع سے خود چیک نہیں کی ہیں۔
٭ اگر ظاہر کرنے والی اور راز میں رکھی جانے والی باتوں کے درمیان کچھ ٹکڑاؤ پیدا ہوتا ہو توتحقیقاتی صحافی کا یہ فرض ہے کہ وہ دونوں کے درمیان توازن قائم رکھے اور ایسا کرتے وقت عوام کی فلاح کو مقدم رکھے۔
٭ تحقیقاتی صحافی کوکسی جلد حاصل ہونے والے لالچ، طمع یا فائدے سے بچنا چاہیے اور ادھ پکے محض قیاس آرائی پر مبنی غیر مصدقہ وغیریقینی حقائق کو اس وقت تک خبر کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے جب تک کہ اس نے انہیں مکمل طور پر معتبر ذرائع سے چیک نہ کرلیا ہو اور ان کی تصدیق نہ کرلی ہو۔
٭ تحقیقاتی صحافی کو محض قیاس آرائی یا ایسے تصورات کو اپنی خبر کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے جن کا کوئی سر پیر نہ ہو اور وہ ایسی باتوں پر مبنی ہوں جو تاہنوز وجود میں ہی نہیں آئی ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو حقائق کی تہہ تک پہنچناچاہیے اور اخبار کو اشاعت کے لیے بھیجنے سے قبل آخری لمحے تک جہاں تک ممکن ہوانہیں چیک اور کراس چیک کرنا چاہیے۔
٭ اخبارات کا حقائق کی سچائی پرکھنے کا طریقہ انتہائی معیاری ہوناچاہیے۔ خبریں کسی مبالغے یا توڑے مروڑے بغیر معروضی انداز میں دی جانی چاہئیں تاکہ اگر ان سے متعلق کوئی معاملہ عدالت کے روبرو جائے تو وہاں انہیں سچ ثابت کیا جاسکے۔
٭ رپورٹر کو تحقیقاتی مدعے کے معاملے میں اس طرح کارروائی کرنی چاہیے جیسے کہ وہ خود پروسیکیوٹر ہو یاوکیل مستغیث۔
٭ کسی مدعے سے متعلق تمام مثبت ومنفی حقائق کو الگ الگ دیا جانا چاہیے اور اس میں کوئی بھی بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہیے یا اس کی بابت کوئی غیر مناسب تبصرہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ رپورٹ کا انداز اور اس کی زبان نہایت سنجیدہ، شائستہ اور پروقار ہونی چاہیے اور وہ جارحانہ، چبھنے والی، طنز آمیز یا مضحکہ خیز نہیںہونی چاہیے خاص طور پر جب اس شخص کے بارے میں تبصرہ کیا جارہا ہو جس کی کسی سرگرمی یا بداطواری کی تحقیق کی جارہی ہو۔ اس کے علاوہ تحقیقاتی رپورٹر کو کسی شخص کی مبینہ مجرمانہ کارروائی وبداطواری کی بابت مجرم ہونے یا بے گناہ ہونے کے بارے میں نہ تو اس طرح کارروائی کرنی چاہیے اور نہ ہی کوئی فیصلہ دینا چاہیے جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ خود ہی منصف ہے۔
٭ تمام کارروائیوں میں جس میں تحقیق، رپورٹ پیش کیاجانا اور اس کی اشاعت شامل ہیں اخبار کے تحقیقاتی صحافی کو اس تعزیری اصول قانون کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ملزم کو تب تک بے گناہ سمجھا جائے گا جب تک کہ آزادانہ طور پر دی گئی معتبر شہادت کی بنیاد پر بغیر کسی شک وشبہ کے یہ ثابت نہیں کردیا جاتا کہ اس شخص نے مبینہ جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
٭کسی مقبول عام شخصیت کی اپنی ایک نجی زندگی ہوتی ہے۔ اس کی نجی یا پرائیویٹ زندگی کے بارے میں کسی بھی انکشاف یا مداخلت کی تب تک اجازت نہیں دی جاسکتی جب تک اس بات کا واضح ثبوت موجود نہ ہو کہ اس کی یہ زندگی اور سرکاری حیثیت یا اختیارات کے ناجائز استعمال کے مابین کوئی رشتہ ہے اور اس سے مفادعامہ پر منفی اثر پڑرہا ہے۔
٭ پریس کو کوئی بھی ایسی خبر اس وقت تک نہیں چھاپنی چاہیے جب تک کہ اسے سرکاری طور پر ریلیز نہیں کردیا جاتاکیونکہ اس سے تحقیقاتی صحافت پر منفی اثر پڑسکتا ہے اور اس کا مقصد بھی فوت ہوسکتا ہے۔
٭ اگرچہ مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعات کا اطلاق کسی صحافی کے ذریعہ تحقیقاتی کارروائی پر نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اسے اچھے اخلاق اور نیک اندیشی سے متعلق بنیادی اصولوںکو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
دریں صورت میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق واقعات کو عوام کے سامنے لائے اور عقبی کارروائی کی غرض سے ارباب حکومت کی توجہ ان کی جانب مبذول کرائے مگر رپورٹنگ کرتے وقت اس بات کا خیال رہے کہ اس سے سماج پر برا اثر نہ پڑے،ملک میں عدم استحکام جیسی صورتحال نہ پیدا ہو اور مختلف فرقوں وگروپوں کے باہمی تعلقات پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ فیض کے اس نظمیہ مشورے کی ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘معنویت تا ہنوز باقی ہے مگر اس فقرۂ شرطیہ کے ساتھ’لکشمن ریکھا پار کرنے کا نہ اخلاقی جواز ہے نہ قانونی‘۔
(مضمون نگار آزاد صحافی،مصنف و سابق بیوروکریٹ ہیں۔ وہ این سی پی یو ایل کے لاء پینل کے رکن بھی ہیں اورامیٹی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر رہ چکے ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS