خیال صرف اپنی ریاست کا !

0

پچھلی چند دہائیوں میں اپنے لوگوں، اپنے طلبا و طالبات کو سہولتیں دینے کے نام پر زبان، خطے اور دیگر طرح کی سیاست بڑھی ہے۔ یہ سیاست کئی لوگوں کو اچھی بھی لگتی ہے، اس کا اندازہ ایسی سیاست کرنے والی پارٹیوں کی بڑھتی مقبولیت اور ان کے بڑھتے ووٹ فیصد سے بھی ہوتا ہے مگر ایسی سیاست دور اندیش نہیں کہی جا سکتی۔ کوئی بھی وہ پارٹی جو اپنی شبیہ ہندوستان بھر میں مضبوط بنائے رکھنا چاہتی ہے، ایسی سیاست میں دلچسپی نہیں دکھا سکتی۔ وہ یہ سمجھ سکتی ہے کہ ایسی سیاست کا دائرہ کافی محدود ہوتا ہے۔ تمل ناڈو کی اسمبلی میں ’نیٹ‘(NEET) کے خلاف بل کا پاس ہونا اسی سیاست کا ایک اور ثبوت ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اس بل کی مخالفت بی جے پی کے علاوہ کسی بھی پارٹی نے نہیں کی۔ اس بل کی حمایت کرنے والی پارٹیاں تمل ناڈو کے طلبا و طالبات میں کچھ اور مقبول ہو سکتی ہیں مگر فی الوقت یہی لگتا ہے کہ دیگر ریاستوں کے لیے انہوں نے کوئی اچھی نظیر قائم نہیں کی ہے۔
پہلے میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے اے آئی پی ایم ٹی یعنی آل انڈیا پری میڈیکل ٹسٹ ہوتے تھے مگر 2013 نیشنل ایلج بلٹی انٹرنس ٹسٹ (انڈرگریجوئٹ) یا (UG) NEET کی ابتدا کی گئی۔ اسے مختصراً ’نیٹ‘ کہا جاتا ہے۔ پہلے یہ ایگزام سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن لیا کرتا تھا، اس کے بعد 2019 سے اس کی ذمہ داری نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی کے سپرد کر دی گئی۔ ملکی سطح پر ایگزام کی ابتدا سے شفافیت آئی۔ طلبا و طالبات کے لیے پہلے سے زیادہ سہولتیں پیدا ہوئیں۔ ان ریاستوں میں بھی بڑی تعداد میں طلبا و طالبات ڈاکٹری کی پڑھائی میں دلچسپی لینے لگے جہاں بدعنوانی زیادہ ہے اور لیڈروں کے عدم تعاون کی وجہ سے تعلیم کے حصول میں زیادہ آسانیاں پیدا نہیں کی جا سکی ہیں۔ ڈاکٹری کی تعلیم سے طلباکی بڑھتی ہوئی دلچسپی کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ 2013 میں 717127 طلبا نے ہی انٹرنس ایگزام میں شرکت کی تھی جبکہ 2020 میں یہ تعداد 1,597,435 رہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ طلبا کی بڑھتی تعداد کے حساب سے کیا میڈیکل کالجز کی سیٹوں میں اضافہ ہوا ہے؟ اس کا جواب راست طور پر ’ہاں‘ میں دینا مشکل ہے، البتہ ’نہیں‘ میں جواب دینا کچھ آسان ہے۔ نیٹ میں طلبا کی اتنی بڑی تعداد کی شرکت کے باوجود داخلے کے لیے 66,000 سیٹیں ہی ہیں۔سرکاری کالجوں میں 27,590 سیٹیں ہیں تو پرائیویٹ کالجوں میں سیٹوں کی تعداد 25,840 ہے۔ نیٹ کونسلنگ سیٹوں کی تعداد 3,521 ہے تو35,461نیٹ بیسس سیٹیں ہیں۔ کسی بھی ریاست کے سرکاری کالجوں کے لیے 85 فیصدسیٹیں اس ریاست کے طلبا کے لیے مختص ہوتی ہیں تو باقی کی 15 فیصد سیٹیں ہندوستان بھر کے طلبا کے لیے ہوتی ہیں لیکن ہر ریاست میں سیٹوں کی تعداد زیادہ نہیں، کیونکہ زیادہ میڈیکل کالجز ہی نہیں ہوں گے تو پھر سیٹیں زیادہ کہاں سے ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ کرناٹک میں جتنی سیٹیں ہیں اتنی سیٹیں کئی دیگر ریاستوں میں نہیں۔ دلی میں برسوںسے پرانے کالجوں سے کام چل رہا ہے۔ یہ سوال جواب طلب ہے کہ پچھلی دو دہائی میں دہلی میں کتنے میڈیکل کالج قائم کیے گئے؟ ظاہر ہے، اس صورت حال سے تمل ناڈو کے لیڈران ناواقف نہیں ہیں۔ اس کے باوجود تمل ناڈو اِنٹی-نیٹ بل 2021 پاس کر کے انہوں نے یہ بتا دیا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اس بل کے مطابق، اب تمل ناڈو میں ایم بی بی ایس-بی ڈی ایس میں داخلے 12 ویں کے نمبروں کی بنیاد پر ہوں گے۔
ایسا نہیں ہے کہ اِنٹی-نیٹ بل سے موجودہ تمل ناڈو حکومت نے دلچسپی دکھائی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ جے للتا کی حکومت نے بھی اس سلسلے میں کوشش کی تھی۔ اسی کوشش کے تحت ایسا ایک بل پاس کیا گیا تھا مگر صدر نے اسے منظوری نہیں دی تھی، اس لیے اس بار بی جے پی کو چھوڑ کر باقی پارٹیوں نے تمل ناڈو اِنٹی-نیٹ بل 2021 کی حمایت کی یعنی اسے پاس کرانے میں حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں کی سوچ ایک نظر آئی۔ اب خدشہ اس بات کا ہے کہ کیا یہ سلسلہ دیگر ریاستوں میں بھی چل پڑے گا؟ اس کا جواب فی الوقت دینا مشکل ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز ہندوستان میں پرائیویٹ سے میڈیکل کی پڑھائی کافی مہنگی ہونے کی وجہ سے طلبا کو دیگر ملکوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ بنگلہ دیش میں میڈیکل کی پڑھائی کافی سستی ہے۔ مجبوراً ہندوستانی طلبا کو وہاں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں ہندوستان ایجوکیشن ہب کیسے بنے گا؟ کیا حکومتیں اس طرف توجہ دیں گی؟ کیا نئے سرکاری میڈیکل کالج کے قیام کی طرف توجہ دی جائے گی یا وعدوں سے بہلانے والے لیڈر وعدے کرتے رہیں گے اور کام کرنے والے لیڈران کام بھی کریں گے اور یہ بھی چاہیں گے کہ ان کے کاموں کا فائدہ انہیں کی ریاست کے لوگوں کو ملے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS