حجروں سے باہر نکلنے کی ضرورت

0

محمدفاروق اعظمی
قومی سلامتی کے مشیراجیت ڈوبھال کاکہناہے کہ چند لوگ مذہب اور نظریہ کے نام پر ملک میں تلخی اور تصادم کو راہ دے رہے ہیں اوراس کا اثر پورے ملک پر پڑرہاہے۔ معاشرہ کے اندرا ور باہر بگاڑ کی اصل وجہ بھی یہی مذہبی اور نظریاتی عقائد ہیں جن کی بنیاد پر مٹھی بھر لوگ تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ملک کی اکثریت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہمیں منظم ہو کر اپنی آوازبلند کرنی ہے اور غلطیوں کو سدھارنے کیلئے اختلافات پر کام کرنا ہو گا۔آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کو نسل کے ایک جلسہ میں شامل اجیت ڈوبھال نے مذہبی تعصب اور منافرت کے خاتمہ کیلئے مختلف مذاہب کے پیشوائوںسے آگے آنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی شخصیات پرلاکھوں کروڑوں لوگ اعتماد ویقین کرتے ہیں ہمیں لوگوں کے درمیان جاکراختلافات وغلط فہمیوں کو ختم کر نے کی ضرورت ہے۔ہمیں آج کیلئے نہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کیلئے لڑرہے ہیںنیزاپنے ملک کی یکجہتی اور سالمیت پرکسی بھی طرح سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے، اس ملک کے اندر اس طاقت کو کیسے بڑھایا جائے کہ ہرہندوستانی محفوظ ہو، نیزاگر ملک کو نقصان ہوا تو ہم سب بھگتیں گے۔
موصوف کی تشویش سے اتفاق نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ گزشتہ8‘10 برسوں سے مذہبی فرقہ وارایت کا زہر بڑی تیزی سے لوگوں میں سرایت کیاہے اور جن پر اس سے نپٹنے کی ذمہ داری تھی وہ خود ہی اسے ہوا دے رہے ہیں۔اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے فرقہ واریت اور مذہبی جنون کو ابھارنے ا ورپھر اسے ووٹوں میں تبدیل کرنے کی روایت بڑی تیزی سے بڑھی ہے۔ہر آنے والادن فرقہ واریت ‘ منافرت اور تشدد کی نئی داستان لے کر طلوع ہورہاہے۔منافرت کی یہ لہرپورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ اس کی کچھ وجہ جہالت ہے تو سب سے بڑی وجہ اپنے مذہب اور عقیدہ کے ماسوا دوسروں سے نفرت کرنا ہے۔ اسی جذبہ کو مفاد پرست اور شرارتی عناصر انگیز کرتے ہیں اور ان کا رخ موڑ کر دوسروں کے خلاف تشدد اور منافرت کی طرف لے جاتے ہیں۔جس سے معاشرہ میں بدامنی و بگاڑ پیدا ہوتا ہے جب کہ امن قائم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر ایک کو دوسرے سے بہتر سمجھنا چھوڑ دے۔ مشترکہ اقدار پر اتفاق کرتے ہوئے اختلافی امور کو رد گزرکرے۔
مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان خوشگوار ماحول کو فروغ دینے اور ایک دوسرے کے تئیں روادارانہ جذبہ قائم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے اور ان کے ما بین میل جول ہونا چاہیے ‘ مکالمہ اور بات چیت ہونی چاہیے۔ اپنے مذہب اور عقیدہ سے دست بردار ہوئے بغیر دوسروں سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی نہ تو کسی مذہب میں ممانعت ہے اور نہ ہی کوئی صحیح الدماغ اس کی مخالفت کرسکتا ہے۔بنیادی طور پر تمام مذاہب امن کا ہی پیغام دیتے ہیں مگر انسانوں کی یہ بدبختی ہے کہ وہ اسی مذہب کو ایک دوسرے کے تئیں تعصب و نفرت اور تشدد کیلئے استعمال کرنے لگے ہیں۔ آج ہندوستان میں منافرت کی اہم ترین وجہ بھی یہی مذہبی تعصب ہے۔یہ تعصب ایک دوسرے کے تئیں ناواقفیت اور کم آمیزی کی وجہ سے مزید بڑھ جاتا ہے۔اپنے مذہبی اقدار سے ناوابستگی اور بعض اوقات شدت پسندی کا رجحان بھی اس مذہبی تعصب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس تعصب کو ختم کئے بغیر ہم نہ تو ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ معاشرہ میں ہم آہنگی اور یگانگت کی فضا قائم ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کیلئے صوفی اور بھکتی تحریک کے احیا کی ضرورت ہے۔ بھکتی تحریک تو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوگئی لیکن صوفیاء ابھی بھی سرگرم ہیں۔ شدت پسند مذہبی عقائد پرا صرار کی بجائے یہ طبقہ مذہبی لبرل ازم کے تناظر میں بڑا کام کررہاہے۔ لیکن اب ضرورت ہے کہ صوفیا کاطبقہ خانقاہوں اور درگاہوں میں بیٹھ کرنذرانہ وصولی کے بجائے معاشرے اور ملک کی بھی فکر کرے۔ سال میں ایک دو بار اسٹیج سجانے کے ساتھ ساتھ صوفیاء کرام اور سجادہ نشینوں کو اب میدان عمل میں بھی آناہوگا۔ مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر تمام مذاہب کے آزاد خیال اور مثبت پہلوؤں پر تبادلہ خیال کرنا ہوگااوراسے ماضی کی طرح ہی اصلاحی تحریک کی شکل دینی ہوگی۔
آج ملک میں جو صورتحال ہے اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ ہر طرف منافرت اور تشدد کا بول بالا ہے اسے ختم کرنے کیلئے بھی منافرت اور تشدد کا ہی حربہ استعمال کیاجارہاہے۔ ملک میں بار بار ہونے والی فرقہ وارانہ منافرت ملک کی یکجہتی اور سالمیت کیلئے بھی خطرہ کا سبب ہے اور ملک کی داخلی سلامتی کیلئے بھی ایک چیلنج بن گئی ہے۔پرامن بقائے باہمی کا تصور دھندلا پڑتاجارہاہے۔ ان حالات میں صوفیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اتحاد اور بھائی چارہ کا اپنا دیرینہ مسلک عوا م کے درمیان لے کر آئیں۔ اقدار پر مبنی تعلیم‘ امن‘ عدم تشدد‘ ہمدردی‘ سیکولرازم اور انسانیت کے جذبہ کو فروغ دیں۔ مذہب کی درست تشریح پیش کریں اور مذہب کو امن عامہ کا سبب بنائیں۔ مضبوط فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اقدار کو آنے والی نسلوں میں پروان چڑھاکر بہتر معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار اداکریں۔بلا امتیاز مذہب سماجی خدمت اور اخلاقیات پر زور دیں اور محبت کے آفاقی پیغام کو عام کریں۔ سماجی برائیوں کے خلاف اسی طرح آواز اٹھائیں جو صوفی تحریک کے آغازکا خاصا تھا۔ہندوستان جیسے کثیر الثقافت و کثیر المذاہب ملک میںآج فرقہ وارانہ منافرت جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس میں صوفی تحریک کا احیا اور صوفیاء کرام کاسرگرم عمل ہونا ضروری ہوگیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS