سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سیرت وسیاسی بصیرت

0

ابوشحمہ انصاری
آپ کا نام علی، کنیت ابوالحسن اور ابو تراب تھا والد نے حیدر (شیر لقب رکھا تھا) آپ کے والد کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ آپ والد، اور، والدہ دونوں طرف سے ہاشمی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حقیقی چچازاد بھائی تھے۔ آپ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تقریباً دس برس پہلے پیدا ہوئے خوش قسمتی کی حد یہ کہ آغوش نبوت میں تربیت پائی ہادئی برحق نے اعلان نبوت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فوراً اسلام قبول کیا۔
آپ ؓنے چونکہ ایام طفولیت ہی سے سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دامن میں تربیت پائی تھی اس لئے آپ محاسن اخلاق اور حسن سیرت کے نمونہ تھے آپ کی زبان کبھی کلمہ شرک وکفر سے آلود ہوئی اور نہ آپ کی پیشانی غیر خدا کے آگے جھکی دور جاہلیت میں ہر قسم کے گناہ سے پاک رہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ میں حضرت علی ؓاپنے علم و فضل اور جرات و شجاعت کے باعث ممتاز تھے۔ آپ بڑے بلند حوصلہ اور غیر معمولی ہمت و استقلال کے مالک تھے۔ آپ کی ذات اخلاق حسنہ کا پیکر اور اوصاف حمیدہ کا مجسمہ تھی۔آپ کی ذات نمونہ زہد تھی بلکہ حق یہ ہے کہ آپ کی ذات پر زہد کا خاتمہ ہو گیا آپ کے کاشانہ فقر میں دنیاوی شان و شکوہ کا گزر نہ تھا۔ کوفہ تشریف لائے تو دارالامارت کے بجائے ایک میدان میں فروکش ہوئے اور فرمایا کہ عمر بن خطابؓ نے ہمیشہ ان عالیشان محلات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا – اپنے عہد خلافت میں آپ نے مسلمانوں کی امانت بیت المال کی جس طرح حفاظت کی اس کا اندازہ حضرت ام کلثوم ؓکے اس بیان سے ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ نارنگیاں آئیں، امام حسنؓاور امام حسین ؓنے ایک ایک نارنگی اٹھا لی حضرت علی ؓنے دیکھا تو چھین کر لوگوں میں تقسیم کر دی۔ (ازالتہ الخفاء بحوالہ ابن ابی شیبہ)
ایام خلافت میں بھی زہد کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا اور آپ کی زندگی میں کوئی فرق نہ آیا موٹا جھوٹا لباس اور روکھا پھیکا کھانا ان کے لئے دنیا کی بڑی نعمت تھی معاش کی یہ حالت تھی کہ ہفتوں گھر سے دھواں نہیں اٹھتا تھا بھوک کی شدت ہوتی تو پیٹ پر پتھر باندھ لیتے – ایک دفعہ بھوک کی شدت میں کاشانہ اقدس سے مزدوری کے لئے نکلے دیکھا کہ ایک ضعیفہ اپنا باغ سیراب کرنا چاہتی ہے اس کے پاس پہنچ کر پانی سینچنے لگے یہاں تک کہ ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے اس محنت و مشقت کے بعد ایک مٹھی کھجور اجرت میں لی لیکن تنہا خوری کی عادت نہ تھی کھجوریں لے کر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تمام کیفیت سن کر نہایت شوق کے ساتھ کھانے میں ساتھ دیا (حوالہ مسند ابن حنبل)
در دولت پر کوئی دربان نہ تھا عین اس وقت جب قیصر و کسریٰ کی شہنشاہی مسلمانوں کے لئے زرو جواہر گل رہی تھی اسلام کا خلیفہ ایک معمولی غریب کی طرح زندگی بسر کرتا تھا تمام غزوات میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بے مثال دلیری کا ثبوت دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غزوہ بدر میں بہادری کے جوہر دکھانے پر آپ کو تلوار ذوالفقار عطا فرمائی تھی آپ نے بڑے بڑے بہادروں کو شکست دی کسی بھی معرکہ میں آپ کے قدم پیچھے نہ ہٹے لوگ آج بھی آپ کو ’شیر خدا‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
علم و فضل میں بھی آپ ممتاز تھے قرآن و حدیث پر آپ کو جو عبور حاصل تھا وہ بہت کم صحابہ کو نصیب ہوا ایک مفتی اور فقہیہ کی حیثیت سے آپ کا کوئی ہم پلہ نہ تھا۔ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے: ’میں علم کا شہر ہوں اور علی ؓاس کا دروازہ ہیں‘
جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک جادو بیان خطیب بھی تھے آپ شاعری کا بہت عمدہ ذوق رکھتے تھے عربی نحو کے قواعد آپ نے مرتب کیے تھے قرآن کے حافظ بھی تھے اور اس کے نکتوں کو خوب سمجھتے تھے حضرت علی ؓبڑے حق گو حق پسند اور بے باک انسان تھے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ازالتہ الخفا میں لکھتے ہیں :
’بڑے بڑے لوگوں میں جو عظیم الشان اخلاق ہوتے ہیں مثلاً شجاعت، سخاوت حمیت اور وفا وہ مکمل طور پر ان میں موجود تھے‘
حضرت علی ؓمیانہ تھے سینہ چوڑا اور کلائیاں نہایت مضبوط تھیں رنگ گندمی، آنکھیں بڑی بڑی، چہرہ پر رونق اور خوب صورت تھا، سینہ پر بال تھے بازو اور تمام بدن گھٹا ہوا، پیٹ بڑا اور باہر کو نکلا ہوا سر پر بال نہ تھے، ریش مبارک بڑی اور اتنی چوڑی تھی کہ ایک کندھے سے دوسرے کندھے تک پھیلی ہوئی تھی۔ جب چلتے تو ادھر ادھر جھکتے ہوئے چلتے تھے اور جب کسی کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے تو وہ سانس تک نہیں لے سکتا تھا جب میدان جنگ میں جاتے تھے تو بیباکانہ دوڑتے ہوئے جاتے تھے۔ طاقتور اور دل کے مضبوط تھے جس شخص سے کشتی لڑتے تھے اس کو پچھاڑ دیتے تھے بہادر تھے اور جس جنگ میں مقابلہ کرتے تھے دشمن پر غالب آتے تھے۔ (ابن خلدون)
ملکی نظم ونسق میں سب سے اہم کام عمال کی نگرانی ہے حضرت علی ؓنے اس کا خاص اہتمام کیا جب وہ کسی عامل کو مقرر کرتے تھے تو اس کو نہایت مفید اور گراں بہا نصیحتیں کرتے تھے کبھی کبھی عمال کے طرز عمل کی تحقیق کرتے تھے جہاں سخت گیری کی ضرورت ہوتی تھی آپ کی طبیعت لچک سے آشنا تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس زہد و تقوی، امانت اورعدل و انصاف سے حکومت کرنا چاہتے تھے اور لوگوں کو جس راستے پر لے جانا چاہتے تھے زمانہ کے تغیر اور حالات کے انقلاب سے لوگوں کے دلوں میں اس کی صلاحیت باقی نہیں رہی تھی ۔ حضرت عمر ؓکی طرح کوڑا ہاتھ میں لے کر اکثر رات کو گشت کرتے تھے۔حضرت علی ؓنے محاصل کے صیغہ میں خاص اصلاحات جاری کیں حضرت عمر ؓنے جنگل سے کسی قسم کا مالی فائدہ حاصل نہیں کیا تھا آپ کے عہد میں جنگل کو بھی محاصل ملکی کے ضمن میں داخل کیا گیا اور اس پر مال گزاری عائد کی گئی۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں گھوڑے زکوٰۃ سے مستثنیٰ تھے عہد فاروقی میں جب عام طور سے ان کی تجارت ہونے لگی تو اس پر بھی زکوٰۃ مقرر کر دی گئی حضرت علی ؓکے نزدیک تمدنی اور جنگی فوائد کے لحاظ سے گھوڑوں کی افزائش نسل میں سہولت بہم پہنچانا ضروری تھا اس لئے اپنے زمانے میں زکو ۃ موقوف کر دی۔(کتاب الخراج ابو یوسف)
حضرت علی ؓکا وجود رعایا کے لئے رحمت تھا بیت المال کے دروازے غرباء و مساکین کے لئے کھلے رہتے تھے اس میں جو رقم جمع ہوتی تھی نہایت فیاضی کے ساتھ مستحقین میں تقسیم کر دی جاتی تھی۔ ذمییوں کے ساتھ بھی نہایت شفقت آمیز برتاؤ کرتے تھے ایران میں کئی بار بغاوتیں ہوئیں لیکن حضرت علی رضی ؓنے ہمیشہ لطف و کرم سے کام لیا یہاں تک کہ ایرانی اس لطف و شفقت سے متاثر ہو کر کہتے تھے خدا کی قسم اس عربی نے نوشیروان کی یاد تازہ کر دی۔حضرت علی ؓ خود ایک بڑے تجربہ کار جنگ آزما تھے اور جنگی امور میں آپ کو پوری بصیرت حاصل تھی اس لئے اس سلسلے میں آپ نے بہت سے انتظامات کئے چنانچہ شام کی سرحد پر نہایت کثرت کے ساتھ فوجی چوکیاں قائم کیں 40ھ میں جب امیر معاویہ نے عراق پر یورش کی تو پہلے ان ہی سرحدی فوجوں نے ان کو آگے بڑھنے سے روکا اسی طرح ایران میں مسلسل شورش اور بغاوت کے باعث بیت المال اور عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے نہایت مضبوط قلعے بنوائے جنگی تعمیرات کے سلسلے میں دریائے فرات کا پل بھی جو معرکہ صفین میں فوجی ضروریات کے خیال سے تعمیر کیا تھا قابل ذکر ہے۔ مسند خلافت پر قدم رکھنے کے بعد سے آخر وقت تک گو خانہ جنگیوں نے فرصت نہ دی تاہم اس فرض سے بالکل غافل نہ تھے ایران اور آرمینیہ میں بعض نو مسلم عیسائی مرتد ہو گئے تھے حضرت علیؓعنہ نے نہایت سختی سے ان کی سرکوبی کی اور ان میں سے اکثر تائب ہو کر پھر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے حضرت علی ؓنے مسلمانوں کی اخلاقی نگرانی کا بھی نہایت سختی کے ساتھ خیال رکھا مجرموں کو عبرت انگیز سزائیں دیں جرم کی نوعیت کے لحاظ سے نئی سزائیں تجویز کیں جو اس سے پہلے اسلام میں رائج نہ تھیں۔ حضرت علیؓ کاعہد خلافت اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کامیاب تھا آپ ؓنے شوریٰ کو برقرار رکھا جس کی وجہ سے نظام حکومت میں جمہوریت اور مساوات کی روح کارفرما رہی مقدمات کے فیصلے کتاب وسنت کی روشنی میں طے کرتے اور علم کی اشاعت میں سرگرم عمل رہتے تھے عدل وانصاف کے لئے آپ کا دور ہمیشہ یاد گار رہے گا ۔ ذمییوںکے حقوق کی آپ کے عہد میں پوری نگہداشت ہوتی تھی اور وہ نہایت پر سکون زندگی بسر کرتے تھے ۔
رمضان کا وسط تھا اور ہجرت کا چالیسواں برس-حضرت علی ؓایک دن حسبِ معمول فجر کے لئے گھر سے نکلے ابن ملجم قریب ہی اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھات لگا کر بیٹھا تھا آپ ؓ پاس سے گزرے تو ابن ملجم کے ایک ساتھی نے وار کیا جو خطا گیا اب ابن ملجم نے تلوار چلائی جو آپ ؓ کی پیشانی پر پڑی ابن ملجم پکڑا گیا اس کے ساتھی روپوش ہو گئے حضرت علی ؓ اتنے سخت زخمی ہوئے تھے کہ زندگی کی امید نہ تھی جناب امیر المومنین کو اٹھا کر لے گئے تلوار زہر آلود تھی اس لئے آپ ؓکی حالت تشویشناک ہوگئی اسی دن آپ کے سامنے ابن ُملجم کو پیش کیا گیا آپ ؓنے اسے بیٹھنے کا حکم دیا اور نرمی سے پوچھا کہ تم نے میری جان کا قصد کیوں کیا؟ اس کے پاس کوئی معقول جواب نہ تھا اس کا جرم ثابت تھا آپ نے حضرت حسن ؓسے کہا کہ اگر میں جانبر نہ ہو سکا تو، ابن ملجم کو اسی طرح ایک وار سے قتل کرنا جس طرح اس نے ایک وار سے مجھے زخمی کیا ہے اسے اذیت نہ دینا اور نہ ہی اس کے اعضاء کاٹنا کیونکہ ہادیٔ برحق محمد مصطفی ؐنے اس سے منع کیا ہے اپنے خاندان والوں کو مخاطب کر کے میرے قتل کے نام سے مسلمانوں میں خونریزی نہ کرنا – سوائے میرے قاتل کے اور کسی پر ہاتھ نہ اٹھانا۔ (تاریخ طبری)
قاتل کو قید میں ڈال دیا گیا آپ ؓدھیان رکھتے تھے کہ اس پر سختی نہ ہونے پائے کھانے کے وقت پوچھتے کہ میرے قیدی کو کھانا دیا گیا ہے؟ زخمی ہونے کے قریباً دو روز بعد واصل حق ہو گئے۔ وفات سے قبل آپ ؓنے اہل بیت کے نام ایک وصیت تحریر فرمائی جو اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ وفات کے دوسرے روز ابن ملجم کو حضرت حسن ؓکے سامنے پیش کیا گیا آپ نے حضرت علی ؓ کی وصیت کے مطابق ایک ہی وار میں اس کا سر اڑا دیا حضرت علی ؓنے تقریباً اکسٹھ برس کی عمر پائی خلافت کی مدت چار سال نو ماہ ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS