پروفیسر عتیق احمدفاروقی
چینی سرحد سے ملحق موضعوںمیں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے ہندوستان نے کوشش تیز کردی ہے۔ اس کے تحت ’وائبرینت ویلیجس پروگرام ‘جیسے جرأت آمیز اقدام کا اعلان کیاگیاہے۔ اس میں چین سے لگی تین ہزار چار سو کلو میٹر کی سرحد پر قریب تین ہزار موضعوںکی نشاندہی کی گئی ہے جہاں بنیادی سہولتوں کو بہتر بنایاجائے گا۔ان سرحدی موضعوں میں سڑک کی تعمیر کیلئے دوہزارپانچ سوکروڑروپئے مختص کئے گئے ہیں۔ اروناچل پردیش نے پن بجلی پروجیکٹوں کے محاذ پر بھی رفتار تیز کی جارہی ہے۔ ہندوستان -تبت سرحد پولیس اہلکاروں کیلئے سہولتوں کو بہتر بنایاجارہاہے۔ ٹیلوفون کمپنیوں سے کہاگیاہے کہ وہ اروناچل کے اس توانگ ضلع میں موبائل کنکٹوٹی میں سدھار لائیں جہاں گزشتہ سال دسمبر میں ہندوستان اورچینی فوجیوں کے بیچ جھڑ پ ہوئی تھی۔ سرحد پر بنیادی ڈھانچے سے جڑی یہ وسیع اسکیم چین کے ذریعے اروناچل کے کچھ حصوں کا نام بدلنے کے بیچ شروع ہوئی ہے۔ چین ان موضعوں کوتبت کا حصہ بتاتارہاہے۔ حکومت کے ذریعے ان علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کا مقصد یہاں کے رہن سہن کی سطح کو اونچا اُٹھانا ہے تاکہ مقامی باشندے وہاں رہائش اختیار کرنے کو راغب ہوں اور روزگار کی راہ میں دوسرے شہروں کی جانب ہجرت نہ کریں۔اس طرح یہ پوری قواعد سرحدی سلامتی کو چست درست بنانے پر مرکوز ہے۔
سرحدی علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ بناکر اورفوجی وشہریوں میں رابطہ قائم کرکے زمینی اوربحری سرحد پر دراندازی کرنا چینی تکڑم کا ایک خصوصی حصہ رہاہے۔ اس سال چین نے تبت اورشنجیانگ کو جوڑنے والی نئی ریلوے لائن بچھانے کا اعلان کیاہے۔ یہ ریل لائن ایل -اے- سی کے بہت قریب اوراکسائی چن سے ہوکر گزرے گی۔ جس پر ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ چین نے اس پر جبراً قبضہ کرلیاہے۔ اسی طرح 2021 میں مقرر نقل وحمل اسکیم کے مطابق چین اپنی مخصوص زمین کو تائیوان سے جوڑنے کیلئے ایک ایکسپریس وے اورسپرفاسٹ ریل کا راستہ تیار کررہاہے۔ یہ کچھ ایسی مثالیں ہیں جو موجودہ صورت حال کو بدلنے کی چینی خواہش کو ظاہر کرتی ہیں۔ جب سے چین نے اپنی فوج کی جدیدسازی شروع کی ہے تب سے جنوبی بحر چین میں اس کی دراندازی اورقبضہ کے واقعات میں اضافہ ہواہے۔ بعدازاں وہ فوجی اڈہ اوردوسرے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرتاہے۔ مچھلی پکڑنے والے اپنے جہازوں کی سلامتی کے بہانے چین نے اسکار بورو شول کا موثرکنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیاہے جس پر فلپنس کادعویٰ ہے ۔ سوویت یونین کے زوال سے چین نے ایک یہ سبق سیکھاہے کہ اسے اپنے داخلی علاقوں کی سلامتی کو یقینی بناناہوگا۔ تبت پر قبضہ کے سترسال بعد بھی وہ نہ تودلائی لامہ کا روحانی اثر اورناہی ہندوستان اورتبت کے بیچ ثقافتی تعلقات کو ختم کرپایاہے۔ یہ چین کیلئے تشویشناک بات ہے ۔ اسی وجہ سے چین کے صدر شی چن فنگ کے ذریعے تبتی سرحد کی سلامتی کی ضرورت پرزوردینے کے بعد خبریں آئیں کہ تبت خود مختار علاقے میں گاؤں بساکر وہاں چین کے تئیں وفادار لوگ بسائے جارہے ہیں۔ چینی سرکاری میڈیا کے ذریعے اسے شنجیانگ خود مختار علاقہ بتانا بھی یہی ظاہر کرتاہے کہ مقامی آبادی کو چینی رنگ میں رنگنے کو لے کر حکومت کی بے چینی کتنی بڑھتی جارہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ چین نے گزشتہ سال لینڈسلنگ قانون بنایاہے۔ یہ قانون چینی فوج اورچین کے مسلح پولیس فورس کوسرحد کی سلامتی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سونپتاہے۔ اس قانون کے مطابق شہری سرحد ی بنیادی ڈھانچے کی سلامتی کی ذمہ داری سے بندھے ہیں۔اس میں سرحد پر بنیادی ڈھانچے کو ترقی دینے اورلوگوں کو نئے سرے سے بسانے پر بھی زور ہے۔ اس میں سیاسی تعلیم کی ضرورت بھی جتائی گئی ہے،تاکہ لوگوں میں چینی ملک کے تئیں جڑاؤ کا سماجی نظریہ مضبوط ہو۔ حال میں ایسے اشارے ملے ہیں کہ اروناچل سے ملحق علاقوں میں چینی فوج تعلیم کو فروغ دے رہی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت ایسی پالیسی بنائی جارہی ہے جو چین کے سامراجی شاہی خاندان اورموجودہ کمیونسٹ تاناشاہوں کے بیچ کڑیاں جوڑتی ہے۔ سامراجی چین میں ایسا کسان -فوجی اتحاد بناتھا جس میں وفادار فوجیوں کو دولت کے بدلے زمین دی جاتی تھی اورجب بھی ریاست کو ان کی خدمات کی ضرورت پڑتی توانہیں واپس محاذ پر بلالیا جاتا تھا۔
تقریباً تین سال قبل سرحد پر چین کے ساتھ چھڑا تعطل مذاکرات کے تمام دور گزرنے کے بعد بھی حل ہونے کا نام نہیں لے رہاہے۔ حالانکہ کچھ معاملوں میں کشیدگی جزوی طور پر کم ہوئی ہے لیکن کچھ سرحدی موضعوں کے نام بدل کر چین نے اروناچل میں نیا محاذ کھول دیاہے۔
سرحدی موضعوں سے جڑی نئی اسکیم کے توسط سے یہی لگتاہے کہ ہندوستان کی حکومت سرحد پر چینی سازشوں سے نمٹنے کو لیکر ہوشیار ہے لیکن امت شاہ کا یہ بیان کہ ملک کی ایک انچ زمین پر قبضہ نہیں ہونے دیاجائے گا یاوزیردفاع راجناتھ سنگھ کایہ کہناکہ ہم سرحد پر اپنے دشمنوں سے نمٹنے کے اہل ہیں ، سے ملک کا بھلاہونے والانہیں ہے ۔ وزیراعظم نریندرمودی شروع میں ایک بیان دے کر خاموش ہوگئے کہ چین نے ہندوستان کے ساتھ کوئی دراندازی نہیں کی ہے ۔ سچائی یہ ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت سرحد پر چینی سازشوں سے نمٹنے کیلئے اب تک کوئی اتنے پختہ قدم نہیں اُٹھائے ہیں جس سے چین کو کوئی سخت پیغام پہنچے ۔سرحدی موضعوں میں کچھ تعمیری کام کرلینے سے مسئلہ نہیں حل ہونے والاہے اگرچین اپنے نقشے میں اروناچل پردیش کو صرف چین کا ایک حصہ دکھلاتاہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایک وقت تھا جب صدام حسین کے زمانے میں عراق نے اپنے نقشے میں کویت کو اپنے ملک کا ایک حصہ دکھایاتھا،فرق کب پڑا جب اُس نے کویت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ یہاں ہندو-چین معاملے میں فرق اس لئے پڑرہاہے کیونکہ چین نے ہندوستان کے کچھ حصوں پر قبضہ کرلیاہے ۔ہماری حکومت کو، اب وقت آگیاہے کہ چین کے ساتھ سخت رویہ اپنائے ۔ ہمیں مزید چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ اپنی مقبوضہ زمین واپس لینے کیلئے دونوں سطح پر کوشش کرنی پڑے گی۔ فوجی سطح اورسفارتی سطح۔ پاکستان کی طرح چین کے ساتھ بھی ملک کے تعلقات کو محدود کرنا پڑے گا۔ وقتی طور پر ہمیں تجارتی اورمالی رشتے کو محدود کرنا پڑے گا۔
[email protected]
چین سے ہوشیار رہنا وقت کی ضرورت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS