ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
عہد حاضر میں انسانی حقوق کے تحفظ اور سماجی و معاشرتی امن و امان کے قیام کے لیے مذاکرات و مکالمات کی اہمیت و افادیت سے قطعی انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے آئے دن مذاکرات کی معنویت پر مضامین و مقالات لکھے جارہے ہیں۔کتابین تصنیف و تالیف کی جارہی ہیں۔ اسی طرح جامعات ودانشگاہوں اور سماجی و ملی اداروں کے بینرتلے جلسے ہورہے ہیں۔ ان تمام باتوں کی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے۔ یقیناً معاشرے میں ان تمام رویوں اور اسالیب و نظریات سے فائدہ ہوتا ہے۔ چنانچہ واضح رہے کہ مذاکرات و مکالمات یا ڈائیلاگ پر علمی و فکری کام موجودہ وقت ہی میں نہیں ہورہا ہے۔ بلکہ اس کی ضرورت ہر دور اور معاشرے نے محسوس کی ہے۔ اگر ہم ماضی کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سیکڑوں شواہد موجود ہیں جو ڈائلاگ کی اہمیت وافادیت پر ناطق ثبوت ہیں۔ اس حوالے سے ابن ندیم کی متداول کتاب الفہرست بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ کیونکہ اس نے اپنی کتاب میں مسلمانوں کی ان تمام کاوشوں کا تذکرہ کیا ہے جو انہوں نے تقابل ادیان، مذاکرات، یا مکالمات کے حوالے سے تحریری طور پر کیں تھیں۔ ان میں بہت سی ایسی تصانیف ہیں جو اب موجود نہیں ہیں اور بہت سی ایسی قابل مطالعہ کتابوں کا ذکر کیا ہے جو آج ہمارے مابین موجود ہیں۔ ایک اور بات یہاں گوش گزار کرنی ہے وہ یہ کہ عام طور پر یہ رجحان بنا ہوا ہے کہ مسلمان ایک ایسی قوم ہے جو اپنے خول میں رہتی ہے اور اپنے دین و دھرم کے سوا دوسرے ادیان و مذاہب کے ساتھ افہام و تفہیم کو روا نہیں سمجھتی ہے۔ در اصل یہ صرف الزام ہے۔ کیونکہ اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں نے اس شعبہ میں ہر دور میں نہایت گراں قدر اور قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں۔ مثلاً سرورکائنات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل امن و سلامتی کی بقاء، اور انسانی و سماجی رشتوں کی عظمت ، و معاشرتی ہم آہنگی کے لیے سماج کے مختلف الخیال افراد کے مابین ایک معاہدہ حلف الفضول کے نام سے کیا۔ اسی طرح نبوت کے بعد اور ہجرت کرنے کے معا بعد آپ ؐنے متعدد ادیان کے حاملین، متنوع افکار و نظریات کے علمبرداروں کے ساتھ ڈائلاگ کیے اور اس کا باضابطہ ایک دستور؍منشور یا تحریری دستاویز تیار کی جسے ہم میثاق مدینہ کے نام سے جانتے ہیں۔ بقول مجدد سیرت ڈاکٹر محمد حمیداللہ دستور مدینہ دنیا کا پہلا تحریری دستور ہے۔ یعنی محمد ؐنے اس وقت پوری دنیا کو انسانی و سماجی رشتوں کی عظمت و احترام کا درس ،مکتوب و قانون کی شکل میں دیا ،جب کہ دنیا ابھی تک کسی بھی قانون یا دستور سے آشنا نہ تھی۔ یہ سلسلہ یہیں تھما نہیں بلکہ جوں جوں وقت آگے بڑھتا گیا مسلمانوں نے اس موضوع کو کافی فروغ دیا۔ کتابیں لکھیں، ادارے قائم ہوئے۔ چنانچہ عہد عباسی میں بیت الحکمت کے نام سے جو ریسرچ وتحقیق کی اکیڈمی تھی اس میں ایک شعبہ مطالعہ ادیان کا تھا۔ جس میں ماہرین خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، اس میں کام کرتے تھے اور دیگر ادیان و مذاہب کی کتابوں، دیگر قوموں کی تہذیب و تمدن سے آشنائی حاصل کرنے کے لیے، ان کے دینی مصادر کو عربی میں منتقل کیا جاتا تھا۔ حتی کہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور یہاں کے مذاہب کو سمجھنے کے لیے بیت الحکمت میں ہندوستان کے ماہر پنڈتوں کا تقرر کیا گیا۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ دیگر ادیان کی کتابوں کا صرف ترجمہ ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کے افکار و خیالات کی ترویج واشاعت بھی ہوتی تھی۔ ڈائیلاگ و مذاکرات کی محفلیں بھی آراستہ ہوتی تھیں۔ تصور کیجئے یہ تمام چیزیں کب اور کس حکومت میں انجام دی جارہی ہیں؟ وسیع المشربی، کشادہ ظرفی اور توسع مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب دونوں کا حصہ رہا ہے۔ بد قسمتی سے آج اس پر گہن لگتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ تاریخ کا وہ درخشاں باب ہے جس پر آج ہمیں بجا طور پر فخر ہوسکتاہے۔ اسی طرح ہندوستان میں جب مسلمانوں نے حکومتیں قائم کیں تو ڈائلاگ اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا، کتابیں تصنیف ہوئیں، مذاکرات کے لیے ادارے وجود میں آئے، اکبرنے مذاکرات اور مذہبی ڈائلاگ کے لیے باقاعدہ ایک عبادت خانہ تعمیر کرایا ،جو سلیم چشتی کی مزار کے قریب تھا۔ اس عبادت خانے میں تمام ادیان و مذاہب کے لوگ جمع ہوتے تھے اور ڈائلاگ کیا کرتے تھے۔ راقم کے خیال میں اس عبادت خانے کا اور کوئی مقصد نہیں تھا۔ لیکن حیرت ہے کہ اکبر کی جانب باقاعدہ لوگوں نے ایک جدید دین کے ایجاد کی نسبت کردی، جسے دین الٰہی کہا جاتاہے۔ در اصل اس وقت یعنی اکبر کے دور میں دو بڑے عالم فاضل تھے ایک’آئین اکبری ‘ کے مصنف ابوالفضل فیضی اور دوسرے ’منتخب التواریخ‘ کے مصنف ملا عبد القادر بدایونی۔ ہم ان دونوں کی تحریروں کو پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں میں باہم سخت اختلاف ہے۔ دونوں کی آراء اکبر اور اس کے دین الٰہی کے حوالے سے متضاد ہیں۔ بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ ملا عبد القادر بدایونی نے اپنی کتاب ’منتخب التواریخ ‘ میں نہایت غلو اور مبالغہ سے کام لیا ہے اور اس کی صلح کل کی پالیسی کو نہایت خطرناک ثابت کرنے کی سعی کی ہے۔ وہیں دوسری جانب ابو الفضل فیضی کی تخلیقات میں بڑی رواداری اور نرمی ملتی ہے۔ بہر حال آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں نہایت متوازن اور سنجید گی کے ساتھ اور بلا کسی جھکاؤ کے عہد اکبری کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہوا اس کے برعکس، جو بدایونی نے لکھ دیا ہم نے اس پر من وعن اعتماد کرلیا اور اکبر کی جانب ایک نئے دین کے ایجاد کو منسوب کردیا؟ محققین اوراسکالرس کے لیے یہ ایک اہم موضوع ہے لہذا اس پر ازسر نو نہایت سنجیدگی اور متانت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ملا عبد القادر بدایونی یا ابوالفضل فیضی نے جو کچھ لکھا ہے وہ درست ہے یا پھر دونوں کی تحریریں حشو و زوائد، عقیدت و پرخاش کا شکار ہیں۔ ہندوستان میں مذاکرات و مکالمات کی قدروں اور اس کی اخلاقیات کو مزید فروغ ملا چنانچہ اس حوالے سے مغلیہ عہد حکومت میں ایک نہایت جامع کتاب ‘دبستان مذاہب’ کے نام سے تصنیف ہوئی۔ البتہ یہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ اس کا مصنف محسن خاں فانی یا کی خسرو ہے۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ یہ کتاب مطالعہ ادیان اور مکالمات پرسنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس روایت کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے شہزادہ دارا شکوہ نے ہندوؤں کے دینی مصادر اپنشدوں کا ترجمہ فارسی میں ’سر اکبر‘ کے نام سے کیا اسی طرح اس نے ایک کتاب مجمع البحرین کے نام سے بھی تصنیف کی۔ ہندو جوگیوں اور مسلم صوفیوں میں قرابت پیدا کرنے کے لیے اس نے تصوف پر کئی گراں قدر کتابیں اور رسالے تصنیف فرمایے۔ جیسے سکینۃ الاولیاء ، خزینۃ الاولیا ء، رسالہ حق نما وغیرہ وغیرہ۔
گویا افہام و تفہیم اور قرابت یا مذاکرات و مکالمات ایک ایسا روشن باب ہے ،جس پر مسلمان فاضلوں، حکمرانوں اور محققین نے اپنے دور کے تقاضوں اور ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے نہایت وقیع اور قیمتی سرمایہ تصنیف کیا ہے۔ اس سرمایہ نے معاشرے میں بقائے باہم اور رواداری کے جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ،وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہیں۔ ان تمام حقائق و شواہد اور عملی و علمی ثبوتوں کے باوجود اگر کوئی اغماض و چشم پوشی کا مظاہرہ کرتا ہے تو پھر وہ تعصب و تنگ نظری کا بری طرح شکار ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور مسلمان فاضل اب بھی پورے انہماک اور شوق کے ساتھ اس میدان میں کام کررہے ہیں۔
عصر حاضر میں مسلمانوں کی جو صورت حال ہے وہ نہایت افسوسناک ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ فکری اور نظریاتی طور پر جو توسع ہمارے اندر پایا جاتا تھا وہ اب بہت حد تک مفقود ہوچکا ہے۔ یعنی آج ہم انہی روایتوں، باتوں اور چیزوں کو قابل توجہ گردانتے ہیں جو سلف سے چلی آرہی ہیں ،گرچہ وہ باتیں یا چیزیں حقائق و معارف اور تجربات و مشاہدات سے بالکل عاری کیوں نہ ہوں۔ اگر وسعت فکر کے ساتھ کام کیا جایے اور چیزوں کو سمجھنے کی سعی کی جائے تو یقیناً آج بہت سارے مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ اس لیے بنیادی اور لازمی طور پر جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم تکثیری سماج کے تقاضوں اور اس کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھیں، نیز ہمارے باحثین و محققین کو چاہئے کہ وہ ایسا لٹریچر تیار کریں جو فکری اور نظریاتی طور پر ایک ایسا معاشرہ تشکیل کرے جس سے باہمی اشتراک و اجتماعیت اور محبت و الفت کا رشتہ مستحکم ہوسکے۔ متذکرہ سطور میں جو باتیں پیش کی گئی ہیں، یا جن حقائق کا انکشاف کیا گیا ہے ان کی اہمیت اس معنی کر بھی بڑھ جاتی ہے کہ آج ہم ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جس میں مخاصمت اور نفرت و عداوت یا عناد وفساد کی لہر چل رہی ہے۔ اس کا خاتمہ اسی وقت ہوسکتاہے ہے جب کہ ہم مکالمات اور میل ملاپ سے چیزوں کو حل کریں۔ یہ بات درست ہے کہ ماضی میں جس طرح ہمارے اکابر اور بزرگوں نے مکالمات و مذاکرات پر کام کیا اور اس کو آگے بڑھایا اب اس میں بہت حد تک گراوٹ آئی ہے۔ اسی وجہ سے قوموں اور معاشروں کے مابین نفرتیں اور دوریاں پیدا ہورہی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ دوریاں اور نفرتیں ختم ہوں تو پھر اجتماعیت اور امن کے ساتھ رہنا ہوگا۔
[email protected]
عہد حاضر میں مکالمات کی ضرورت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS