آزادی کے 75 سال اور ہندوستانی مسلمان

0

محمد سعیدقاسمی
آج جب کہ وطن عزیز کی آزادی کو 75 سال پورے ہونے پر ہر طرف خوشیوں کا اک سماں ہے۔ ہر ہندوسانی باشندہ اک نئی امنگ اور ولوے کے ساتھ آزادی کے امرت مہوتسو منانے کو تیار ہے۔حکومت ’ہر گھر ترنگا مہم‘ کے ذریعہ ہر فرد میں قومی حمیت، راشٹرپریم اور حب الوطنی کا عظیم جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہر طرف ترنگا پوری ا ب و تاب سے لہرا رہا ہے اور حب الوطنی سے سرشار ہر ہندوستانی زبان حال سے کہ رہا ہے:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمار!!
وہیں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ملک کی آبادی کا دوسرا سب سے بڑا طبقہ ایسے وقت میں اپنے آپ کو کہاں پاتا ہے؟ آیا ہندوستانی مسلمان اس آزاد ملک میں اپنی متوقع حیثیت، مقام و مرتبہ حاصل کر سکا یا نہیں؟ اگر کر سکا تو کہاں تک؟ اور اگر نہیں تو وہ کون سے اسباب و عوامل ہیں جو اس کی راہ میں رکاوٹ بنے؟ ان اسباب پر بڑی سنجیدگی سے غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں کہ جہاں ایک طرف اس ملک کی دیگر قومیں آزادی، ترقی اور خوشحالی کا جشن منا رہی ہوں گی وہیں ہندوستانی مسلمان اپنی زبوحالی، پستی وخستہ حالی اور پسماندگی پر ماتم کناں ہوں گے۔
اللہ تعالی نے ہم مسلمانوں کو آزادی کے بعد ایک طویل موقع فراہم کیا کہ ہم بحیثیت قوم اس ملک کی تہذیبی وتمدنی، تعلیمی وسیاسی اور معاشی ومعاشرتی ترقی میں ایک اہم اور نمایاں کردار اداکریں ، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان میدانوں میں اہم کر دار اداکرنا اور اس ملک کی تعمیر میں حصہ دار بننا تو دور ہم بحیثیت قوم اپنی شاندار تہذیبی، معاشرتی، تعلیمی و تاریخی وراثت کو بھی نہ بچاسکے۔ جبکہ یہاں بسنے والی بعض قومیں جوکہ تعداد اور افرادی قوت میں ہم سے کہیں کم ہیں، اس ملک کی صنعتی، معاشی اور سیاسی افق پر چھائی ہوئی ہیں پارسی اور سکھ جیسی قومیں اس کی جیتی جاگتی نظیر ہیں۔
جب ہم آزادی کے بعد مسلمانوں کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان اس ملک کو آزادی دلانے کے بعد خواب خرگوش میں چلے گئے۔ فعالیت، بہادری، انقلابی کردار قوموں کی قیادت وسیادت، انسانی اخوت و ہمدردی (جو کبھی اس کی شناخت [Hallmark] ہوا کرتی تھی) کو ترک کرکے تعطل و جمود کا شکار ہوگیا۔اپنے تابناک ماضی کی روشنی میں مستقبل کو سنوارنے کے بجائے دوسروں کے رحم وکرم پر جینے کا عادی بن گیا اور اپنی حالت زار کی اصلاح کے بجائے اپنی پستی و پسماندگی کا ٹھیکرا دوسروں پر پھوڑتے ہوئے مطمئن ہوگیا کہ اب ہم نے اپنا قومی فریضہ ادا کردیا، حالانکہ اس سے نا تو اس کی حالت میں ذرہ برابر تبدیلی ا ئی اور نہ ہی قوم کے۔
آج سچر کمیٹی کی رپورٹ ہمیں ا ئینہ دکھاتی ہے کہ کوئی بھی باعزت شعبہ ایسا نہیں جہاں ہماری قابل ذکر نمائندگی ہو دیگر اقوام سے ا گے ہونا تو دور کی بات تعلیم، صحت، کاروبار، زراعت، سرکاری ملازمت ہر جگہ ہم دلتوں سے بھی زیادہ پچھڑے ہیں۔آخر اس کا ذمہ دار کوں ہے؟
’حکومتوں کی بے اعتنائی وستم ظریفی، ا ر ایس ایس کی سازش اور یہودیوں کی ریشی دوانی‘ پر سارا الزام ڈال کب تک ہم اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتے رہیں گے؟ کیوں نہیں ہم بر ملا کھل کر یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری اس حالت کا ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہمارے سوا اور کوئی نہیں!!! یہ ہمیں ہیں جس نے اپنی مٹی پلید کی ہے۔ آج ہمارا نوجوان منشیات کا عادی ہے۔ ہماری بستیاں جوا، شراب اور ہر قسم کی جرائم کے اڈے ہیں، تعلیم سے ہمیں برسوں کا بیر ہے، ہر طرح کی خرافات وواہیات میں ہم ملوث ہیں اور ہم خواب دیکھتے ہیں قوموں کی گلہ بانی کا!
عملاً کچھ کرنے کے بجائے آخر ہم کس مسیحا کے انتظار میں ہیں جو ہمیں اس پستی سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا اور عظمت رفتہ کو بحال کر دے گا؟ قومیں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہنے اور ماضی کی شاندار روایتوں کے گن گاکر ترقی نہیں کرتیں،بلکہ اس کے لیے جانفشانی وجواں مردی، اعلی کردار اور جہد مسلسل کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے ہمیں بھی اگر ترقی کرنا ہے اور اپنی نسلوں کے مستقبل کو تابناک بنانا ہے ان کے لئے ہندوستان کو ایک بہترین اور باوقار مسکن بنانا ہے تو ہمیں کچھ کرنا ہی ہوگا۔اب ہم کرو یا مرو کی حالت میں ہیں۔ یہ ایک فیصلہ کن گھڑی ہے۔اگر اب بھی ہم نے اپنی قوم کے بہتر مستقبل کے لئے کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا تو ہندوستان میں بپا موجودہ تہذیبی یلغار (جسے حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے) ہمیں نیست و نابود کردے گی اور ہمارا نام و نشان تک بھی باقی نہیں رہے گا۔ اس لیے اب ہمیں پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ میدان عمل میں آ نا پڑے گا۔ تمام شعبہائے میں پوری محنت و جفاکشی کے ساتھ منصوبہ بند طریقہ سے کام کرنا ہوگا۔ ہم میں سے ہر فرد کو اپنی توانائی اور صلاحیتوں کو قوم کی فلاح و بہبود میں صرف کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنا یہ مشن بنانا ہوگا کہ قوم کا کوئی فرد تعلیم سے محروم نہ ہو۔ اعلی تعلیم میں ہماری نمائندگی زیادہ سے زیادہ ہو۔ تجارت ومعیشت کے میدان میں ہماری قوم آگے بڑھے۔ تہذیبی وتمدنی اعتبار سے ہمارا معاشرہ ترقی کرے اور پھر سے ہم ملک کی ضرورت بن جائیں اور اس کی تعمیر و ترقی میں ہمارا زیادہ سے زیادہ تعاون شامل ہو. اگر ہم نے ایسا کیا تو تمام تر سازشوں اور دسیسہ کاریوں کے باوجود نہ صرف ہمارا وجود باقی رہے گا؛ بلکہ ہم اس کے اٹوٹ حصہ ہوں گے، یہی نظام خداوندی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS