اسلاموفوبیا کے خاتمہ کیلئے ٹھوس اقدام کی ضرورت

0
theconversation

اسلام آباد (ایجنسیاں) : اسلام آباد میں افغانستان کی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا دو روزہ غیر معمولی اجلاس ہوا، جس میں پاکستان کی دعوت پر20 ممالک کے وزرائے خارجہ سمیت 10 ممالک کے نائب وزیر خارجہ اور 70 وفود شامل ہوئے۔ او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، جس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افتتاحی سیشن سے خطاب کیا۔پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا او آئی سی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا تمام معزز مہمانوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہتا ہوں، خوشی کی بات ہے کہ اجلاس میں شامل تمام ممالک افغانستان کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کسی بھی ملک کو افغانستان جیسی صورت حال کا سامنا نہیں رہا، افغانستان میں سالہا سال کرپٹ حکومتیں رہیں، افغانستان کی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے اور بینکنگ نظام جمود کا شکار ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ افغان جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد قربانیاں دیں، 30 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کیا اور اب بھی لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں بس رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان کا 75 فیصد بجٹ غیر ملکی امداد پرمشتمل رہا، لیکن اب افغانستان کو بیرونی امداد بند ہو چکی ہے، اقوام متحدہ کے انڈر سکریٹری مائیکل گرفٹ نے جو اعداد و شمار دیے وہ حیران کن ہیں، یہ مسئلہ افغان عوام کا ہے، ہم پہلے ہی تاخیر کا شکارہیں۔عمران خان کا کہنا تھا طالبان وزیر خارجہ سے ایک ملاقات ہوئی، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ شرائط پر عمل درآمد کیلئے تیار ہیں، دنیا نے اقدامات نہ کیے تو یہ انسانوں کا پیدا کردہ سب سے بڑا انسانی بحران ہو گا۔ ان کا کہنا تھا ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان میں عدم استحکام سے غیرسماجی عناصرمضبوط ہوں گے، افغانستان میں عدم استحکام سے مہاجرین کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ عمران خان کا کہنا تھا افغانستان کی مدد کرنا ہماری مذہبی ذمہ داری بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دینا میں اسلامو فوبیا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے، اسلامو فوبیا کے خاتمے کیلئے او آئی سی کردار ادا کرے، ہمارے معاشرے میں بھی کچھ عناصر نفرت پھیلانے کیلئے مذہب کا استعمال کرتے ہیں، کوئی بھی مذہب دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا، لیکن بدقسمتی سے اسلام کے بارے میں بہت پروپیگنڈہ کیا گیا، نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا کی لہر میں شدت آئی۔ان کا کہنا تھا دہشت گردی اور اسلام کو جوڑا گیا اور ریڈیکل اسلام کی ٹرم بنائی گئی، اس سب کے نتیجے میں اسلامو فوبیا پیدا ہوا۔ انہوں نے کہاکہ اسلام مخالف پروپیگنڈے کے تدارک کیلئے ہمیں ایک مؤثر آواز بننا ہے۔
سکریٹری جنرل او آئی سی ابراہیم حسین طلحہ کا اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ افغانستان میں امن خطے میں امن کے لیے ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے عوام کو مدد کی اشد ضرورت ہے، او آئی سی نے ہمیشہ افغانستان کے مسئلے پر مضبوط موقف اپنایا، افغانستان میں تیزی سے بدلتی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے، یہ اجلاس افغانستان کی مدد کیلئے کامیاب ہوگا۔سکریٹری جنرل او آئی سی ابراہیم حسین طلحہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کیلئے علاقائی اور عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے او آئی سی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ خواتین اور بچے سمیت افغان عوام مشکلات کا شکار ہیں، افغانستان میں معاشی بحران مزید خراب ہو سکتا ہے، افغانستان میں کشیدہ صورت حال کے خطے اور دنیا پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، افغانستان کے عوام ہماری مدد کے منتظر ہیں اور ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں، افغانستان کے معاملے کو انسانی بنیادوں پر دیکھنا ہو گا۔ سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کو غذائی امداد اور مالیاتی اداروں کے استحکام کی ضرورت ہے، عالمی ادارے افغان عوام کی مدد کیلئے آگے بڑھیں۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کے بحران پر مثبت اقدامات کو سراہتے ہیں، لیکن افغانستان میں انسانی بحران مسلم ممالک کیلئے چیلنج ہے۔ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام کو خوراک کی کمی سمیت بہت سے مسائل کا سامنا ہے، افغانستان کی صورتحال کے اثرات دیگر ممالک پر بھی مرتب ہوں گے، او آئی سی کو دیگر عالمی اداروں سے مل کر افغان بحران پر قابو پانا چاہیے۔ سکریٹری جنرل اقوام متحدہ کے نمائندے مائیکل گریفن کا افغانستان کی صورت حال پر اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ میرا خطاب سکریٹری جنرل کا خطاب ہے، جو میں پڑھ کر سنا رہا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کا بحران بہت بڑا ہے، 80 فیصد افغان عوام روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے سے قاصرہیں، افغانستان میں بیروزگاری 29 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ مائیکل گریفن نے مزید کہا کہ افغانستان میں لاکھوں بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں، 70 فیصد اساتذہ تنخواہوں سے محروم ہیں، افغانستان کی معیشت بحران اور کرنسی گراوٹ کا شکار ہے۔یواین نمائندے کا کہنا تھا کہ بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پوری دنیا متاثر ہو گی، افغانستان ٹرسٹ فنڈ کو خوش آمدید کہتا ہوں، افغانستان کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا افغان عوام موسم سرما صرف مدد کے ساتھ نہیں گزار سکیں گے، ہمیں افغانستان کو صحت اور لائیولی ہڈ کے لیے مدد بھی دینی ہوگی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS