نئی دہلی: وزیراعظم نریندر مودی نے جمعرات کو اپنی حکومت کی پالیسیوں کو اانتودیہ اور کامل انسانیت کے مبنتروں پر مبنی بتایا اور کہا کہ انہی اصولوں کو لے کر ملک مضبوطی اور خود انحصاری کے راستے پر آگے بڑھ رہا ہے ۔ مسٹر مودی نے آج یہاں پنڈت دین دیال اپادھیائے کی 53ویں برسی کے موقع پر منعقد ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ اس موقع پر بی جے پی کے قومی صدر جگت پرکاش نڈا،پارٹی کے سینئر عہدے دار اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔ مسٹر مودی نے کہا کہ ہم جیسے جیسے دین دیال جی کے بارے میں سوچتے ہیں،بولتے ہیں سنتے ہیں ،ان کے خیالات میں ہمیں ہر بار ایک نئے پن کا تجربہ ہوتا ہے ۔ کامل انسانیت کا ان کا فلسفہ صرف انسانیت کے لئے تھا۔ اس لئے جہاں بھی انسانیت کی خدمت اور بہبود کی بات ہوگی تو دین دیال جی کا کامل انسانیت کا فلسفہ متعلق رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ سماجی زندگی میں ایک رہنما کو کیسا ہونا چاہئے ،ہندوستان کے جمہوریت اور اصولوں کو کیسے جینا چاہئے ،دین دیال جی اس کی بھی بہت بڑی مثالیں ہیں، ایک طرف وہ ہندوستانی سیاست میں ایک نئے نظریہ کو لے کر آگے بڑھ رہے تھے ،وہیں دوسری طرف وہ ہر ایک پارٹی ،ہر ایک نظریہ کے رہنماؤں کے ساتھ بھی اتنے ہی بے ساختہ رہتے تھے ۔ ہرکسی سے ان کے قریبی تعلقات تھے ۔ وزیراعظم نے کہا ، ’ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے ۔ ’سودیشو بھوونم تریم‘ یعنی ہمارا ملک ہی ہمارے لئے سب کچھ ہے ،تینوں لوکوں کے برابر ہے ۔جب ہمارا ملک قابل ہوگا،تبھی تو ہم دنیا کی خدمت کر پائیں گے ۔ کامل انسانیت کے فلسفے کو پورا کر پائیں گے ۔ دین دیال اپادھیائے جی نے بھی یہی لکھا تھا۔‘ایک مضبوط ملک ہی دنیا کو تعاون دے سکتا ہے ۔’ صحیح عزم آج خود انحصار ہندوستان کا بنیادی نظریہ ہے ۔ اسی اصول کو لے کر ملک خود انحصٓر کے راستے پر آگے بڑھ رہا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کے دور میں ملک نے انتیودیہ کے جذبے کو سامنے رکھا اور آخری صف میں کھڑے ہر غریب کی فکر کی۔ خود انحصاری کی طاقت سے ملک نے کام انسانیت کے فلسفے کو بھی ثابت کیا،پوری دنیا کو دوائیں پہنچائیں اور آج ویکسین پہنچا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 1965 کی ہندوستان پاکستان کی جنگ کے دوران ،ہندوستان ہتھیاروں کے معاملے میں غیر ملکوں پر انحصار کیا کرتا تھا۔ دین دیال جی نے اس وقت کہا تھا کہ ہمیں ایسا ہندوستان بنانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف زراعت کے شعبہ میں بلکہ دفاع اور ہتھیاروں کے معاملے میں بھی خود انحصار ہو ۔ آج ہندوستان دیکھ رہا ہے کہ دفاعی گلیارے بنائے جارہے ہیں،دیسی ہتھیاروں اور تیجس جیسے جنگی طیارے بنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قدرت کے ساتھ تال میل بنانے کا فلسفہ دین دیال جی نے ہمیں دیا تھا۔ ہندوستان آج انٹرنیشنل سولر الائنس کی قیادت کرکے دنیا کو وہی راہ دکھا رہا ہے ۔ مسٹر مودی نے کہا کہ مقامی معیشت پر اس دور میں بھی ان کی سوچ بے حد عملی اور جامع تھی۔ آج ’ووکل فار لوکل‘کے منتر سے ملک اسی نظریے کو پورا کررہا ہے۔ آج آتم نربھر بھارت مشن ملک کے گاؤں – غریب ،کسان،مزدور اور درمیانے طبقے کے مستقبل کی تعمیر کا ذریعہ بن رہا ہے ۔ بنیادی ڈھانچے کے شعبہ میں بھی بڑی تبدیلی ہو رہی ہیں اور زندگی آسان ہورہی ہے۔ہندوستان کا عالمی قد تیزی بڑھ رہا ہے اور ہر ہندستانی کو ملک پر فخر ہے۔ انہوں نے کہا ، ’آخری پائیدان پر بھی کھڑے شخص کی زندگی کی سطح کیسے سدھرے ،ایز آف لیونگ کیسے بڑھے اس کی کوشش آج پوری ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اجولا یوجنا ،جن دھن کھاتے ،کسان سمان نیدھی،ہر بھر میں بیت الخلا ،ہر غریب کو مکان،آج ملک ایک ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے فخر کے ساتھ ترقی کے راستے پر چل پڑا ہے‘ ۔
انہوں نے کہا کہ آج جب ملک میں اتنی مثبت تبدیلی ہورہی ہے ،پوری دنیا میں ہندوستان کا قد بڑھ رہا ہے ،تو کون ہندوستانی ہوگا جس کا سینہ چوڑا نہیں ہوتا ہوگا۔آج دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہندوستانی کمیونٹی جس فخر کے ساتھ جی رہی ہے اس کی وجہ ہندوستان میں ہورہی سرگرمیاں ہیں۔
مسٹر مودی نے کہا،‘‘ہمیں فخر ہوتا ہے کہ ہم اپنی عظیم شخصیات کے خوابوں کو پورا کررہے ہیں ۔ہمیں فخر ہے کہ ہمارا نظریہ حب الوطنی کو ہی اپنا سب کچھ ماننے کا ہے ۔ ہماری سوچ سب سے ملک کی بات کرتی بہے ۔ یہ ہماری سوچ ہے کہ ہمیں سیاست کا سبق ،قومی پالیسی کی زبان میں پڑھایا جاتا ہے ۔ہماری سیاست میں بھی قومی پالیسی سب سے اولین ہے ۔ اگر ہمیں سیاست اور قومی پالیسی میں ایک کو قبول کرنا ہوگا،تو ہمیں یہ تہذیب ملی ہے کی ہم قومی پالیسی کو قبول کریں گے ،سیاست کو نمبر دو پر رکھیں گے ۔’’ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسے فیصلے کئے ہیں جنہیں ملک میں پہلے بہت مشکل مانا جاتا تھا اور ہم نے یہ فیصلے ہر کسی کے ساتھ کئے ۔ ملک قبائلی امور کی نئی وزارت کی تشکیل بی جے پی کی ہی حکومت میں ہوئی ہے ۔یہ بی جے پی حکومت کی ہی دین ہے کہ پسماندہ کمیشن کو ملک میں آئینی درجہ مل سکا ہے اور یہ بی جے پی کی حکومت ہے جس نے عام طبقے کے غریبوں کو بھی ریزرویشن دینے کا کام کیا ہے ۔ ریاستی کی تقسیم جیسا کام سیاست میں کتنے رسک کا کام سمجھا جاتا تھا۔اس کی مثال بھی ہیں اگر کوئی نئی ریاست بنی تو ملک میں کیسے حالات بن جاتے تھے ۔ لیکن جب بی جے پی کی حکومتوں نے تین نئی ریاستین بنائیں تو ہر کوئی ہمارے طور طریقوں میں دین دیال جی کی سیکھ کا اثر واضح طورپر دیکھ سکتا ہے ۔اترپردیش سے اتراکھنڈ کی تعمیر ہوئی، جھارکھنڈ بہار سے بنایا گیا، اور چھتیس گڑھ کو مدھیہ پردیش سے الگ کیا گیا،لیکن اس وقت ہر ریاست میں تہوار کا ماحول تھا۔
سیاسی تہذیب کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی میں ہمارے کارکنان کنبہ سے بالا تر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک ہم سے جڑا ہوا ہے اور ہر کارکن ہندوستان کو اپنا کنبہ مانتا ہے ۔ اگر ملک کے کسی بھی حصے میں کوئی مشکل صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہمارے کارکن جاکر عوام کی خدمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری سیاسی جماعتیں ہوسکتی ہیں ، ہمارے نظریات مختلف ہوسکتے ہیں ، ہم انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ لڑتے ہیں ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے سیاسی مخالفین کا احترام نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پرنب مکھرجی ، ترون گوگوئی ، ایس سی ضمیر ان سیاستدانوں میں سے کوئی بھی ہماری پارٹی یا اتحاد کا حصہ نہیں رہا ہے ۔ لیکن ہمارا فرض ہے کہ قوم کے لئے ان کی شراکت کا احترام کریں۔ مسٹر مودی نے کہا ،‘‘سیاسی اچھوت کا خیال ہماری تہذیب نہیں ہے ۔ آج ملک نے بھی اس خیال کو مسترد کردیا ہے ۔ ہماری پارٹی میں ، خاندان کو نہیں کارکن کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ ہماری پارٹی ، ہماری حکومت آج مہاتما گاندھی کے ان اصولوں پر چل رہی ہے جو ہمیں محبت اور شفقت کا سبق سکھاتے ہیں۔ ہم نے باپو کی 150 ویں یوم پیدائش بھی منائی ہے اور اپنی سیاست ، اپنی زندگیوں میں ان کے نظریات کو تقویت بخشی ہے ۔ یہ ہماری حکومت ہے جس نے نیتا جی کو وہ عزت دی جس کے وہ حقدار تھے ، ان سے وابستہ فائلوں کو کھول دیا۔ ہم سردار پٹیل کو دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ بنا کر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ جب بی جے پی کی حمایت سے حکومت تشکیل دی گئی تھی تو بابا صاحب امبیڈکر کو بھی بھارت رتن ملا تھا۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS