ناندیڑ ہسپتال کا سانحہ اور نظام صحت

0
ناندیڑ ہسپتال کا سانحہ اور نظام صحت

مہاراشٹر کا شمار ملک کے صنعتی صوبے میں ہوتا ہے۔ یہ ریاست دیگر ریاستوں کے مقابلے میں ترقی یافتہ ہیں ، مگر پچھلے دنوں ناندیڑ کے ایک اسپتال میں 31مریضوں کی المناک موت نے ریاست میں نظام صحت کے کھوکھلے پن کو اجاگر کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاست کی قیادت کی طرف سے کوئی ایسا قابل ذکر بیان یا قدم نہیں اٹھا یا گیا جس سے ایسا لگتا ہوکہ اس المیہ کو لے کر ریاستی سرکار یا انتظامیہ فکر مند ہیں۔
کئی حلقوں میں لیپا پوتی کی کوشش ہوئی ہے اور اس کے واقعہ میں مرنے والے افراد کو کسی اجتماعی خرابی کا نتیجہ قرار دینے کے بجائے ے بتایا جا رہا ہے کہ یہ مریض انہیں امراض میں مرے ہیں جن کی علاج کے لیے وہ داخل ہوئے تھے۔ اس ٹریجڈی کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مرنے والوں میں اچھا خاصا تعداد نومولود بچو ں کی ہے۔ اس سانحہ سے ریاست ہی نہیں بلکہ ہمارے ملک میں صحت اور حفظان صحت کو لے کر ارباب اقتدار میں عدم دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ جبکہ توقع کی یہ جا رہی تھی کہ کووڈ-19کے سانحہ کے بعد ملک بھر میں ارباب اقتدار میں نظام صحت کو لے کر جو توجہ اور کوششیں کی تھیں اس کے اثرات دیر تک اور دور تک دکھائی دیں گے ، مگر ناندیڑ کے ڈاکٹر شنکر رائو چوہان گورنمنٹ اسپتال میں اتنی بڑی تعداد میں اچانک جانوں کے اطلاف نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہمارے نظام صحت میں وہ تمام خامیاں برقرار ہیں جو کووڈ-19سے پہلے تھیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ اسپتال کے عملے نے اپنی ذمہ داری کو سمجھنے اور خامیوں کو دور کرنے کے بجائے اس واقعہ کے خلاف ناراضگی کا اظہار کرنے والوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ ناندیڑ اسپتال کے کارگزار ڈین ایس آر واکو ڈے نے شیو سینا ممبر پارلیمنٹ ہیمنت پاٹل کی طرف سے آنے والے بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا اور ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ درج کرانے کی بات سامنے آئی۔ اتنی بڑی تعداد میں اموات کی خبر سامنے آنے کے بعد ہیمنت پاٹل اسپتال پہنچے تھے اور انہوںنے حالات کا جائزہ لیا تھا ۔ بعد ازاں سوشل میڈیا پر بھی کچھ ایسے دلخراش ویڈیو اور تصاویر سامنے آئی تھیں جن میں صاف طور پر دیکھا گیا تھا کہ کتے اور دیگر آوارہ مویشی اسپتال کے احاطے میں ٹہل رہے تھے، جبکہ ایک مریض کی تیمار دار خاتون برتن اور کپڑے دھوے رہی تھیں۔
یہ ویڈیو ان معنوں میں افسوسناک تھا کہ اسپتال کے عملے نے 31اموات کے بعد بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ہے اور اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنے کے بجائے خبروں کو دبانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب مہاراشٹر میں اس قسم کے سانحات اور معاملات سامنے آنے کے بعد احتجاج کرنے والے افراد ،اداروں اور جماعتو ں کی منھ بند کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ مہاراشٹر کی راجدھانی ممبئی میں چند سال قبل سڑک پر ہونے والے گڈھوں پر ایک پرائیوٹ ریڈیو چینل پر کام کرنے والے عملے نے ایک گانا وضع کیا تھا جس میں ممبئی میں سڑکوں کی بدحالی ، بارش کے دوران پانی بھرجانے سے پیدا ہونے والی مسائل کی طرف توجہ دلائی گئی تھی جو دلچسپ پیرائے کی وجہ سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر خوب مقبول ہوئی تھی ، مگر ممبئی میونسپل کارپوریشن نے اس پوری ویڈیو کو روکنے کے لیے اسی قانونی چارہ جوئی کے ہتھکنڈے کو اختیار کرکے زبان بندی کی کوشش کی تھی۔
ہندوستان ایک بڑی طاقت ہے ۔ سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کسی بھی سماج کی اصلاح کا سبب بن سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وسائل اور اختیارات سے مالا مال ادارے اور افراد اپنے بنیادی کام توجہ دیں اوران کے کام میں کوئی خرابی اور خامیوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے تو وہ قاصد یا پیغام رساں کو خاموش کرنے کے بجائے خامیوں کو ختم کرنے اور کمزوریوں کو دور کرنے پر توجہ دیں ۔ایک دو دن کے اندر کسی بھی اسپتال کے اندر اتنی اموات کا ہونا کسی بھی ذی حس او ر ذی شعور معاشرے کو بے چین کرنے کے لیے کافی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں ، ارباب اقتدار ، وسائل اور اختیارات کا استعمال عوام کے فلاح وبہبود کے لیے کریں اور اگر کوئی خامی یا کمی رہ جاتی ہے تو اس کا ازالہ کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ منھ بند کرنا ، خبروں کو روکنا، تنقید اور تجزیہ پر پابندی عائد کرنا صحت مند معاشرے اور سرگرم جمہوریت کے لیے فعال نیک نہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS