امیر ملک کے ننگے بھوکے اور غریب لوگ

0

محمد حنیف خان

عزت و وقار ہر شہری کا بنیادی حق ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ حکومت نہ صرف اس حق کو تسلیم کرتی ہے بلکہ وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے عوام کو ایسے وسائل بھی مہیا کرانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوجاتا ہے جب ریاست اپنی ناکامی کو بھی کامیابی بنا کر پیش کرتی ہے۔حالات اس وقت یہ ہیں کہ امیر ملک میں ننگے بھوکے اور غریب لوگ رہتے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے،حکومت پوری شدت کے ساتھ یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی ایسا ممکن ہو سکا ہے۔لیکن اس کا دعویٰ زمینی ہونے کے بجائے محض کاغذی ہے۔کاغذی دعویٰ اور زمینی حقیقت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔دنیا کی پانچویں معیشت جیسے امیر ملک میں آج بھی علاج و معالجہ ہر شخص کی دسترس میں نہیں ہے۔ زندگی میں جو عزت ملی اور وقار انسان کا نصیب بنا، اس کی تو بات ہی نہیں ایسے مواقع بھی آئے ہیں کہ مرنے کے بعد لاش کو گھر تک پہنچانے کے لیے سرکاری ایمبولنس نہیں ملی اور لواحقین اتنے غریب و نادار تھے کہ وہ اپنے خرچ سے اسے گھر نہیں لے جاسکے، اس لیے مجبوراً کندھوں پر اٹھا کر لے گئے۔امیری کی یہ حالت دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔پھر جب حکومت بتاتی ہے کہ ہم ’وشو گرو‘ بننے کی راہ پر چل رہے ہیں تو رونا آتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان ایک امیر ملک ہے،لیکن اس کی اس امیری کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ رہا ہے بلکہ اس کی دولت کا ارتکاز ہوچکا ہے۔کروڑوں ننگے بھوکے ایک جانب اور مٹھی بھر صنعت کار و سرمایہ کار ایک جانب، ہندوستان کی پوری دولت ان چند مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچا دی گئی ہے۔رپورٹ تو تیار ہوجاتی ہے،امارت کا تمغہ بھی مل جاتا ہے اور دنیا یہ بھی دیکھ لیتی ہے کہ ہندوستان تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے لیکن ان سب کے پیچھے کتنے ننگے بھوکے لوگ ہیں، اس سے اس کو بے خبر رکھا جاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں معاشی عدم مساوات دنیا کے کسی بھی ملک سے کہیں زیادہ ہے۔’’عالمی عدم مساوات رپورٹ 2022‘‘کے مطابق ملک کی 10فیصد آبادی کے پاس 57فیصد دولت ہے۔جس میں سے 22فیصد دولت محض ایک فیصد لوگوں کے پاس ہے جبکہ یہی تناسب 1990میں 11فیصد تھا۔50فیصد آبادی کے پاس ملک کی دولت کا 13فیصد ہے۔ دولت کی تقسیم میں ہندوستان کا فیصد حد درجہ عدم مساوات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 14.8لوگ کم غذائیت کا شکار ہیں۔جو عالمی اور ایشیائی دونوں سطح پر اوسط سے زیادہ ہے۔2017کے قومی صحت سروے کے مطابق تقریباً 19کروڑ افراد روزانہ رات میں خالی پیٹ سونے پر مجبور تھے۔اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ بات یہ رہی کہ یومیہ 4500بچے پانچ برس سے کم عمر میں بھوک اور کم غذائیت کا شکار ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ عالمی ہمہ جہت غریبی رپورٹ(ایم پی آئی) 2022 کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 22کروڑ افراد ہمہ جہت غربت کا شکار ہیں۔ ہمہ جہت غربت کی اصطلاح میں غریبی کے ساتھ صحت،تعلیم اور سطح زندگی شامل ہے۔ان تینوں کو مرکز میں رکھ کر یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ان غریبوں میں سے 90فیصد دیہی علاقوں میں اور 10فیصد شہری علاقوں میں رہتے ہیں۔حکومت بھی جانتی ہے کہ ہندوستان دیہات میں بستا ہے، اس کے باوجود دیہی عوام کو اس کے وسائل کا کتنا فیصد ملتا ہے یا ان کی سطح زندگی بلند کرنے کے لیے حکومت کتنا خرچ کرتی ہے،ان کو کس طرح کی سہولیات مہیا کراتی ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ایم پی آئی 2022 کے مطابق کم غذائیت، مکان کی عدم فراہمی، ایندھن کی قلت اور صفائی سے دوری ملک میں غریبی کا اصل سبب ہیں۔60فیصد ایسے غریب ہیں جن کو بھر پیٹ کھانا نہیں ملتا۔دو تہائی غریب ایسے گھر میں رہتے ہیں جس میں ایک شخص کم غذائیت کا شکار ہے۔اہم بات یہ ہے کہ رہائش،کھانا پکانے کا ایندھن اور صفائی جیسے اسباب پر صرف کم غذائیت سب سے زیادہ بھاری ہے۔عالمی بھوک رپورٹ 2022 میں121ممالک میں ہندوستان 107 ویں مقام پر ہے۔نیپال،بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک ہندوستان سے بہتر حالت میںہیں۔ عالمی غذائی تحفظ جی ایف ایس انڈیکس 2021 میں ہندوستان 113ممالک میں 71ویں مقام پر تھا،عالمی یوتھ ترقیات انڈیکس 2020 میں 181 ممالک میں ہندوستان122ویں مقام پر تھا۔انفرادی آزادی رینکنگ 2021میں 119ویں مقام پر جبکہ پریس آزادی کے معاملے میں وہ 180ممالک میں 150 ویں مقام پر ہے۔عالمی بینک نے 2020میں عالمی پونجی انڈیکس(ایچ سی آئی)رپورٹ جاری کی تھی جس میں 180ممالک میں وہ 116ویں مقام پر ہے۔اس سے ملک کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ہندوستان دنیا بھر کے 117ممالک میں پانچواں سب سے زیا دہ آلود ہ ملک ہے۔وسطی اور جنوبی ایشیا کے سب سے زیادہ 15آلودہ شہروں میں سے 12کا تعلق ہندوستان سے ہے۔جس سے اس امیر ملک کے غریب شہری بیماریوں کے قہر سے نہ صرف بچ نہیں پاتے ہیں بلکہ ہر طرف سے بیماریاں ان کو اپنی زد میں لیے رہتی ہیں۔ملک کا سب سے بڑا پالیسی ساز ادارہ ’’نیتی آیوگ‘‘خود اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ہندوستان کی 25فیصد آبادی غریب ہے۔یعنی ہر چوتھا شخص غربت کا شکار ہے۔ دنیا میں وہی ممالک حقیقی معنوں میں ترقی کرسکے ہیں جنہوں نے تعلیم،صحت اور روزگار کو فروغ دیا ہے۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان میں یہ تینوں چیزیں سب سے زیادہ مشکل ہوتی جا رہی ہیں۔تعلیم اس قدر مہنگی ہوتی جارہی ہے ا ور روز بروز اس کی فیس میں اتنا اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ غریب بچے اچھی تعلیم تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ پرائمری سطح پر سرکار کا تعلیمی ڈھانچہ کس قدر خراب ہے، اس کا اندازہ وہاں پڑھنے والے بچوں کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ غریب اس کا متحمل نہیں۔جبکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں فیس میں روزافزوں اضافہ طلبا کو سڑکوں پر لے آیا ہے۔علاج و معالجہ کی بھی یہی صورت ہے کہ سرکاری اسپتالوں کا بنیادی ڈھانچہ ملک کے ہر شہری کو ہر علاج نہیں مہیا کراسکتااور پرائیویٹ اسپتالو ں کا خرچ غریب عوام برادشت نہیں کرسکتے، ایسے میں ان کو اپنی جانوں سے ہاتھ تو دھونا ہی پڑے گا۔روزگار کا عالم یہ ہے کہ پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ ڈگری لے کر نوجوان چائے کے اسٹال لگانے پر مجبور ہیں اور کتنے ایسے نوجوان ہیں جو ملک کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر سکتے تھے مگر ان کو مواقع نہیں مل رہے ہیں۔اس لیے حکومت کو اگر غریبی اور بھکمری کو اس کی جڑوں سے ختم کرنا ہے تو دیہی علاقوں پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ہی ان تینوں محاذوں پر کام کرنا ہوگا اور عوام کو ان کے یہ بنیادی حقوق انہیں دینا ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب انسان غربت کا شکار ہوتا ہے تو اس میں طرح طرح کی آلائشیں در آتی ہیںجس سے معاشرے میں جرائم کا بول بالا ہوجاتا ہے۔نشہ اور چوری جیسے جرم عام ہوجاتے ہیں۔ معاشرے کی ان برائیوں کی جڑ غربت میں مضمر ہوتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ایسا کرنے والوں کو تعزیری نظام کے تحت زیر عتاب لانے سے یہ جرائم کم ہو جائیں گے یا ختم ہوجائیں گے بلکہ اس ایک فرد کی جگہ کوئی دوسرا فرد لے لیتا ہے اور جرائم کا سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اصل سبب تک رسائی حاصل کرکے اس کے تدارک کی کوششیں کی جائیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS