شاہنواز احمد صدیقی
دنیا کے تقریباً ہرمسلم ملک میں اس وقت سیاسی بے چینی،بیرونی مداخلت اور خانہ جنگی کا ماحول ہے،مغربی ایشیا میں 2011سے لگاتار آگ لگی ہوئی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ خطرناک صورت حال شام، عراق، یمن اور ارض فلسطین کی ہے۔شام کے حالات انتہائی پیچیدہ ہیں۔ امریکہ، ترکی، روس اور ایران کے علاوہ دہشت گرد تنظیمیں، مسلح پرائیویٹ افواج نے مسلم تہذیب اور ثقافت کے اہم مرکز ملک شام کو کھنڈر میں تبدیل کردیاہے۔ بارہ سال سے زائد کاطویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہاں تشدد اور خانہ جنگی میں کمی نہیں آئی ہے اور اندرون ملک بھی سیاسی مذاکرات یامصالحتی عمل میں شروع کیا جاسکا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے مستقبل قریب میںوہاں جمہوریت تو کجا امن قائم نہیں ہوپائے گا۔
عراق میں بھی کم وبیش یہی صورت حال ہے جو شام میں ہے مگر وہاں ایک نمائندہ حکومت قائم ہے جو گزشتہ 25سال سے چلی آرہی تصادم، خانہ جنگی اور برادرکشی کو کم کرنے میں کامیاب ہے اور وہاں ایک ایسا نظام قائم ہوگیا ہے جو کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر عراق میں حکومت کے تئیں اعتماد کی یہی فضا بنی رہی تو وہاں کے داخلی مسائل کو حل کیاجاسکے گا۔ عراق میں کرد باغی سر اٹھائے ہوئے ہیں، مختلف مسلکی گروہ اور دہشت گرد سرگرم ہیں مگر خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ ایک جمہوری نظام عمل میں آگیا ہے اور قریبی ممالک حکومت کی مدد کررہے ہیں۔
مغربی ایشیا اپنے غیرمعمولی قدرتی ومعدنی وسائل کے لیے پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ بڑی طاقتیں خطے میں مداخلت کرکے ان وسائل کا استحصال کرنا چاہتی ہیں۔ آج کل مغربی ایشیا کے ایک اور ملک میں تصادم اور خانہ جنگی کے خطرات منڈلارہے ہیں، وہ ہے لبنان۔ اگرچہ لبنان میںخانہ جنگی کی ایک داستان خونچکاں رہی ہے۔ انتہائی خوب صورت آب وہوا، بھانت بھانت کے لوگوں، قوموںکے اس گل دستہ کو نظر لگی یا نہیں لگی مگر برادرکشی نے اس عظیم معیشت کے اتحاد اور یک جہتی کو برباد کردیا ہے۔وہاں گزشتہ چار سال سے سیاسی تعطل، اقتصادی بحران، سماجی بے چینی کو شدید بنا رہا ہے۔ ملی جلی آبادی والے اس ملک پر اسرائیل کی نظر ہے اور وہ لگاتار اپنے توسیع پسندانہ عزائم پرعمل کرتے ہوئے سرحد میں داخل ہونے کی کوشش کررہاہے۔ اس وقت لبنان کی اسرائیل سے ملی ہوئی سرحدوں پرزبردست کشیدگی ہے۔ لبنان میں بے روزگاری، طوائف الملوکی کا یہ حال ہے کہ تمام اعلیٰ ترین آئینی عہدوں پر کوئی مستقل تقرری نہیں ہوپاتی۔ صدر، نائب صدر، کارگزار ہیں، حکومت کس کی ہوگی اس پر اتفاق نہیں۔ پارلیمنٹ کے ممبران کے درمیان کسی بھی عہدیدار پر اتفاق نہیں ہورہاہے۔ خزانے خالی ہیں، سڑکوں پر تشدد ہے اور پرائیویٹ افواج زیادہ سرگرم ہیں، سرکار ریگولر فوج کو دینے کے لیے تنخواہ نہیں ہے، عالمی ادارہ برائے مالیات آئی ایم ایم اپنی مرضی اور حزب اللہ اپنی مرضی کا وزیراعظم چاہتا ہے۔ فوج کی کفالت قطر کی حکومت کررہی ہے، زیادہ تر ممالک نے اس غیریقینی صورت حال کے پیش نظر امداد دینی بند کردی ہے۔ کرپشن، اقرباپروری اور مذہب اور مسالک پرستی نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔
یمن میں سعودی عرب، امریکہ اور فرانس کی مصالحت کی وجہ سے جنگ بندی تو ہوگئی ہے مگر وہاں ایک منتخب نمائندہ حکومت کا قیام ابھی ایک بڑا مسئلہ بناہوا ہے اور 2011سے جاری بدامنی کے بعد آج یہاں کافی حد تک امن ہے مگر یہ امن کب تک ہے کچھ کہنا محال ہے۔n