ماہِ ربیع الاول — اور ہم مسلمان

0

مولانا عبدالعلی فاروقی
صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہر سال کی طرح امسال بھی ’’عیدمیلاد النبی‘‘ کے جلسوں و جلوسوں کی تیاریوں کی خبریں آنے لگی ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ میلاد النبی کے ساتھ عید کا لفظ جوڑنا مناسب ہے کہ نہیں؟ اور لفظ عید کے استعمال کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ صرف اس بات پر غور کیا جائے کہ ربیع الاول کا مہینہ آنے پر مسلمانوں کو صرف میلاد النبی کیوں یاد آتا ہے؟ ھجرۃ النبی اور وفاۃ النبی کی یاد کیوں نہیں آتی؟ تاریخوں کے اختلاف کو نظرانداز کرکے دیکھا جائے تو اس میں کوئی اختلاف نظر نہیں آئے گا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہی کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ اور پھر اس کے دس برس کے بعد آپ کی وفات بھی اسی ماہ ربیع الاول میں ہوئی ہے —— پھر کیا وجہ ہے کہ مارہ ربیع الاول میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت اور وفات سے منسوب کوئی جلسہ، جلوس، یا محفل کا انعقاد نہیں ہوتا؟۔جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اور آپ کی اس کائنات ارضی میں تشریف آوری کا معاملہ ہے تو اسے ہم پورے عالم انسانیت کی ’’صبح صادق‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں کہ جس کے بعد پورا عالم انسانی نور نبوت کی جلوہ سامانیوں سے جگمگا اٹھا۔ اور نزع کے عالم میں سسکتی اور کراہتی ہوئی انسانیت کو پرسکون وپراعتماد حیات نو مل گئی۔ جنگل راج کا خاتمہ ہوا، اور دنیا کو ایک ایسا کامل و مکمل دستور حیات ملا، جس نے انسانوں کو انسانی زندگی بسر کرنے کے قرینے بتائے۔ زوردست کی زیردست پر حکمرانی کے تصور کا خاتمہ ہوا، معصوم بچیوں کو جینے کا حق ملا، عورتوں ومردوں کے درمیان حقوق وفرائض کی تقسیم کرکے دونوں کے درمیان’’حقیقی مساوات‘‘ کے رشتے قائم ہوئے، ماں باپ کی وراثت میں پہلی مرتبہ بیٹوں کی طرح بیٹیوں کو بھی حصہ دار بنایا گیا، سیدالقوم خادمھم کا فرمان جاری کرکے ’’مطلق العنان حکمرانی‘‘ کا تصور ختم کیا گیا، اور امارت و حکمرانی کا ایک ایسا ضابطہ پیش کرکے اور اس پر عمل درآمد کراکے ’’حکمرانی‘‘ کو ایسا کانٹوں بھرا تاج بنایا گیا کہ اس عظیم ذمہ داری کو قبول کرنے سے ہر ایک گریزاں نظر آنے لگا، فرق مراتب کا پیمانہ مال ودولت، جاہ وحشم اور اقتدار و حکمرانی کے بجائے ’’تقویٰ‘‘ کو قرار دے کر خالق کے ساتھ مخلوق کے رشتے کو مستحکم کیا گیا۔ غرضیکہ عدل ومساوات، لحاظ و احترام، اور حقوق وفرائض پر مشتمل ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئی، جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا آج تک عاجز وقاصر ہے۔پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی تاریخ کے واحد اور اکلوتے شخص ہیں جن کی پوری زندگی کھلی کتاب کی طرح پیش کرتے ہوئے خود خالق کائنات نے فرمادیا کہ ’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ‘‘ یعنی تمہارے لئے اللہ کے اس رسول کی عملی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ اور پھر انسانی زندگی کے ہر نشیب وفراز سے گذارکر ان کو ہدایت ورہنمائی کا ایک ایسا نمونہ بنایا گیا کہ ان کا اور ان کے دین کا بدترین دشمن بھی ان کے کردار کی عظـمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا۔یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ اچھی اچھی باتیں کہنے والوں، اور انسانی فلاح وبہبود کے فلسفے و منصوبے پیش کرنے والوں کی دنیا میں کبھی کمی نہیں رہی — لیکن ان کو اپنے عمل وکردار سے ثابت کرنے والی ہستی ایک اور صرف ایک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، جنہوںنے وہ سب کچھ اپنے عمل سے دکھا دیا جو دوسروں کے لئے کہا۔ حاکم ہو یا رعایا، مقیم ہو یا مسافر، تاجر ہو یا مزدور، اور مہمان ہو یا میزبان، ہر ایک کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس سیرت سے رہنمائی مل جائے گی۔ پھر حالت امن کی ہو یا جنگ کی، واسطہ دوستوں سے ہو یا دشمنوں اور خون کے پیاسوں سے، معاملہ اپنوں سے ہو یا غیروں سے، رشتوں کے نباہنے کا موقع ہو یا رشتوں ناتوں کو درکنار کرکے عدل و انصاف کی لاج رکھنے کی آزمائش ہو، ہر مرحلۂ حیات کو اللہ کے اس سچے و آخری نبی نے اپنے پاکیزہ کردار کے ذریعہ مشک بیز بنادیا۔ذرا سوچئے تو سہی، کیا دنیا کی تاریخ میں کوئی دوسری ایسی ہستی تلاش کرنے سے بھی مل سکتی ہے، جس کی پیدائش سے لے کر وفات تک کے ہر ہر مرحلہ کا رکارڈ دنیا کے سامنے موجود ہو؟ جلوت تو جلوت، اس کی تو خلوتیں بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔ پیدائشی یتیم، اور پھر بہت کم سنی میں پیاری ماں اور اس کے بعد ہی شفیق دادا کی سرپرستیوں سے محروم ہوجانے کے باوجود شرم وحیا، پاس و لحاظ، رشتوں کی شناخت، اور حقوق کی رعایت سے آراستہ وہ معصومانہ بچپن، پھربے داغ و باکردار جوانی کا مرحلۂ بلاخیز، ایک ہزار جوانوں کی طاقت ہونے کے باوجود پوری جوانی اپنے سے پندرہ برس بڑی ایک بوڑھی اور بیوہ خاتون کے ساتھ اٹوٹ محبت کے سایہ میں بسر کرنا، بوڑھی و چہیتی بیوی کی وفات کے بعد کحولت (ادھیڑی) کی عمر میں ایک کے سوا متعدد مطلقہ و بیوہ عورتوں کو مختلف اغراض ومقاصد کے پیش نظر عقد نکاح میں لاکر ان کے ساتھ مساویانہ سلوک کا بے مثال نمونہ پیش کرنا، جسم و جان نچھاور کرکے پرورش و سرپرستی کا حق ادا کرنے والے پورے خاندان کے اکلوتے چچا سے بھی دین و ایمان کے معاملہ میں کسی رورعایت سے کام لئے بغیر یہ ٹکاسا جواب دے دینا کہ ’’چچا! اگر میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند رکھ کر اس دین حق کی تبلیغ سے روکا جائے تو میں چاندوسورج کو ٹھکرادوں گا مگر دین کی تبلیغ سے نہیں رکوں گا‘‘۔ مدنی زندگی میں فتوحات کے دروازے کھل جانے،عام مسلمانوں کے گھروں میں خوش حالی و فراغت کا دور دورہ ہونے کے باوجود ازواج مطہرات کے اس جائز مطالبہ کو بھی رد کرتے ہوئے کہ عیش وعشرت نہیں، بلکہ صرف دووقت کی شکم پری کا انتظام کردیا جائے، رضاکارانہ طور پر ایسی زندگی بسر کرنا کہ سب سے چہیتی اور سب سے بڑھ کر معین ومددگار زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ ’’نبی کے ساتھ گذرے ہوئے میرے نوسالہ عرصۂ حیات میں کوئی دن بھی ایسا نہیں آیا کہ گھر میں دونوں وقت چولہا جلا ہو‘‘۔ دوستوں سے دوستی اور دشمنوں سے دشمنی نباہنے کے اصول بیان کرتے ہوئے ایک طرف یہ فرمایا کہ ’’اگر (میری بیٹی) فاطمہ چوری کرے گی تو اللہ کی حدود کو قائم کرنے میں اس کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں کی جائے گی، اور ضابطہ کے مطابق اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیئے جائیں گے۔ دوسری طرف اپنے اور اپنے دین کے دشمنوں اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کرنے والوں پر عنایت و کرم فرمائی کی یہ بارش کہ اپنے جنگی سپاہوں کے لئے یہ ہدایت نامہ جاری کیا کہ ’’دشمن پر رات کے وقت (جب کہ وہ عالم خواب میں ہوں) حملہ نہ کرنا، عورتوں اور بچوں سے دست درازی نہ کرنا، ہریالیوں اور اشیائے خوردونوش کی حفاظت کرنا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حریف اگر پست ولاچار ہوکر جنگ بندی کا اشارہ کرے تو اپنے ہاتھ فوراً روک لینا، اور جنگ کو اس کے ا نجام تک پہنچانے کی کوشش نہ کرنا۔‘‘اللہ کے سچے و آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب زندگی کے یہ وہ چند نمایاں عنوانات ہیں جن کی نظیر پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے —— اور ’’چشم بینا‘‘ کو ان کی سیرت و کردار میں کچھ ایسی جاذبیت نظر آتی ہے کہ وہ بے ساختہ اس اعتراف پر مجبور نظر آتی ہے کہ ؎
دیکھا ہے جب سے اس شہ کونین کا جمال
جچتانہیں ہے کوئی بھی میری نگاہ میں
بات ذرا دور نکل گئی کیوں کہ نبی کے غلاموں کا یہ یقین ہے کہ ؎
مرے مصطفی کا ہمسر نہ ہوا نہ ہے نہ ہوگا
کوئی ان کے جیسا رہبر نہ ہوا نہ ہے نہ ہوگا
مگر راقم الحروف کو پھر اپنے اسی سوال کی طرف لوٹنا ہے کہ ’’ماہ ربیع الاول میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ولادت باسعادت ہی کا ذکر کیوں ہوتا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ آپ اور آپ کے جاں نثار ساتھیوں کی ہجرت مدینہ اور اس کی خاطر بے مثال قربانیاں پیش کرنے، نیز آپ کی وفات جیسے عظیم سانحہ کا جس نے حضرت عمرؓ جیسے فرزانہ کو بیگانۂ عقل و خرد بنادیا تھا اور وہ یہ یقین کرنے کے لئے کسی طرح آمادہ نہیں تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ تو اس شخص کی گردن قلم کرنے کے لئے آستانۂ نبوی کے باہر ننگی تلوار لئے کھڑے تھے جو یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے —— وہ تو کہئے کہ اسی ابوبکرصدیقؓ نے عمرؓ کو بھی سنبھالا، جس کو نبی کے بعد نبی کے دین اور ان کی امت کو سنبھالنا تھا۔ جب ابوبکرصدیقؓ نے مسجد نبویؐ میں سب کو جمع کرکے یہ واضح اعلان کیا کہ من کان یعبد محمداً فإن محمداً قد مات و من کان یعبد اللہ فإنہ حیی لایموت (جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو معبود سمجھ کر ان کی پوجا کرتا تھا اس پر واضح ہوجانا چاہئے کہ (اس کے معبود) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو موت آچکی۔ اور جو شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ورہنمائی پر) اللہ کی عبادت و پوجا کرتا تھا، اسے مطمئن رہنا چاہئے کہ (اس کا معبود) اللہ زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہیں آسکتی۔ پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی بات کی تائید میں قرآن مجید کی آیت کریمہ وَمَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُل الخ کا حوالہ دیا تو حضرت عمرؓ کے حواس ٹھکانے آئے اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے تلوار میان میں لوٹائی کہ لَوْلَا اَبوبکر لَھَلَکَ عُمَرُ (اگر اس وقت ابوبکرؓ نہ ہوتے تو عمرؓ ہلاک ہوجاتا) اسی طرح حضرت عثمان غنیؓ، حضرت بلال حبشیؓ، اور نبی کی لخت جگر سیدہ فاطمہ زہراؓ کا وفات رسول کے صدمہ سے جوحال ہوا تھا، وہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔ یقینا اہل ایمان کے لئے وفات رسول سے بڑھ کر کوئی صدمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی لئے اہل اللہ کہتے ہیں کہ کسی کو ناقابل برداشت صدمہ سے دوچار ہونا پڑجائے اور کسی صورت اسے قرار نہ آرہا ہو تو اس کے سامنے وفات رسولؐ کا ذکر کرنا چاہئے۔ اس سے اسے قرار آجائے گا۔ کیوں کہ قاعدہ ہے کہ جب بڑا غم یاد آجاتا ہے تو چھوٹا غم خود بہ خود ہلکا ہوجاتا ہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ دوسروں کو نہیں، خود مسلمانوں، اور محبت رسول کے دعویداروں کو ربیع الاول کا مہینہ آنے پر صرف اپنے نبی کی ولادت ہی یاد آتی ہے۔ نہ ان کی ہجرت یاد آتی ہے نہ ان کی وفات؟۔ کہیںا یسا تو نہیں کہ ہجرت کی یاد اور اس کا ذکر و تذکرہ دین کے لئے فکرمند ہونے اور تن من دھن کی قربانیاں پیش کرنے پر، اور وفات کی یاد دہانی رنجیدہ و مغموم ہونے پر مجبور کردے گی۔ جب کہ ’’جشن ولادت‘‘ میں تو صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں —— اور خوشیوں کو اپنے اپنے انداز میں منانے کی آزادی ہے؟
خدا کرے کہ مسلمان اس اہم سوال کی طرف متوجہ ہوکر ربیع الاول میں ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح ہجرت رسول اور وفات رسول کی یاد دہانی کا بھی اہتمام کرنے لگیں۔ تاکہ ان کی خوشیاں بھی پابند حدود رہیں۔ بہ قول اصغرؔ گونڈوی مرحوم ؎
اپنی خوشی کے ساتھ مرا غم نباہ دو
اتنا ہنسو کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS