کیرالہ میں فرقہ واریت کا عفریت

0

ہندوستان کی پرامن اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے اہم سمجھی جانے والی ریاست کیرالہ میں سیاسی تشدت تشویشناک حد تک بڑھتا جارہاہے۔عام طور پر سیاسی سرگرمیوں سے اوجھل رہنے والی دوجماعتوں آر ایس ایس اور پاپولرفرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کے ورکروں کی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی بھیانک روپ اختیار کرچکی ہے اور دونوں جماعتوں کے لیڈر ایک دوسرے کے ورکروں کو مارر ہے ہیں۔ ہندوستان جیسے ملک میں اور کیرالہ جیسی ریاست میں اس قسم کا سیاسی تشددسماج میں خلفشار کو گہرا کرنے والا ثابت ہوسکتاہے۔ کیرالہ میں یوں تو دوسیاسی محاذ ایک طویل عرصہ سے سرگرم اوراقتدار رہے ہیں اورہمیشہ سے ایک محاذ اقتدار میں ہوتاہے تو اگلی مرتبہ وہی محاذ اپوزیشن میں ہوتاہے ، مگر پچھلی مرتبہ کیرالہ کی اس سیاسی روایت میں ایک بڑی تبدیلی آئی اور مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت والا بایاں محاذ لگاتار دوسری مرتبہ برسراقتدار آگیا اور کانگریس کی قیادت والا یونائٹیڈڈیموکریٹک فرنٹ (یوڈی ایف) لگاتار دوسری مرتبہ اپوزیشن میں ہے۔یوڈی ایف میں انڈین یونین مسلم لیگ بھی شریک رہتی ہے۔یہ پہلی ریاست ہے جہاں پر انڈین یونین مسلم لیگ مسلسل سیاسی رول آدا کرتی ر ہی ہے۔آزادی کے بعد کیرالہ میں اس پارٹی نے کافی حد تک اقلیتوں کی فلاح وبہبود کو ترجیح دینے کے ساتھ ساتھ ریاست میں ترقیاتی اور تعلیمی محاذ پر اقلیتوں کے لئے کافی کام کیاہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پارٹی شمالی ہند کی اس فرقہ وارانہ آلودگی سے پاک ہو کر اور بالا تر ہو کر انتخابی سیاست میں شامل ہوتی رہی ہے ، مگر پچھلے کئی سالوں سے کیرالہ کی سیاست میں کچھ اور عناصر بھی اپنے لئے جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس میں آر ایس ایس اور پی ایف آئی شامل ہیں۔اگر چہ کیرالہ میں سیاسی رقابتیں کسی دوسری ریاست کے مقابلے میں کسی طور کم نہیں ہیں، مگر وہاں پر سیاست ترقیاتی کامو ںاور فلاحی سرگرمیوں تک محدود رہی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ ریاست کئی معیارات پر دوسری ریاستوں سے بہتر کارکردگی پیش کرتی رہی ہے ۔کیرالہ کی شرح خواندگی ،صنفی تناسب اورصحت کے امور میں شاندار کارکردگی وجہ امتیازرہی ہے، مگر کئی سالوں سے سیاسی رقابتیں اس قدر سنجیدہ ہوگئی ہیں کہ سیاسی لیڈر اپنے حریفو ںکو موت کے گھاٹ اتارنے لگے ہیں۔گزشتہ دو ہفتوں میں پلکڑضلع میں دوسیاسی افراد کا قتل فرقہ وارانہ تشدد کو فروغ دے رہا ہے۔
پی ایف آئی کا ورکر پچھلے دنوں مارا گیاتھا جس کا الزام آر ایس ایس پر لگاتھا اور اب آر ایس ایس کے ایک ورکر کے قتل کے لئے پی ایف آئی کو مورد الزام ٹھہرایاجارہا ہے۔ یہ وارداتیں اپنے آپ میں الگ تھلگ وارداتیں نہیں ہیں بلکہ یہ سماج میں بڑھ رہی رقابتوں کی طرف واضح اشارہ ہے۔ریاست کے وزیراعلیٰ جن کے پاس وزارت داخلہ کا قلم دان بھی ہے ان پر یہ ذمہ داری دوہری بنتی ہے کہ وہ اپنی ریاست میں اس قسم کے سیاسی تشدد کو پنپنے نہ دیں اور دونوں فریقوں کو یہ بات واضح کردیں کہ قانون کی خلاف ورزی اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا رویہ ناقابل برداشت ہے جس کو جاری رکھنے اور ریاست کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ ریاست کے وزیراعلیٰ دوراندیش منتظم ہیں لگاتار دوسری مرتبہ ریاست کے عوام نے ان کو مسنداقتدار میں بٹھایاہے ۔ ایسے حالات میں ان کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ ہندوستان میں فرقہ وارانہ تنگ ذہنی اور رقابت کوختم کرنے کے لئے بین مذاہب اور بین ذات برادری، ازدواجی تعلقات قائم کرنا نیک فال سمجھا جاتاہے ،مگر فرقہ وارانہ رقابت اس قدر شدید ہوتی جارہی ہے کہ اپنے آپ کو لا ء مذہب کرنے والے کمیونسٹ فرقہ واریت کی اس لعنت کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور لوجہاد کا شگوفہ ایسی ریاست میں سیاسی مباحث اور سماجی مباحث میں بن کر ابھرا جو لامذہب کہلاتے ہیں۔
ایک سابق سی پی آئی (ایم)کے ایم ایل اے نے دولوکل لیڈروں کے بین مذہبی رشتہ ازدواج پر جو نکتہ چینی کی اور فرقہ وارانہ فائدہ اٹھانے کی کوشش میں رہے وہ مناسب نہیں تھا۔سیاسی پارٹیوں کو اس قسم کے سیاسی رشتوں اور روابط پر جو کہ ذاتی نوعیت کے ہوں اور شخصی آزادی کا معاملہ ہو تبصرہ کرنا سیاسی دوراندیشی یا ایماندارانہ روش کے خلاف ہیں۔اس قسم کے تبصرے جب کیرالہ جیسی ریاست سے سامنے آتے ہیں تو اور بھی تکلیف ہوتی ہے کیونکہ یہ وہ ریاست ہے جس نے ہر دور میں فرقہ وارانہ رشتوں کو مضبوط بنائے رکھا۔ 2018کے بھیانک ترین سیلاب میں تمام لوگوں نے بلا تفریق مذہب وملت ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور ایسے حالات میں ساتھ دیا جب کہ مرکز کی سیاسی رقابت فلاحی اور ریلیف کے کاموں میں مانع آرہی تھی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS