پرویز عادل ماحی
سر زمین ہند کا ہر ایک ذرہ خود میں انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمالیہ کی برفیلی چوٹیوں سے اتر کر آنے والی مقدس گنگا کی لہریں آج بھی اس کی آبیاری کر رہی ہیں ۔ یہ جتنے خطہائے سرزمین ہیں سب اس مالک حقیقی کے آگے سر نگوں ہیں کہ جس نے ان کو نمو اور روئیدگی بخشی ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس مالک حقیقی کے آگے سر نگو ں خطہ نے کبھی بھی دنیوی فرعونوں کے آگے سپر نہیں ڈالی ۔ گزرے ہوئے زمانے میں کیسی کیسی نامور ہستیوں کووقت نے کھنڈرات کے ڈھیروں تلے دبا کر فراموش کردیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں ہر دور میں حق و انصاف کا اور انسانی زندگی کے لئے جد و جہد کرنے والوں کی فراوانی رہی ہے ۔
اسی گنگ و جمن کے میدان میں ایک سرسبز علاقہ شمالی ہند کے دامن میں بسا ’’ نجیب آباد ‘‘ ہے ۔ جو تاریخ ہندوستان میں نمایاں حیثیت اور منفرد مقام رکھتا ہے۔ فرنگی سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں میں بھی یہ خطہ ضلع میں سب سے آگے رہا کہ اسی کے جیالے ’’ نواب محمود خان ‘‘ نے ضلع میں سب سے پہلے آزاد حکومت کا قیام کیا تھا ۔ نجیب آباد کو عظیم روہیلہ سردار اور بہادر شاہ ظفر کے معتمد خاص ’’ نواب نجیب الدولہ ‘‘ نے بسایا تھا جو بعد میں انہی کے نام نامی کی نسبت سے کل عالم میں ’’ نجیب آباد ‘‘مشہور ہوا ۔ نواب نجیب الدولہ، نواب محمود خاں ، مولانا محمد علی جوہر،مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی ، عبد الحفیظ قیصر ، علامہ شیخ محمد صدیقی، اخترالایمان اور محمد وارث کامل وغیرہ اسی زمین کے پروردہ اور لعل و گہر ہیں ۔ ہمارے مضمون کا عنوان نجیب آباد کی وہ عظیم شخصیت ہے کہ جس نے اردو زبان و ادب کے علاوہ اردو صحافت کو اپنے افکار عالیہ سے نہ صرف مالامال کیا بلکہ وہ تابندہ نقوش چھوڑے کہ جو اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے آج بھی سربلندی و کامیابی کی ضمانت بنے ہوئے ہیں۔ جی ہاں ! علامہ تاجور نجیب آبادی ایسی ہی شخصیت کے مالک تھے ۔ علامہ تاجور نجیب آبادی کے تعلق سے ہماری معلومات محدودہے حتی کہ ان کے شعری کمالات کامعمولی انتخاب بھی ہم سامنے لانے میں آج تک ناکام رہے ہیں ۔
علامہ تاجور نجیب آبادی کے مطابق ’’ میرا نام احسان اللہ خاں ابوالعرفان کنیت ۔ تاجور تخلص ،جائے ولادت نینی تال اور سن پیدائش غالبا 1890 ہے۔ وطن نجیب آباد قومیت درانی پٹھان، تربیت گاہ دارالعلوم دیوبند۔ ذریعہ معاش دیال سنگھ کالج کی پروفیسری اوروطن اقامت لاہور ہے ۔ گورنمنٹ نے سال1940 میںعلمی خدمات کے صلہ میں شمس العلماء کا خطاب عطا کیا اور انجمن ارباب علم نے 1921میں بلیغ الملک کے خطاب سے نوازا ۔
علامہ تاجور نجیب آبادی کا شمار ان متحرک اور صاحب فکر میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے بر صغیر ہندوستان اور پھر تقسیم ہندوستان کے بعد ادب اور ادیبوں کو نئے فکری رویوں اور زاویوں سے متعارف کروایا ان کی تخلیقات اردو ادب کی ترقی اور اسکی مروجہ اغلاط کو درست کرنے کے لئے نہ صرف وقف تھیں بلکہ ان میں ’’تصحیح‘‘ کے لئے پورا ایک صفحہ مخصوص کیا گیاتھا ۔
علامہ فارسی اور عربی علوم میں اتنی کامل دسترس رکھتے تھے کہ ان کے اساتذہ کو بھی ان کے تبحر علمی پر ناز تھا ۔ مجلہ دیوبند، القاسم میں اس بالغ نظر فاضل دیوبند کے جو مضامین کسی دور میں اشاعت پذیر ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ’’ میری نجی اور ادبی زندگی ‘‘کے عنوان سے علامہ تاجور نے 1940میں جو سلسلہ مضامین سپرد قلم کیا۔ وہ قابل تعریف ہے۔
علامہ نے مولوی غلام رسول کے ’ماہانہ مخزن ‘ سے اپنی صحافتی زندگی کا آغا ز’’ 1915‘‘ میں کیا حالانکہ وہ اس سے پیشتر یعنی 1911میں رسالہ نالہء بلبل اور آفتاب اردو لدھیانہ اور اس کے بعد رسالہ تاج الکلام نجیب آباد میں بحیثیت ایڈیٹر کام کرچکے تھے۔لیکن علامہ لکھتے ہیں
’’مگر یہ ابتدائی مشقیں’ریہرسل‘ کے طور پر تھیں۔ میری صحافت کااصل آغاز1915سے ہی ہوتا ہے ‘‘
علامہ کے اندر نثر نگاری کی بے پناہ صلاحیتیں تھیں ۔طنز و ظرافت ، بذلہ سنجی ، نغز گفتاری ، سحر نگاری ، شعلہ بیانی اور ان کی دل آویز تحریر کی وہ ادائیں جن پر معاصرین بھی رشک کرتے تھے ۔
علامہ تاجور نجیب آبادی کی صحافتی زندگی کا دور ’’ماہانہ مخزن ‘‘ سے شروع ہوا ۔ دسمبر 1916کے شمارہ میں پہلی مرتبہ ان کا نام ’’ تاجور مدیر مخزن ‘‘ کی حیثیت سے درج ہوا ہے۔ یہ زمانہ مخزن کے لئے بہت خوشحال اور امید افزاء نہیں تھا، لیکن علامہ تاجور نے اس انہماک سے مخزن کی ادارت کے فرائض انجام دئے کہ اس کو وہی مقام و مرتبہ حاصل ہوگیا جو سر عبدالقادر کے زمانے میں ’’ مخزن ‘‘ کو حاصل تھا ۔ علامہ تاجور لکھتے ہیں ’’ صورت واقعہ یہ ہے کہ بوڑھے ایڈیٹر سے پہلے بوڑھا ’’مخزن‘‘ سطح نمو د سے گم ہونے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہا تھا۔بالآخر انیسویں صدی کا ’’ شہرت ‘‘ بیسویں صدی کے تاجور کو غنان ادارت دے کر فضائے لا متناہی میں گم ہو گیا ۔ میں اس وقت طالب علم تھا۔ مخزن کی حیثیت میری نگاہ میں لندن ٹائمز سے کم نہ تھی ۔
علامہ نے اپنے صحافتی دور کی تیسری منزل کا آغاز مئی 1929سے ماہنامہ ’’ ادبی دنیا‘‘ کی اشاعت کے ساتھ کیا۔ رسالہ ادبی دنیا اس سطوت و جلال کے ساتھ افق صحافت کے ساتھ طلوع ہوا کہ آسمان ادب پر ستاروں کی چمک ماند پڑگئی ۔ عمائد ملک نے ’’ ادبی دنیا‘‘ کو اردو صحافت کے لئے نشان راہ قرار دیا ۔ اس کی مانگ دنیا کے ہر اس خطے میں تھی جہاں ہندوستانی پہنچ چکے تھے ۔ اس کی غیر ملکی ڈاک اتنی ہوتی تھی کہ دس بیس اردوماہناموں کی مجموعی ڈاک بھی اس مقدار کو کبھی نہ پہنچی ہوگی ۔
علامہ تاجور نے ادبی دنیا کو عالم اردو کے لئے مثالی پرچہ بنانے میں حد سے زیادہ کوشش کی۔ مضمون نگاروں کو اعزازیہ دئے جانے کا جو سلسلہ فی زمانہ رائج ہے ، اس کو آج سے ایک سو برس پہلے علامہ تاجور اختیار کر چکے تھے ۔ علامہ لکھتے ہیں
’’ہم نے اپنے مقررہ اصول کے مطابق ا پنے سب اہل قلم کو معاوضہ بھیجا تھا اور اس اصول پر اس سختی سے پابندی کی گئی تھی کہ ادبی دنیا کے محترم نگراں کی خدمت میں بھی ان کے گراں مایہ مضمون کا معاوضہ ارسال کردیا گیا تھا ۔ان اہل قلم میں سے کچھ حضرات نے تو ہمارا حقیر ہدیہ قبول فرماکر ہماری عزت بڑھائی تھی اور کچھ سر پرستوں نے اظہار ہمدردی کے طور پر معاوضہ واپس کر دیا تھا ‘‘
تاہم ادبی دنیا کی ادارت بھی مخزن اور ہمایوں کی طرح علامہ تاجور کے ہاتھوں سے نکل گئی ۔ وہ ستمبر 1933تک ادبی دنیا میں بحیثیت ایڈیٹر اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے ۔ادبی دنیا سے علیحدگی کے بعد انہوں نے ایک اور اہم رسالہ ’’ شاہکار‘‘ جاری کیا ۔ شاہکار کا پہلا شمارہ 1935میں شائع ہوا ۔ علامہ لکھتے ہیں
’’ رسالہ ادبی دنیا مارچ 1933میں میرے ہاتھ سے نکلا اور مئی 1935میں رسالہ شاہکار جاری کردیا ۔ گویا دو سال کے لگ بھگ وقفہ زندگی میں بسر کرنے کے بعد پھر نیا سفر شروع کردیا ۔ شاہکار بھی اسی آن بان سے نکلا جس سطوت و جلال سے ’’ ادبی دنیا ‘‘ طلوع ہوا تھا ۔ ملک کے اہل نظر نے شاہکار کے آئینے میں ادبی دنیا کے عہد عروج کی طلعتوں کو دیکھا۔ فضائے شعرو ادب اس جلوہ کار ادب سے جگمگا اٹھی ۔
شاہکار علامہ تاجور نجیب آبادی کی ادارت میں تقریبا 7برس تک ادبی شہ پاروں کی تدوین و اشاعت کرتا رہا/ لیکن ان 7 برسوں میں علامہ کو شدید نقصان اٹھا نا پڑا ۔ تاج الکلام ، مخزن ،اتحاد ، ادبی دنیا ، شاہکار کی اشاعت کے علاوہ لاہور سے ہی علامہ تاجور نجیب آبادی نے بچوں کی تربیت لئے ہفتہ وار ’’ پریم ‘‘ کا اجراء کیا ۔ پریم کی پیشانی
’’بھارت ماتا سب کی مائی
سب ہندی ہیں بھائی بھائی
من میں بہائیں پریم کی گنگا
ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی
قطعہ سے مزین تھی ۔ پریم کا مقصد بچوں کے دل میں خدا، مذہب، وطن اور بنی نوع انسان سے محبت کرنا تھا ۔ پریم کے متعلق علامہ لکھتے ہیں
’’ پریم کو میں نے1926میں خان بہادر شیخ نور الہی صاحب کے مشورے سے جاری کیا تھا ۔ ملک کے فریقانہ خلفشار کے پیش نظر پریم جاری کیا گیا۔ پروفیسر چرنجیو لال ماتھر دہلوی میرے ساتھ اس کے آنریری ایڈیٹر ہیں ۔
تاج الکلام، پریم،اتحاد،مخزن ، ہمایوں، ادبی دنیا ،شاہکار اورہمارا پنجاب کی ایڈیٹری کے فرائض انجام دینے کے علاوہ علامہ نے شعرو سخن کے ساتھ تصنیف و تالیف کی گرانقدر خدمات بھی انجام دیے ۔
اخبار مدینہ بجنور کے ایڈیٹر اور علامہ تاجور نجیب آبادی کے ہم وطن محمد وارث کامل لکھتے ہیں ’’ آج پاکستان کے طول و عرض میں جو اردو روزنامے ، ہفت روزہ اخبارات اور ماہنامے جاری ہیں ان کے ادبی محاسن کا سہرا علامہ تاجور نجیب آبادی کے سر ہے ۔ خیر و شر کے بارے میں اسلام نے جو فلسفہ پیش کیا ہے کہ جو شخص بھی خیر و شر کی رسم ایجاد کرتا ہے اس کے اعمال پر اس کے منفی و مثبت اثرات کی پرچھائی ضرور پڑتی ہے ۔ اس کی رو سے بلا مشائبہ و مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ اخبارات و رسائل میں جو اچھوتی بندشیں، لطائف و ظرائف، پر شوکت الفاظ زبان کے محاورے اور ادب و تنقید کے سانچے میں ڈھلے ہوئے اشعار جہاں کہیں بھی دیکھنے میں آتے ہیں ۔زبان حال سے علاقہ کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں اور علامہ کی بارگاہ میں یہ خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔
تیرے نازک لبوں سے سیکھا ہے
ہم نے انداز مسکرانے ۔۔۔۔کا
اردو صحافت کا مرد مجاہد تاجورؔ: پرویز عادل ماحی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS