مہاراشٹرا حکومت اب ہندوتوا آڈیولوجی کو قائم کرے گی

0

امام علی فلاحی ۔

متعلم : جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن ،

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد ۔

بھارت کی ایک اہم اور رئیس ریاست مہاراشٹرا میں یکایک مرکزی حکومت بی جے پی ی نے شیو سینا کا تختہ پلٹ دیا ہے، اب اس حکومت کی باغ ڈور سنبھالنے کے لئے اکناتھ شندے جو کہ شیو سینا پارٹی جسکے صدر ادھو ٹھاکرے ہیں جو کہ ایک بھارتی سیاست دان اور شیو سینا کے بانی اور سابق صدر بال ٹھاکرے کے بیٹے ہیں، جنہوں نے 2019 میں مہاراشٹر حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی اور ابھی تک سی ایم کے تخت پر بیٹھے تھے ان سے بغاوت کرکے تقریباً چالیس ودھایکوں کی مشتمل ایک جماعت کے ساتھ بھارتی جنتا پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔

اکناتھ شندے کون ہیں؟

اکناتھ شنڈے ایک ایسے شخص ہیں جو ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، مالی وجوہات کی وجہ سے اپنی پڑھائی درمیان میں ہی چھوڑ کر آٹو ڈرائیور کے طور پر کچھ وقت تک کام کرتے رہے اور آج سی ایم کے عہدے تک پہنچ چکے ہیں، انہوں نے اپنا سیاسی کیریئر تھانے مہاراشٹرا میں کارپوریٹر کے طور پر شروع کیا، چار بار ایم ایل اے اور دو بار وزیر بھی رہے اسکے علاوہ راج ٹھاکرے بالا صاحب کے قریبی بھی رہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اکناتھ شندے حال ہی میں کئی روز تک لاپتہ تھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بی جے پی اقتدار والی ریاست گجرات کے شہر سورت میں شیو سینا کے کچھ ارکان کے ہمراہ موجود ہیں، پھر جب یہ بات عام ہوگئی کہ وہ گجرات میں موجود ہیں تو شندے نے گجرات چھوڑ کر آسام کے دارالحکومت گوہاٹی چلے گئے۔

حالانکہ اس سے چند روز قبل ہی وہ وزیر اعلیٰ اودھو ٹھاکرے کے فرزند اور ریاستی وزیر آدتیہ ٹھاکرے کے ہمراہ رام مندر کا درشن کرنے ایودھیا گئے ہوئے تھے، وہ پارٹی کی دیگر سرگرمیوں میں بھی شامل رہے۔ لیکن کسی کو بھی اس کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اندر ہی اندر بغاوت کی تیاری کر رہے ہیں۔

قابل غور ہے کہ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ مہاشٹرا حکومت کے تختہ پلٹ میں بی جے پی کا اہم کردار رہا ہے جبکہ بی جے پی اسکا انکار کر رہی ہے اور اسے شیو سینا کا اندرونی معاملہ قرار دے رہی ہے۔

بہر کیف اب ریاست مہاراشٹرا کی حکومت ادھو ٹھاکرے کے ہاتھ سے نکل کر اکناتھ شندے کے ہاتھ میں آچکی ہے اور اب اکناتھ شندے ہی سی ایم کے عہدے پر فائز ہو چکے ہیں ۔

آج سیاسی محققین اور عوام کے ساتھ شیو سینا پارٹی اور ادھو ٹھاکرے کا یہ کہنا ہے کہ اکناتھ شندے نے شیو سینا پارٹی سے بغاوت کی ہے جو کہ ایک ناقابل برداشت عمل ہے۔

لیکن اکناتھ شندے کا کہنا ہے کہ وہ بغاوت نہیں کر رہے ہیں بلکہ گرانا نہیں چاہتے بلکہ یہ چاہتے بلکہ وہ ہندوتوا آڈیولوجی کوقائم کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ادھو ٹھاکرے

این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مل کر شیو سینا ہندوتوا کے اس نظریے سے بھٹک چکے ہیں جو پارٹی کے بانی بال ٹھاکرے کا نظریہ تھا۔

اسکے علاوہ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ این سی پی اور کانگریس ریاست میں شیو سینا کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اسی لئے شاید وہ شیو سینا ہندوتوا نظریے کو بچانا چاہتے ہوں اور ہندوتوا آڈیولوجی کو قائم کرنا چاہتے ہوں۔

لیکن اودھو ٹھاکرے نے ہندوتوا کے نظریے کو خیرباد کہنے کے الزام کی تردید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی بال ٹھاکرے کے ہندوتوا کے نظریے پر قائم ہیں۔

خیال رہے کہ شیو سینا بھی اسی ہندوتوا کے نظریے پر چلتی رہی ہے جس پر بی جے پی چل رہی ہے، دونوں کا مقصد ایک ہی ہے، جس طرح بی جے پی اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی سازش کر رہی ہے اسی طرح شیو سینا بھی چاہتی ہے۔

لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ شیو سینا مسلسل بیانات سے یا بی جے پی کے نظریاتی حملوں سے پریشان یہ بیان دیتی رہتی ہے کہ وہ سب سے بڑی ہندوتو وادی ہے جسے ثابت کرنے کیلیے ادھو ٹھاکرے نے بابری مسجد کے مقام پر بننے والے مندر بھی گئے تھے اور پیشانی پر ہندو مذہبی نشان بھی بنائے تھے تاکہ کوئی انہیں ہندو مخالف یا ہندتو نظریہ کا باغی نہ سمجھ لے۔ ویسے یہ بات سمجھ لیں کے کیجریوال جیسا غیر مذہبی انسان بھی جب بنارس میں مودی کے خلاف میدان میں اترتا ہے تو اسے بھی گنگا میں ڈبکی اور پیشانی پر ہلدی چندن کی لیپ لگانی پڑتی ہے تاکہ عوام اسے کٹر ہندو سمجھیں۔

بہر حال یہ ہندوستانی سیاست کی بدنصیبی ہے کہ جو جتنا بڑا ڈرامہ باز یا بہروپیہ ہوگا وہ اتنا ہی مقبول سیاسی قائد ہوگا۔ اس لیے سیاست کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس کے دل میں رحم نہیں ہوتا۔

بہر حال ہر ہندو پارٹی خود کو کٹر ہندو ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام پر بال ٹھاکرے نے بڑے فخر کے ساتھ یہ کہا تھا کہ یہ کام ان کے شیو سینکوں نے کیا ہے۔

خلاصہ کلام یہ نکلا کہ اکناتھ شندے نے جو شیو سینا پارٹی کو الوداع کہہ بھارتی جنتا پارٹی کو اپنا کر اپنی حکومت قائم کی ہے اسکا خالص مقصد اکناتھ شندے کے مطابق مہاراشٹرا میں ہندوتوا آڈیولوجی، ہندوتوا افکار و نظریات کو از سر نو تعمیر کرکے اسے قائم و دائم رکھنا ہے۔

جبکہ اس طرح کے نظریات کو ایک جمہوری ملک میں قائم کرنا جمہوریت کے خلاف ہے کیونکہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں پر ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ہر مذہب کے لوگ موجود ہیں اور کوئی بھی ایسا ریاست نہیں ہے جس میں صرف اور صرف ہندو مذہب کے ماننے والے لوگ موجود ہوں بلکہ ہر ریاست میں طرح طرح کے پھول اگے ہوئے ہیں، ہندو مسلم ہر جگہ موجود ہیں اس لئے ایک جمہوری ملک میں اس طرح کا نظریہ اور اس قسم کا آڈیولوجی قائم کرنا جمہوریت کے خلاف ہے، کیوں اگر ریاست مہاراشٹرا میں ہندوتوا آڈیولوجی کو پروموٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہوگا، وہاں کے سکھوں کے ساتھ ظلم ہوگا، وہاں عیسائیوں کے ساتھ ظلم ہوگا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS