الیکشن کمشنر کی تقرری کا ’برق رفتار‘عمل

0

مرکزی حکومت راتوں رات فیصلہ لینے اور اسے نافذ کرنے کا ریکارڈ بنارہی ہے۔ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور لاک ڈائون کے فیصلے بھی انتہائی عجلت اور رات کی تاریکی میں لیے گئے تھے۔ملک آج تک ان فیصلوں کے نتائج بھگت رہاہے۔ایک اور فیصلہ بھی انتہائی عجلت میں راتوں رات لیا گیا ہے اور وہ ہے الیکشن کمشنر کے عہدہ پر ارون گوئل کی تقرری کا فیصلہ۔ لیکن یہ فیصلہ اب حکومت کی تضحیک اور تنازع کا سبب گیا ہے۔عدالت نے بھی اس معاملہ میں اپنے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے تقرری عمل پر سوال اٹھایا ہے۔ہوایوں کہ مرکزی حکومت نے گزشتہ ہفتہ کے روز ارون گوئل کو انتہائی عجلت میں الیکشن کمشنر مقرر کرنے کا اعلان کردیا۔ الیکشن کمشنر جیسے حساس اور اہم ترین ذمہ داری والے عہدہ پر راتوں رات ارون گوئل کی تقرری انتظامی حلقوں میں بحث کا موضوع بن گئی۔ بتایاجاتا ہے کہ بھاری صنعتوں کی وزارت میں سکریٹری ارون گوئل نے اپنی باقاعدہ سبکدوشی سے6ہفتے قبل18نومبر جمعہ کو اچانک رضاکارانہ طور پر استعفیٰ سونپ دیاتھایعنی وی آر ایس لے لیا۔ ہر کوئی حیرت زدہ رہ گیا کہ سبکدوشی سے صرف ڈیڑھ مہینے پہلے وی آرایس کیوں لیا۔لیکن حکومت نے جمعہ کو ہی ان کے وی آرایس کو منظور کرتے ہوئے ان کی جگہ کامران رضوی کو سکریٹری مقرر کردیا اور اگلی صبح ارون گوئل کو الیکشن کمشنرمقرر کردیاگیا۔
تقرری کے اس برق رفتار عمل پر عدالت بھی ششدر ہے اور آج باقاعدہ اس پر سوال اٹھاتے ہوئے عدالت نے اس پورے عمل کو جلد بازی سے تعبیر کیا ہے۔عدالت میں جمع کرائی گئی ارون گوئل کی تقرری فائل کا مشاہدہ کرنے کے بعد جسٹس کے ایم جوزف کی سربراہی والی5رکنی آئینی بنچ کا کہنا ہے کہ گوئل کی تقرری سے متعلق فائل کو ’بجلی کی رفتار‘ سے نمٹایاگیا ہے۔
الیکشن کمشنرز کی تقرری کے اسی برق رفتار عمل کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ تقرریاں ایگزیکٹیو کی صوابدید پر کی جارہی ہیں۔عرضی گزار نے ارون گوئل کو الیکشن کمشنر مقرر کیے جانے کے عمل کی مثال دیتے ہوئے اپنی درخواست میں مستقبل میں ایسی تقرریوں کو روکنے کیلئے ایک آزاد کالجیم جیسا نظام یا سلیکشن کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔اس عرضی کی سماعت کرتے ہوئے عدالت کی آئینی بنچ نے بدھ کو حکومت سے ارون گوئل کی تقرری کی فائل طلب کرلی تھی۔ جسے آج جمعرات کوحکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی نے عدالت میں پیش کیا۔ فائل کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ تقرری کا کون ساعمل ہے؟ 1985کے آئی اے ایس افسر جمعہ کو سروس سے رضاکارانہ طور پر سبکدوشی لیتے ہیں، ان کی فائل کو وزارت قانون ایک ہی دن میں کلیئر کردیتی ہے اور اسی دن چار ناموں کا پینل وزیراعظم کے سامنے رکھاجاتا ہے اور اسی دن 24گھنٹوں کے اندر ہی صدر جمہوریہ سے ارون گوئل کے نام کی منظوری مل جاتی ہے۔عدالت نے کہا کہ وہ ارون کی لیاقت یا ان کی ساکھ پر نہیں بلکہ تقرری کے عمل پر سوال اٹھارہی ہے؟
الیکشن کمیشن یا اس جیسے دوسرے کسی آئینی ادارہ میں حکومت کی پسندیدہ شخصیت کی تقرری کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیںہے بلکہ اس سے قبل بھی کئی بار ایسی تقرریاں ہوچکی ہیں لیکن یہ فیصلہ ان معنوں میں پہلا ہے کہ کسی آئینی ادارہ کے سربراہ کی تقرری کا پیچیدہ عمل 24 گھنٹوں کے اندر اندر مکمل ہوکر نافذ العمل بھی ہوگیا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آزاد الیکشن کمشنر کی تقرری والی آئین کی دفعہ 324 تقرری کے طریقہ کار اور عمل پر خاموش ہے۔اورحکومتیں اسی خاموشی کا فائدہ اٹھاکر اپنی پسندیدہ شخصیات کو آئینی عہدوں پر مامور کرتی رہی ہیں۔ لیکن یہ کوئی مستحسن روایت نہیں ہے کہ اس کی پاسداری ضروری ہو بلکہ اس سے آئینی اداروں کی ساکھ تباہ ہوتی ہے جیسا کہ الیکشن کمیشن کے معاملے میں ہوتا آیا ہے۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کاسربراہ بھی ایسا ہونا چاہیے جوغیر سیاسی، بلند کردار اور غیر جانبدارہوا ور کسی سے متاثر ہوئے بغیر آزادانہ و شفاف فیصلے کرسکے۔ اور یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب الیکشن کمشنرکی تقرری غیر جانبدار سلیکشن پینل یا کالجیم کے ذریعہ کی جائے۔اب دیکھنا ہے کہ عدالت اپنی اگلی سماعتوں میں الیکشن کمشنرکی تقرری کیلئے کس طریقہ کار کا تعین کرتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS