ناوابستہ تحریک کا سبق

0

9/11 کے حملوں کا جواب امریکی صدرجارج ڈبلیو بش دینا چاہتے تھے اور اسی لیے ان کی حکومت کا یہ مؤقف تھا کہ کوئی ملک امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ دے گا تو اسے امریکہ کا دوست سمجھا جائے گا اور اگر ساتھ نہیں دے گا تو اسے امریکہ کے خلاف سمجھا جائے گا مگر افغان جنگ نے یہ صورت حال بڑی حد تک بدل دی ہے۔ امریکہ 20 برس تک افغان اور عراق جنگ میں الجھا رہا اور اس درمیان روس اور چین اپنی طاقت میں اضافہ کرتے رہے، اس لیے افغان جنگ کے خاتمے کے وقت دنیا کے حالات 2001 کے حالات جیسے نہیں ہیں۔ یہ حالات کسی حد تک دوسری عالمی جنگ کے بعد کے حالات جیسے ہیں۔ اس وقت امریکہ نے ’مارشل پلان‘ کے تحت مغربی یوروپ کے ملکوں کو اپنے ساتھ کرنے کی ہی کوشش نہیں کی تھی، ناٹو کی تشکیل کر کے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے بلکہ ’ٹرومین ڈوکٹرین‘ تو اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ امریکہ سوویت یونین کے دائرۂ اثر کو وسیع نہیں ہونے دینا چاہتا۔ دوسری طرف سوویت یونین نے مشرقی یوروپ کے ملکوں کو دائرۂ اثر میں لے کر ’وار سا پیکٹ‘ کے توسط سے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ اسے یک محوری دنیا منظور نہیں۔ سوویت یونین کا مؤقف اور زیادہ واضح انداز میں اس وقت سامنے آیا تھا جب 13 اگست، 1961کو دیوار برلن کی تعمیر کی شروعات کی گئی تھی۔ یہ دیوار اس بات کی علامت تھی کہ تقسیم جرمنی کی نہیں ہوئی ہے، دنیا کی ہوئی ہے۔ اس علامت کو پنڈت نہرو اور ان کے ساتھیوں نے سمجھنے میں زیادہ تاخیر نہیں کی، ایک ماہ کے اندر ہی یکم ستمبر، 1961 کو ناوابستہ تحریک کی بنیاد رکھ کر بغیر کہے یہ بتا دیا کہ انہیں یک محوری یا دو محوری ہی نہیں، کوئی محوری دنیا منظور نہیں، کیونکہ اس سے دنیا کے ان ملکوں کے لیے تشخص برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا جن کی اپنی ایک پہچان رہی ہے اور یہ پہچان عالمی برادری کے لیے امیدافزا بھی ہے اور عالمی امن کے لیے تحفظ کی ضمانت بھی۔
پنڈت نہرو نے مارشل ٹیٹو، جمال عبدالناصر، سکارنو اور کوامے انکرومہ کے ساتھ ناوابستہ تحریک کی بنیاد ’پنچ شیل‘ کے اصول پر رکھی تھی یعنی ایک دوسرے کے علاقوں کی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کیا جائے گا، ایک دوسرے کے خلاف جارحیت نہیں کی جائے گی، ایک دوسرے کے گھریلو معاملوں میں مداخلت نہیں کی جائے گی، دونوں کے مساوی حقوق ہوں گے اور باہمی مفاد کا خیال رکھا جائے گا، بقائے باہم پر توجہ دی جائے گی۔ ناوابستہ تحریک دنیا کے لیے راحت کی طرح تھی۔ وہ ممالک اس سے وابستہ ہو سکتے تھے جن کی امریکہ اور سوویت یونین دونوں گروپوں سے دلچسپی نہیں تھی مگر اس تحریک کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہندوستان کے رشتے امریکہ اور سوویت یونین سے اچھے نہیں تھے۔ جان ایف-کنیڈی پنڈت نہرو کے مداح تھے۔ وہ ذاتی طور پر ان سے متاثر تھے تو سوویت یونین بھی ہندوستان کا دوست تھا مگر چین کے ہندوستان پر حملے کے بعد سوویت کا انداز ہندوستان سے دوست والا ہی تھا، بھائی والا انداز نہیں تھا۔ وہ چین کے خلاف ہندوستان کی مدد کے لیے کھڑا نہیں ہوا، البتہ اس وقت کنیڈی کے امریکہ کی پالیسی واضح تھی۔ یہ وہی وقت تھا جب ناوابستہ تحریک سے وابستگی کا فائدہ ہندوستان کو ملا،یہ ایک سبق ہے کہ دنیا دو گروپوں میں بٹی ہوئی نظر آئے تو پھر کیا کرنا چاہیے۔
یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ گئی ہے کہ سوویت یونین کی افغان جنگ میں امریکہ کا جو رول تھا، کسی حد تک وہی رول امریکہ کی افغان جنگ میں روس کا رہاہے مگر اس وقت کے حالات اور اس وقت کے حالات میں فرق یہ ہے کہ اس وقت امریکہ بڑی حد تک دنیا کی واحد سپر پاور بن چکا تھا اور آج وہ اسی چین کا ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا قرض دار ہے جس سے اس نے ٹریڈ وار چھیڑ رکھی ہے۔ جارجیا، یوکرین اور شام میں روس کے سامنے اس کی ایک نہیں چلی اور روس کا انداز یہ ہے کہ کوئی ملک امریکہ کو مضبوط بنانے کا وسیلہ نہ بنے۔ کواڈ پر روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے ہندوستانپر کیا یوں ہی بیان دے دیا تھا؟ ایسی صورت میں افغان پالیسی پر ہندوستان کو یہ بات واضح کرنی چاہیے کہ ناوابستہ تحریک کے اصولوں کو ہندوستان نے نظرانداز نہیں کیا ہے۔ دنیا کے بدلتے حالات اور وقت کے نئے تقاضوں کی مناسبت سے اس کی اہمیت برقرارہے۔ ہند کی افغانستان پر پالیسی اس کے تشخص کے مطابق ہے، دہشت گردی سے سمجھوتہ نہ کرنے والی اور تعمیری ہے۔ ویسے آج تک ہندوستان کی یہی پالیسی افغانستان میں رہی ہے۔ وہ امریکہ کے مشن کا نہیں، افغانستان کے تعمیری مشن کا حصہ تھا۔ اس کا ثبوت افغان پارلیمنٹ کی عمارت، سلمیٰ ڈیم، سڑکیں اور وہ اسکول ہیں جہاں افغان طلبا و طالبات کو تعلیم دی جاتی رہی ہے مگر ان باتوں کے باوجود دنیا کے حالات کے مدنظر یہ بات بتائی جانی چاہیے کہ ناوابستہ تحریک کی کل ہمارے ملک ہندوستان کے لیے کیا اہمیت تھی اور آج کیا اہمیت ہے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS