ملک سے بغاوت کا قانون

0

عدالت عظمیٰ نے آج اپنے ایک تاریخی فیصلہ میں ملک سے بغاوت کے قانون پر روک لگادی ہے اور مرکز و ریاستی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ جب تک مرکز اس قانون پر نظرثانی کاکام مکمل نہیں کرلیتا ہے تب تک کسی بھی شہری پر ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج نہیں ہوگا ۔
حکومت کی تنقید اور مخالفت کو ملک سے غداری کانام دے کر ظلم و جبر کی لرزہ خیز داستان لکھ رہی مرکز کی مودی حکومت عدالت عظمیٰ کے اس حکم پر کتنا عمل کرتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن عدالت کی جانب سے نوآبادیاتی دور کے اس قانون پر روک کے فیصلہ نے ہندوستان کے جمہور پسند عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا کرنے کی راہ ہموار کردی ہے۔چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کولی کی سہ نفری بنچ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ جب تک مرکز کی طرف سے غداری کی دفعات یعنی تعزیراتی قوانین میں شامل دفعہ 124 الف اور متعلقات پر نظرثانی مکمل نہیں ہوجاتی ہے، حکومتوں کو ان دفعات کا استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ بغاوت کی دفعات کے تحت کوئی نئی ایف آئی آر درج نہیں کی جانی چاہیے اور جو لوگ ان دفعات کے تحت پہلے سے جیل میں ہیں، وہ ضمانت کیلئے عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔آج سماعت کے دوران حکومت نے عدالت عظمیٰ کو اس معاملے میں الگ الگ تجاویز پیش کرکے گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ بہت ہاتھ پیر مارے اور تھک ہار کر آخر میں یہ تجویز بھی رکھی کہ پولیس کو بغاوت کی دفعات کے تحت قابل سماعت جرائم کے اندراج سے روکے جانے کے بجائے دفعہ 124الف کے مقدمات کسی افسرمجاز (سپرنٹنڈنٹ آف پولیس رینک )کی سفارش کے بعد درج کیے جاسکتے ہیں نیز بغاوت کے مقدمات کا ازسرنوجائزہ لے کر ماخوذ ملزمین کو جلدازجلد ضمانت دینے پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔لیکن عدالت عظمیٰ نے حکومت کی اس حیلہ جوئی کو راہ دیے بغیر اس قانون پر تاحکم ثانی روک کا فیصلہ صادر کردیا ۔
ملک سے بغاوت کے اس نوآبادیاتی قانون پرگزشتہ کچھ برسوں سے لگاتار سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ حزب اختلاف مسلسل حکومت پر اس قانون کے غلط استعمال کا الزام لگاتا آرہا ہے اور عدالت عظمیٰ بھی کئی بار اس کی نشاندہی کرچکی ہے ۔ سبکدوش ہونے والے کئی جج حضرات بھی اس قانون کو ختم کرنے کی وکالت کرچکے ہیں ۔حال ہی کے دنوں میں سابق جج جسٹس آر ایف نریمن نے ایک عوامی خطاب کے دوران بھی اسے نوآبادیاتی ذہنیت کا قانون بتاتے ہوئے اسے اظہار رائے کی آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیاتھا اور کہا تھا اب وقت آگیا ہے کہ اس قانون کو ختم کرکے عوام کو اظہار رائے کی مکمل آزادی دی جائے ۔
یہ مسلمہ ہے کہ یہ قانون نوآبادیاتی نوعیت کا ہے اور حکومت اپنے ناقدین کے خلاف اس کا بے محابہ اور ظالمانہ استعمال کرتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو کچلنے کا کام کررہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بغاوت کے اس قانون کے تحت حکومت پر تنقید کرنے والے سیاسی رہنمائوں،سماجی کارکنوں، طلبااور نوجوانوں حتیٰ کہ مزاحیہ فن کاروں تک کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔لیکن طرفہ تماشایہ ہے کہ حکومت ان کے خلاف ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہی ہے اور مقدمات کو طول دے کر ’ ملزمین‘ کی زندگی ضیق بنارکھی ہے ۔ اس کی مثال طالب علم لیڈرعمرخالد اورشرجیل امام جو اظہار رائے کے جرم میں قیدو بند کی صعوبت سے گزررہے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ س بیورو(این سی آر بی)کے مطابق 2015 سے2020کے دوران بغاوت اور غداری کے اس ظالمانہ قانون کے ذیل میں تعزیرات کی دفعہ 124الف کے تحت کل548افراد کو 356مقدمات میں گرفتار کیاگیاہے۔ 6برسوں کے طویل دورانیہ میں ان میں سے صرف7مقدمات میں فقط12افراد کے خلاف ہی حکومت ثبوت پیش کرپائی ہے اوروہ سزایاب ہوئے ہیں۔ غداری کے اس نوآبادیاتی قانون کے تحت 2015میں 30افراد گرفتار ہوئے تھے اس کے بعد سے گرفتاریوں میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا گیا۔ 2016 میں 35، 2017میں51، 2018میں 70، 2019میں 99 اور 2020میں 44افراد کو گرفتار کیاگیا۔ ان گرفتار شدگان کی اکثریت نوجوانوں کی ہے، ان کی عمریں18سے30کے درمیا ن ہیں اور انہوں نے ابھی اپنی عملی زندگی کاآغاز ہی کیاتھا کہ حکومت نے ان پر زندگی تنگ کردی۔ نوآبادیاتی دور کے اس لرزہ خیز قانون کو بہت پہلے ہی ختم کردیاجاناچاہیے تھا لیکن بوجوہ یہ کام نہیں ہوسکا ۔کم و بیش تمام حکومتوں نے اس قانون کا خو ف دکھاکر اپنے مخالفین کامنھ بند کرنے کی کوشش کی لیکن2014 کے بعد سے جس ظالمانہ طریقہ سے نوجوانوں اور خاص کر مسلم نوجوانوں کے خلاف اس قانون کا سیاسی استعمال ہوا ہے وہ کسی جمہوری ملک کیلئے انتہائی شرم ناک ہی کہا جاسکتا ہے ۔
عدالت عظمیٰ نے اس قانون پر عبوری روک لگانے کا حکم دے کر اس کے خاتمہ کی را ہ ہموار کی ہے ۔اب اس پرنظرثانی کے بجائے اسے ختم کرکے ہندوستان میں اظہار رائے کی مکمل آزادی بحال کی جانی چاہیے تاکہ ہندوستان کے عوام کو کھلی جمہوری فضا میسر آسکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS