عوام کی آخری امید

0

اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہندوستان میں ’ کم ہوتی جمہوریت‘ کو سہارا دینے اوراس کے تحفظ میں عدلیہ نے قابل ذکر کردار ادا کیا ہے۔مختلف حوالوں سے ملک کے سپریم کورٹ نے عوام کے حقوق کے تحفظ، جمہوریت اور معاملات میں شفافیت برقرار رکھنے کیلئے تادیبی اور تعزیری اقدامات بھی کیے ہیں۔یوں کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ ’ غیرعلانیہ ایمرجنسی ‘ جیسے ملکی حالات میں عدلیہ ہی عوام کیلئے امید کی آخری کرن بچی ہے۔لیکن جب اسی عدلیہ سے منسلک ایک جج عدلیہ کے ہی فیصلے پر سوال اٹھا دے اور عدم اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے استعفیٰ تک دے دے تواعتماد ڈانواںڈول ہونے لگتا ہے۔
مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سنجیوبنرجی کے تبادلہ پر اعتراض، پھر اس تبادلہ کی حمایت اور مخالفت میں وکلا کے دو گروپ بن کر ایک دوسرے کے خلاف جوتم پیزار پر اتارو ہوجانا اور اختلاف کو عدلیہ کی توہین قرار دیتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ کربیٹھنا نہ صرف عدلیہ کیلئے افسوسناک ہے بلکہ یہ ملک کی جمہوریت اور عوام کی بڑی بدقسمتی بھی کہی جاسکتی ہے۔جب کوئی جج عدلیہ کے فیصلے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے تو نہ صرف عدلیہ کی شفافیت مشکوک ہوجاتی ہے بلکہ پورا نظام عدل سوالوں کے گھیرے میں آجاتا ہے۔ جنوری 2016 میںسپریم کورٹ کے چار معزز جج حضرات نے عوام کی سطح پر آکر میڈیا کے سامنے عدلیہ کی غیرجانبداری پر سوال اٹھائے تھے، پانچ برسوں میں اس واقعہ کی بازگشت تھم گئی تھی لیکن جسٹس سنجیو بنرجی کے تبادلہ کے حکم کے تناظر میں عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال کھڑے ہونے سے واقعہ کی یاد دہانی کے ساتھ ہی لوگوں کو تشویش بھی ہوگئی ہے۔جسٹس بنرجی کے تبادلہ کے معاملہ میں تو کئی ایک سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ ایک طرف مدراس بار ایسوسی ایشن نے ایک قرار داد منظور کی جس میں مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سنجیوبنرجی کے تبادلے کی سفارش کو ’تعزیری‘ (سزا دینے والی) کہاگیا اورکالجیم سے پوچھاگیا کہ ان کی تقرری کے بعد اتنے کم وقت میں اس طرح کے تبادلہ کا حکم کیوں دیاگیا۔ایک جج جو اپنی کارکردگی کیلئے معروف ہو، اس کا یوں کھڑے گھاٹ تبادلہ کردینا غیرشفافیت ہے۔دوسری طرف ’مہم برائے عدالتی احتساب اور اصلاحات‘ (campaign for judicial accountability and reforms)(CJAR)نے بھی اس تبادلہ کو غلط ٹھہراتے ہوئے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے۔
یہ تبادلہ بادی النظر تعزیری تبادلہ ہی محسوس ہورہا ہے۔ جسٹس سنجیوبنرجی نے اس سال 4 جنوری کوچیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تھا اور وہ یکم نومبر2023کو ریٹائر ہونے والے ہیں۔مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے کئی ایسے فیصلے دیے ہیں جن کی عوامی پذیرائی تو ضرور ہوئی لیکن یہ فیصلے حکومت کی نظر میں ناپسندیدہ تھے۔ جسٹس بنرجی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی(انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز اینڈ ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ) رولز 2021 کی دفعات کو اس بنیاد پر روک دیا تھا کہ اس سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کی آزادی اور جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ جسٹس بنرجی نے وبا کی دوسری لہر کے دوران الیکشن کمیشن کو تمل ناڈو میں انتخابات کے دوران مناسب احتیاط نہ برتنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھااور ان کی سربراہی والی بنچ نے کہا تھا کہ کمیشن کے اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔
ایسے میںیہ سوال بجا ہے کہ ایک بڑی ریاست تمل ناڈو سے میگھالیہ جیسی چھوٹی ریاست میں تبادلہ کیوں کیاگیا، اس کی کیا انتظامی ضرورت تھی۔ اہمیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دونوں ریاستوں کا کوئی موازنہ نہیں ہے کیوں کہ تمل ناڈو ایک بڑی ریاست ہے جہاں بڑی تعداد میں اہم مقدمات آتے ہیںا ور 75ججز تعینات ہیں جب کہ میگھالیہ میں ججوں کی تعداد صرف3ہے اور مقدمات کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔بار ایسو سی ایشن اورCJAR کا یہ سوال بھی جواب کا منتظر ہے کہ چیف جسٹس نے جب کسی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ اپنا کام مہارت سے کیا تو ان کا چند مہینوں میں ہی تبادلہ کیوں؟ کیا اس سے یہ نہیں سمجھاجاسکتا ہے کہ تبادلہ اس لیے ہوا کہ کسی کو ان کا فیصلہ پسند نہیں آیا؟
حالیہ دنوں میں جس طرح گجرات سے لے کر راجستھان تک، تمل ناڈو سے لے کر پنجاب اور مغربی بنگال تک ججوں کے تبادلوں کے پے در پے فیصلے ہوئے اس نے باشعور سول سوسائٹی کو حیران کردیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں سے قلیل مدت میں ہی کسی جج کا تبادلہ کردیا جانا نظام انصاف کیلئے ہمیشہ ہی نقصان دہ ثابت ہوا ہے اور اس طرح کے تبادلے عدلیہ کی آزادی کیلئے بھی سازگار نہیں کہے جاسکتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب طاقت اور قوت کے بتدریج ارتکاز سے اداروں کی بقا دائو پر لگی ہوئی ہو، عدم مساوات اور نفرت کی لہر نے پورے معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہوا ور سماج کا ایک بڑاطبقہ اپنے حقوق سے محرو م ہو تو عوام کی نگاہیں عدالت کی جانب ہی اٹھتی ہیں۔ عدالت کی شفافیت اور غیرجانبداری کو ہر طرح کے شکوک و شبہات سے بالاتر ہوناچاہیے بصورت دیگر عوام کی آخری امید بھی دم توڑ جائے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS