مسلم محمود
رزق انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔یوں تو انسان کی رزق کی تلاش دنیامیں آتے ہی شروع ہوجاتی ہے، جس کا اعلان نومولود بچہ اپنے رونے سے کرتاہے۔ پھر یہ تلاش تاحیات جاری رہتی ہے جو کہ ایک فطری عمل ہے، لیکن زندگی کا محور رزق ہی بن جانا صحیح نہیں۔ کیوںکہ انسان کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی عبدیت اور عبادت کے لیے تخلیق کیا ہے نہ کہ رزق کی جستجو میں اپنے مقصد حیات سے غافل رہ جانے کے لیے۔ رزق کی فراہمی اور اس میںبرکت کے لیے قرآن و حدیث میں ہم کو مکمل رہنمائی ملتی ہے جو رزق کی کنجیوں کے حوالے سے مندرجہ ذیل عنوانات میں پیش خدمت ہیں:
توبہ و استغفار: اللہ سبحانہ تعالیٰ کو رزاق ماننے کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ وہ ہم سے راضی ہو۔ دانستہ اور غیردانستہ غلطیوں کے لیے ہم اللہ سے سچی توبہ کریں اور مغفرت مانگتے رہیں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان صبح وشام اللہ کی نافرمانی کرے اور رزق میں اُسی سے اضافہ اور برکت کی امید رکھے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں : ’’ اپنے رب سے معافی مانگو وہ بے شک معاف کرنے والا ہے۔ وہ آسمان سے تم پر خوب بارشیں برسائے گا۔ تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لے نہریں جاری کردے گا۔
حضرت عمرؓ سے لوگوں نے بارش کی دعاء کرنے کیلئے کہا۔ آپؓ باہر تشریف لائے،استغفار کیا ، واپس چلے گئے۔ بارش شروع ہوگئی۔ آپ سے لوگوں نے پوچھا، آپ نے صرف استغفار کیا تو حضرت عمرؓ نے مندرجہ بالا آیات کی تلاوت کی اور فرمایا میں نے اللہ کے اسی حکم پر عمل کیا۔
توکل: اللہ پر مکمل اعتقاد اور یقین کامل کہ ہماری کاوش کے بعد رزق کا عطا فرمانے والا صرف اللہ ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’ ہر اس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ، جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا اور ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا دھیان بھی نہ جاتا ہو۔‘‘ (سورۃ الطلاق، آیت: 2,3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم اللہ پر اسی طرح بھروسہ کرو جیسا کہ کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو اسی طرح رزق دے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیتا ہے۔‘‘(المسند)
عبادت: اگر انسان اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عبادت کا حقیقی حق ادا کرتا ہے اور رزق کی جستجو میں عبدیت کی ذمہ داری سے غافل نہ ہوجائے تو ایسے شخص کو اللہ بھی فراموش نہیں کرے گا۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث نشان دہی کرتی ہیں:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابن آدم! میری عبادت کے لیے فارغ ہوجاؤ، میں تیرے دل کو بے نیازی سے بھر دوں گا اور تیرے دونوں ہاتھوں کو رزق سے ۔اے ابن آدم! تو مجھ سے دور نہ جا، اگر ایسا کرے گا تو میں تیرے دل کو محتاجی سے بھر دوں گا اور تجھے بے کار کاموں میں الجھا دوں گا۔‘‘
حج و عمرہ: حج اور عمر ہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ رزق میں برکت اور رحمت عطا فرماتا ہے اور انسا ن کے گناہ معاف کردیتا ہے جیسے نوزائیدہ بچہ گناہوں سے پاک پیدا ہوتاہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’ حج اور عمرہ ایک دوسرے کے بعد ادا کیا کرو، کیوں کہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی سونے چاندی اور لوہے کے میل کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔‘‘ (سنن نسائی)
صلہ رحمی: رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک رزق میں اضافہ اور برکت کا باعث بنتا ہے۔ حسن سلوک ہر قریب اور دور کے رشتہ دار کے ساتھ روا رکھا جائے۔ بغیر اس تفریق کے کہ کون ہمارے ساتھ اچھا ہے اور کون برا ہے۔ اس لیے کہ ہمارا عمل اپنے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہے اور اسی سے ہم کو اس کا صلہ چاہیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص عمر میں اضافہ چاہے اور رزق میں کشادگی تو وہ صلہ رحمی کرے۔ ‘‘’’نیکیوں میںسب سے جلد ثواب صلہ رحمی کا ملتا ہے، یہاں تک کہ کوئی نافرمان گھرانا اور اس کے لوگ صلہ رحمی کرتے ہیں تو اللہ سبحانہ تعالیٰ ان کے مال اور افراد میں اضافہ کرتا ہے۔ صلہ رحمی کرنے والے کبھی محتاج نہیں ہوتے۔‘‘
اللہ کی راہ میں خرچ کرنا: اللہ کی راہ میں حسب حیثیت خرچ کرنے کے عمل سے بھی رزق میں اضافہ ہوتا ہے اور برکت ہوتی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کے مال میں کوئی کمی نہیں آتی، کیوں کہ جو مال ایک انسان دوسرے انسان پر خرچ کرتاہے وہ دوسرے انسان کے لئے پہلے انسان کے رزق میں اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔اللہ سبحانہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں: ’’تم اللہ کی راہ میں جو خرچ کروگے وہ اس کا بدلہ دیں گے اور وہ بہترین رزق دینے والے ہیں۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ اے ابن آدم! تو بندوں پر خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ہر دن جس میں لوگ صبح کرتے ہیں،دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ، ایک دعاء کرتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے والوں کو بہتربدل عطا فرما۔ دوسرا دعاء کرتا ہے کہ جو نہ خرچ کرے اس کا مال تلف کرے۔‘‘(صحیح بخاری)
احسان: اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہم پر بیش بہا احسانات فرمائے ہیں اور اس کو پسند ہے کہ ہم بھی دوسروں کے ساتھ خالص اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے بے لوث احسان کریں اور اس کے سب سے زیادہ حق دار کمزور، ناتواں اور بے آسرا افراد ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تمھاری مدد تمھارے کمزوروں کی وجہ سے کی جاتی ہے اور انہیں کی وجہ سے تم کو رزق ملتا ہے۔‘‘
ہجرت کرنا:رزق حلال کی تلاش کے لیے ہجرت کرنا رزق میں اضافہ اور برکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ اگر رزق کے وسائل کسی مقام پر محدود ہوں تو دوسرا شہریا دوسرا قریہ جاکر محنت کرنا اس بات سے بہتر ہے کہ انسان ایک جگہ محدود ہوکررہ جائے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: ’’ اور جوکوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں پناہ لینے کی بہت جگہ اور بسر اوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا۔‘‘ (سورۃ النساء، آیت: 100)
آخرت پر نظر: انسان کا مقصد حیات اللہ کی عبادت کرنا اور اپنی عاقبت سنوارنا ہے اور اسی پر اس کی نظر ہونی چاہئے۔ یہ دنیا تو چند روزہ ہے اور اس کو ختم ہونا ہی ہے۔ انسان ابدی زندگی کو اپنا مطمح نظر بنائے، کیوں کہ دنیا ایسے شخص کے خود پیچھے آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس شخص کی آخرت پر نظر ہو اس کے دل کو اللہ قناعت عطا فرماتے ہیں، اس کے بکھرے ہوئے معاملات کو سمیٹ دیتے ہیں اور دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی سے مفلسی کو کھینچ لیتے ہیں۔ دنیا اس کے پاس حقیر ہوکر پیچھے آتی ہے، اس کی صبح و شام قناعت پر ہوتی ہے۔‘‘
نکاح: رزق میں اضافہ اور خوش حالی کے حصول کی ایک کنجی نکاح ہے۔نکاح کرنے سے دو نصیب جڑتے ہیں اور اللہ رزق میں اضافہ و برکت عطا فرماتا ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں جو صالح ہون ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا ۔ اللہ بڑی وست والا اور علیم ہے۔‘‘
صبح سویرے کام پر نکلنا:صبح سویرے کام کے لیے گھر سے نکلنے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے خیر وبرکت رکھی ہے۔ رزق کے دروازے صبح اٹھ کر کوشش کرنے والوں کیلئے ہی کھلتے ہیں۔ اللہ کے رسول ؐ نے دعا فرمائی کہ ’’ اے اللہ میری امت کے منہ اندھیرے نکلنے والوں کو برکت عطا فرما ۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فوجی دستہ صبح سویرے روانہ فرمایا کرتے تھے۔
تجارت میں سچائی:تاجر کے رزق میں برکت اور اضافہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ تجارت میں سچ بولے۔ اپنا مال جھوٹ بول کر نہ بیچے، اپنے مال کی کمزوری بتاکر بیچے۔ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی سے پرہیز کرے۔سچے تاجر کیلئے قیامت کے دن انبیاء اور صدیقین کی ہمراہی کی خوش خبری دی گئی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ کوئی چیز فروخت کرے اور اس میں جو کچھ عیب ہو اسے بیان نہ کرے اور جسے اس عیب کا علم ہو اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ اس کو بیان نہ کرے۔‘‘
مندرجہ بالا رزق کی کنجیوں کے علاوہ آسان اور روز مرہ کی زندگی پر منحصر عمل مندرجہ ذیل ہیں:
۱- سلام کہہ کر گھر میں داخل ہونا۔۲- نماز کیلئے مسجد جانا، جماعت سے نماز پڑھنا۔۳- مریض کی عیادت کو جانا۔
۴- جنازے کے ساتھ جانا۔۵- حق بات کرنا۔
۶- غیبت نہ کرنا۔ وغیرہ وغیرہ۔