دی کشمیر فائلز،،انسان انسان کے درمیان نفرت کی بیج بونے کی کوشش ۔کشمیری پنڈتوں کی زبانی  حقیقی  زندگی کی کشمیری کہانی_ &&

0

فلم انڈسٹری کہ غیر روایتی غیر منصفانہ اور  جانبدارانہ ،،دی  کشمیر فائلز ،، فلم کے کرداروں  نے  اہل ہوش و گوش کے کان کھڑے کر دیئے ہیں کہ فلم انڈسٹری جس کا کام سماج و معاشرہ کی عکاسی اور بھائی چارے کو فروغ دینا  تھا وہ کس ڈگر  اور کس کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔دی  کشمیر  فائلز،، کے اداکار چاپلوسی ایک طرفہ حقائق  کو پیش کر  اپنے آقاؤں  کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے اداکار اپنے ایجنڈا نفرت پھیلانے میں کامیاب نظر آ رہے ہیں۔فلم میں تو کشمیری پنڈتوں پر ہونے والے تشدد ومظالم کی عکاسی کی گئی ہے  اور نظر انداز  شدہ خونی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔لیکن من جملہ فلم کو اسلامو فوبیا کے ہی تناظر میں پیش کیا گیا ہے ۔اس کی واضح دلیلیں موجود ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی سمیت کئی ہم نظریہ وزراء نے اس کی تعریف کی یے۔ اور بی جے پی والی ریاستوں میں اس پر عائد ہونے والی ٹیکس سے راحت  بھی دی گئی ہے ۔جبکہ مدھیہ پردیش  ریاست میں پولس اہلکار کو فلم دیکھنے کے لئے ایک دن کی چھٹی کا بھی اعلان کیا  گیا ہے ۔جیسا کہ یہ فلم نہیں دیش بھکتی کی کوئی سچا واقعہ ہے فلم فلم ہوتی ہے_ کچھ جھوٹ کچھ سچ_فلم نہ حقیقت ہوتی ہے نہ سچائی _ فلم فلم ہوتی ہے_ منورنجن،وقت کاٹنے کا ذریعہ،تھکے ہوئے ذہن کو بہلانے کا ذریعہ ہوتا ہے_لیکن آج تو فلم کو مذہب بنا دیا گیا ہے_ فلم فلم نہ رہا بلکہ مذہب ہوگیا ہے_ جو بھی اس فلم کے خلاف آواز اٹھائے گا مذہب سے کٹ جائے گا_انسانیت سے ہٹ جائے گا_فلم کیاہے ؟ نفرت کی آ گ ہے،جو شلعہ بھڑکانے کا کام انجام دے گا_اس کا انجام خون ہی خون، لاش ہی لاش اور ان لاشوں پر سیاسی کرسی کا چمتکار  ہی چمتکار دکھلائ دے گا_ اس سے ہندوستانی انسانوں کو کیا ملے گا_بھائ کی موت،گھر کی تباہی،عورتیں بیوہ،بچے یتیم لیکن سیاست داں کرسی پر برجمان۔
۱۹ جنوری ۱۹۹۰ کو لاکھوں کشمیری پنڈتوں کو گھر چھوڑنے کے وقت مرکز میں حکومت بی جے پی کی زیر حمایت  وشو پرتاپ سنگھ  کی تھی۔اور جموں وکشمیر کے گورنر آر ایس ایس کے محبوب جگ موہن صاحب تھے۔لیکن اس مفاد پرست انسانیت دشمن حکومت نے اس وقت سے لے کر مرکز میں دوبارہ واپسی ہی نہیں تا حال برسر اقتدار بھی گھر بار چھوڑے ہزاروں پنڈتوں کو گھر واپس نہ کرا سکی_ دھارا 370 ہٹانے کے باوجود پنڈتوں کو اپنے گھر واپس نہ لاسکی  تواپنے اس ناکامی کو چھپانے کے لئے جھوٹ پر مبنی فلم تو بنوا سکتی ہے _؟ اور سچائی کو چھپانے کےلئے اپس میں لڑوا تو سکتی ہے؟ تاکہ ان پر کوئی الزام نہ ائے ؟ سارے الزام مذہب اسلام کے ماننے والے مسلمانوں پر لگاتے ہوئے اپنے ووٹ بیکنگ کے لئے داستان فرسودہ کو خلط ملط غیر حقائق کو حقائق بنوا کر برادران وطن کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے ،نہ کہ کشمیری پنڈتوں کے درد پہ مرہم لگانا چاہتی ہے۔
فلم کی حقیقت کشمیری پنڈتوں کی ہی زبانی (بی بی سی نیوز ہندی کے مطابق) سنیئے ایک کشمیری پنڈت بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ فلم ۲۰۲۴ کے الیکشن کی تیاری ہے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ جہاں جایئں گے وہاں کہیں گے، دیکھیئے کشمیری پنڈتوں کے ساتھ کیا ہوا ہے۔گھر بار اجاڑنے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت عام مسلمان نہیں تھے  مسلمانوں کو بھی مارا گیا ہے۔اس طرح کے پکچرز بنانے سے دوریاں ہی پیدا ہوں گی۔پکچرز بننے سے نہ ہماری گھر واپسی ہوگی ،نہ ہمارے دیش کا سمادھان ہوگا اور نہ ہی ہمارے  کشمیر کا۔۱۹۹۰ سے لے کر آج تک ہمیں پولیٹیکل اسو پیپر کی طرح یوز کیا گیا ہے۔اس فلم سے جو ابھی تک ہم نے اپنی دوریوں کو پاس لانے کی کوشش کی تھیں وہ اب اس سے مزید دوریاں پیدا ہوں گی۔ جبکہ ایک پنڈت کہتے ہیں،، یہ فلم یکطرفہ بنائ گئ ہے جو صرف ہمارے ہی کاسٹ کو اجاگر کر رہی ہے۔
جبکہ ایک اور پنڈت کہتے ہیں جو کشمیری ہندوستانی مسلمان ہیں انہیں بھی مارا گیا لیکن اسے نہیں دکھایا گیا ہے۔ان کشمیری پنڈتوں کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ فلم غیر حقائق احوال، سیاسی مفادات اور اکثریت کے جذبات کو مسلمانوں کے خلاف لگاتار مشتعل کرنے پر مبنی ہے۔ فلم ساز ،اداکار ملک میں امن یکجہتی اور رواداری کے فروغ کے بجائے حصول زر و زیور، حب جاہ و حشمت کی لالچ میں آپسی بھائی چارہ، ہم آہنگی ، ملک کی سالمیت اور گنگا جمنی تہذیب کو نفرت کی آگ میں جھونکنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جو ایک جمہوری حکومت کے عین مقاصد کے سراسر خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ فلم انڈسٹری پر ایک بد نما داغ ہے۔ اگر ملک میں نفرت کی آگ لگی تو اس کا خمیازہ فی الحال نہیں تو مستقبل قریب میں ہی فلم انڈسٹری کو  بھی بھگتنا پڑے گا۔لیکن اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوگی کہ جمہوری نظام کے سربراہان  نفرت انگیز مواد پر مشتمل فلم  دیکھنے کے لئے کہیں ٹیکس سے راحت دے رہے ہیں تو کہیں سرکاری ملازمین کو ایک دن کی چھٹی دے رہے ہیں تو کہیں فلم ٹکٹ کے خرچ اٹھائے جا رہے ہیں ۔،، دی کشمیر فائلز ،، فلم کے اداکار اپنے نقطہ نظر سے ملک میں کشت و خون کا ہی میدان گرم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
فلم کے سارے روداد اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ فلم واقعی صد فیصد  سیاسی مفادات کے پیش نظر ایک پارٹی کے  مفاد  خاصہ میں ہے۔ اور فلم انڈسٹری کے  اداکار اداکار نہیں ایک سیاسی پارٹی کے بندھوا مزدور ہیں جو اپنے آقا کے حکم کی اطاعت میں قومی اور ذاتی انجام  سوچے بغیر سر خم کیئے ہوئے ہیں۔
جبکہ اس فلم سے برادران وطن اتنا متاثر ہو رہے ہیں کہ انہیں  فلم کی حقیقت  بھی،، کشمیری پنڈتوں،، کی زبانی بھی نہیں سمجھ آرہی ہے۔

کوثر علی
ہینسوا، بتیا بہار 
9801997177
[email protected]

DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of
information contained.
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS