پرانی لکیر سے ہٹ کر اپنی نئی لکیر کھینچنا وزیراعظم نریندر مودی کی ایسی خوبی رہی ہے جو ان کے حمایتیوںکے ساتھ ساتھ مخالفین کو بھی ان کا قائل بناتی ہے۔ وزیراعظم کے طور پر گزشتہ 8سال کی مدت کار میں وہ اس کے کئی ثبوت بھی دے چکے ہیں۔ تقریباً تین سال قبل وزیراعظم نے ایسا ہی ایک فیصلہ لیا تھا جسے خالص طور پر ’نئی لکیر کھینچنے والے زمرے‘ میں رکھنا شاید معقول نہیں ہوگا، لیکن اسی فیصلہ کے نتائج آج ’نئی لکیر‘ کھینچنے والے ضرور ثابت ہورہے ہیں۔
بات مئی 2019کی ہے، جب اپنی دوسری مدت کار میں وزیراعظم نے نوکرشاہ سبرامنیم جے شنکر کو وزیرخارجہ کے طور پر مقررکرکے سبھی کو حیرت زدہ کردیا تھا۔ بیشک جے شنکر چار سال سے خارجہ سکریٹری جیسا اہم عہدہ سنبھال رہے تھے، چین اور امریکہ میں سفیر جیسے معزز عہدوں کا تجربہ بھی حاصل کرچکے تھے اوروزارت خارجہ کی قیادت کرنے کے لیے سب سے موزوں شخص تھے، لیکن وزارتی عہدہ شاید ان کے لیے بھی حیرانی کی بات رہی ہوگی۔ بطور نوکرشاہ اپنا کریئر پورا کرنے کی جانب بڑھ رہے جے شنکر نے تو ایک کتاب لکھنے کی تیاری شروع کردی تھی جو بعد میں سال 2020میں ’دی انڈیا وے:اسٹریٹیجیزفار این انسرٹین ورلڈ‘ نام سے دنیا کے سامنے آئی۔
عام طور پر وزیرخارجہ جیسے اہم عہدہ پر بیٹھے شخص کے ذہن و دل میں کیا ہے، یہ جان لینا آسان نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کا ماضی میں نوکرشاہ ہونا، اس چیلنج کو مزید ٹیڑھی کھیر بنادیتا ہے۔ لیکن جے شنکر کی لکھی یہ کتاب ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتی ہے کہ وہ کس مٹی کے بنے ہیں اور کیسے وہ اعلیٰ ترین طریق کار والے معیار کی علامت بن چکے وزیراعظم کی امیدوں پر کھرے اترکر آج عالمی اسٹیج پر ہندوستانی سفارت کاری کے مستحکم اور مضبوط نمائندے بن گئے ہیں۔ ان کی کتاب میں لکھی ایک خاص بات یہ ہے کہ عالمی نظام میں آج ہندوستان کا اثر مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس لیے ہمیں نہ صرف اپنے مفادات کے تئیں واضح ہونا چاہیے، بلکہ انہیں مؤثر طریقہ سے انجام بھی دینا چاہیے۔ وزیرخارجہ کے طور پر ایس جے شنکر نے گزشتہ تین سال میں اسی سوچ کو بھرپور کامیابی کے ساتھ سچ بناکر دِکھایا ہے۔ بھلے ہی آج بھی ہم یہ کہنے کی حالت میں نہ ہوں کہ ہماری سفارت کاری نے عالمی اسٹیج پر اپنا سکہ جمالیا ہے لیکن یہ دعویٰ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ 1971کی بنگلہ دیش جنگ کے بعد ہندوستان پہلی مرتبہ دنیا کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوا ہے کہ اس کی بھی قومی مفادات سے ترغیب یافتہ ایک آزاد خارجہ پالیسی ہے اور مغربی ممالک اسے اپنی کٹھ پتلی سمجھنے کی غلط فہمی میں نہ رہیں۔
وزیرخارجہ کے طور پر ایس جے شنکر نے حالیہ ہفتوں میں غیرملکی لیڈروں سے بات چیت میں دیگر ایشوز کے ساتھ ہی خاص طور پر روس-یوکرین جنگ پر جس صاف گوئی کے ساتھ اہم تبصرے کیے ہیں، شاید ہندوستان کے موقف کا اس سے بہتر طریقہ سے اظہار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ روس سے سستا ایندھن خریدنے اور یوکرین پر حملہ کے لیے اس کی مذمت کرنے کو لے کر ہندوستان پر بنے دوطرفہ دباؤ کو حقائق اور دلائل پر مبنی ان کے جرأت مندانہ عمل نے دور کرنے کا کام کیا ہے۔ نہ تو یوروپی یونین کے ممالک پابندیوں کے باوجود روس سے توانائی کے وسائل کی خریداری جاری رکھنے پر کوئی واجب صفائی دے پائے، نہ ہی مسئلہ کے حل کے طور پر روس کی مذمت یا اس کی سیاسی-اقتصادی علیحدگی کی اہمیت پر ناٹو کے ممالک ہندوستانی سوالات کی کوئی کاٹ ڈھونڈ پائے۔ روس سے دوستی پر جھلائے امریکہ نے جب مبینہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا ایشو اٹھاکر ہندوستان کو اَن کنفرٹیبل کرنے کی کوشش کی، تب بھی جے شنکر نے ذاتی مفادات، لابی اور ووٹ بینک کا حوالہ دیتے ہوئے امریکہ میں حقوق انسانی پر رائے قائم کرنے کی ہندوستان کی آزادی کی بات کہہ کر اسے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ رائے سینا ڈائیلاگ میں بھی جب بار بار ’اصولوں پر مبنی احکام‘ کی آڑ لے کر انہیں روس-یوکرین جنگ پر موقف واضح کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے گزشتہ10برسوں میں ایشیا میں افغانستان کے حالات، ایل اے سی پر چینی دراندازی اور دہشت گردی کے اسپانسر پاکستان پر غیریقینی اسٹینڈ سے ہندوستان کے چیلنجز میں اضافہ کا حوالہ دے کر ایک منجھے ہوئے سیاستداں کی طرح مغرب کی مکاری کی پول کھول کر رکھ دی۔
پیچیدہ معاملات کے کامیاب اور کارگر حل تلاش کرنے کی ایس جے شنکر کی خوبی نے حالیہ دنوں میں ہندوستان کو پریشانی کا سبب بن رہے اپنے پڑوسیوں پر بھی سبقت حاصل کرنے میں مدد کی ہے۔ جے شنکر چین میں سب سے طویل عرصہ تک خدمت دینے والے ہندوستانی سفیر رہے ہیں اور اس تجربہ کا اثر یہ ہے کہ سفارتی محاذ پر اس چالباز پڑوسی کو پست کرنے کے لیے ان کے پاس ہمیشہ کوئی نہ کوئی سٹیک حکمت عملی تیار ملتی ہے۔ چین کی ہڑپ پالیسی کی گرفت میں آئے مالدیپ، سری لنکا اور نیپال جیسے ممالک کو اہم مواقع پر انسانی سے لے کر معاشی مدد پہنچا کر ہندوستان ان ممالک سے فاصلے کم کرنے اور انہیں چین سے دور کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوا ہے۔ ڈوکلام پر معاہدہ کے باوجود ایل اے سی پر پیوپلس لبریشن آرمی کا جماوڑا بڑھانے پر ہندوستان کے سخت ردعمل سے تو چین خود سکتے میں ہے۔ یوکرین جنگ کے پس منظر میں چینی وزیرخارجہ وانگ یی کے ہندوستان دورہ پر جے شنکر کی صاف گوئی نے چین کی رنگت کو مزید پھیکا کردیا ہے۔ روس پر سخت مغربی پابندیاں اور امریکہ سے چل رہی چین کی اقتصادی سرد جنگ کے بیچ وانگ کا یہ دورہ ظاہری طور پر ہندوستان سے تعلقات سدھارنے کے لیے تھا لیکن جے شنکر نے وانگ کو بغیر کسی لاگ لپیٹ کے واضح طور پر جتا دیا کہ ہند-چین تعلقات ’اب عام نہیں ہیں‘ اور اس بات کو تو خاص زور دے کر کہا کہ جب تک ایل اے سی پر چینی فوجیوں کی بہت بڑی تعداد میں تعیناتی رہے گی، تب تک نہ سرحد کے حالات اور نہ دونوں ممالک کے تعلقات ’معمول‘ پر آسکیں گے۔ بچا پاکستان، تو وزیرخارجہ کے طور پر جے شنکر نے کامیابی کا پہلا جھنڈا تو اسی کا شکار کرکے گاڑا تھا۔ جموں و کشمیر میں آرٹیکل370 ہٹانے سے لے کر شہریوں کے حقوق کے قانون پر ہندوستانی سفارت کاری کے سبب بین الاقوامی محاذ پر ’نوحہ‘ کرنے کے باوجود پاکستان کو دنیا بھر میں آنسو پوچھنے والا کوئی ہمدرد نہیں ملا۔ مسلم ممالک تک نے اس سے کنارہ کرلیا۔ یہ وہ وقت تھا جب وزیرخارجہ کے طور پر جے شنکر صبح کا ناشتہ ایک ملک میں کررہے تھے، لنچ دوسرے ملک میں اور ڈنر تیسرے ملک میں۔ اس محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک آدھ ملک کو چھوڑ کر تقریباً پوری دنیا نے اس معاملہ میں ہندوستان کے ’اندرونی ایشوز‘والے اسٹینڈ کی حمایت کی۔ مخالفت کررہے ترکی-ملیشیا جیسے ممالک اور پرمیلا جے پال جیسے امریکی ممبران پارلیمنٹ کو جواب میں سخت ردعمل دینے میں بھی دیر نہیں لگائی گئی۔
غیرممالک میں قابل اعتماد طریقہ سے ملک کا موقف رکھنے کے ساتھ ہی جے شنکر گھریلو محاذ پر حکومت کا بھی زوردار انداز میں بچاؤ کرتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب کئی ہندوستانی لیڈر یا تو اپنی لاعلمی یا کسی ایشو کا سیاسی کرن کرکے ہندوستان کے مخالفین کو جانے انجانے فائدہ پہنچاتے ہیں، تب جے شنکر کی صاف گوئی ہندوستان کے کام آتی ہے۔ حکومت کی پالیسیوں کو چین اور پاکستان کی بڑھتی قربت کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے والے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے الزام کے جواب میں جے شنکر نے پوری سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ مشورہ دیا کہ راہل گاندھی کو ’تاریخ کے سبق‘ کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کے سیاسی طبقہ کو ہندوستان کی قومی سلامتی کو متاثر کرنے والے ایشوز پر تبصرہ کرنے سے پہلے بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ کو جاننا ہوگا۔
ہندوستان اور اس کی پالیسیوں کو ایک ٹھوس طریقے سے سمجھانے کی ایس جے شنکر کی اسی صلاحیت نے امریکہ، یوروپی یونین، جاپان، آسٹریلیا اور کئی دیگر ممالک کو یوکرینی ایشو پر ہندوستان کی پالیسیوں اور حالات کے ساتھ ساتھ موجودہ عالمی نظام کے دیگر اہم واقعات کو سمجھنے اور ان کی سراہنا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس صورت حال کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ مودی حکومت کا عروج ہندوستان کے جرأت مندانہ موقف کو سامنے لانے کی اہم وجہ بنا ہے۔ پی ایم مودی کا اپنا پرزور انداز اور خوداعتمادی سے خود کو پیش کرنے کا رہا ہے، لیکن ایک وزیراعظم کے طور پر خود کو پیش کرتے ہوئے انہیں سفارتی حدود کا لحاظ بھی کرنا ہوتا ہے۔ جے شنکر اپنی صاف گوئی سے کامیابی کے ساتھ اس کی تلافی کرتے ہیں۔ یہ ان کی سمجھ اور صاف گوئی کا ’نور‘ ہے جو انہیں نریندر مودی جیسے لیڈر کی ٹیم میں وزیرخارجہ جیسے اہم عہدہ کا سب سے اچھا متبادل اور ہندوستانی خارجہ پالیسی کی جے-جے کار کے زیادہ تر کریڈٹ کا حق دار بناتا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
خارجہ پالیسی کی ’جے‘ کار
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS