خواجہ عبدالمنتقم
انگریزی کا مقولہ ہے’Tomorrow never comes’لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔کل ہمیشہ آتا ہے اور یہ کل یعنی 10 دسمبر کوبھی آئے گا اور پوری دنیا اسے یوم انسانی حقوق کی شکل میں منائے گی۔ یہ و ہ تاریخی دن ہے جب انسانی حقوق کی مہم کو، جو باقاعدگی سے یو این چارٹر کے ساتھ شروع ہوئی تھی، اس وقت سب سے بڑی کامیابی ملی تھی جب اقوام متحدہ نے 10دسمبر 1948 کو انسانی حقوق کی تاریخ میں میل کے پتھر کی حیثیت رکھنے والی دستاویز ’انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ‘ منظو ر کیا تھا اور اس اعلامیہ کی منظوری کے بعد انسانی حقوق کے تحفظ اور حصول کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر آگئی تھی۔ یہ ذمہ داری اقوام متحدہ نے کافی حدتک نبھائی تو مگر ایک محروم دنداں ادارے کی طرح۔جس ملک نے چاہا اس کی بات مان لی ،جس نے چاہا نظر انداز کر دیا۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھیکمزور اور مجبور انسان ظلم وستم، ناانصافی، جبروتشدد اور استحصال واستبداد کا نشانہ بن رہے ہیں کبھی کسی شکل میں تو کبھی کسی شکل میں۔ آج بھی بہت سے انسان جانوروں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ خود ہمارا سپریم کورٹ کتنے ہی معاملوں میں یہ فیصلہ دے چکا ہے کہ باوقار زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اگر کسی انسان کو معیاری زندگی میسر نہیں تو اس کے وجود کو Animal existence کہا جائے گا۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس پرآشوب دور میں انسانی حقوق ہی کسی حد تک بنی نوع انسان کو ہرسطح پر، خواہ وہ انفرادی ہو، اجتماعی یا عالمی، مربوط کیے ہوئے ہیں ورنہ انسانی زندگی کا تحفظ تو کیا اس کا وجود بھی خطرے میں پڑجاتا۔ انسانی حقوق کا وجود انسان کے ساتھ ہی وجود میں آگیا تھا لیکن یہ بات دوسری ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ترجیحات بدلتی رہیں۔ دور حاضر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا ملک مہذب ممالک کی صف میں نہیں کھڑا ہوسکتا ہے۔
انسانی حقوق وہ حقوق ہیں جو تمام انسانوں کو جنم سے مرن تک ہر جگہ اور ہر وقت برابر کی بنیاد پر حاصل ہونے چاہئیں۔ بقول سپریم کورٹ کے سابق جج کرشنا ایر ان حقوق کا تو انسان Womb سے Tomb تک حقدار رہتا ہے۔ انھوں نے اپنی اس رائے کا اظہار انسانی حقوق اور خواتین کے موضوع پر بحث کے دوران کیا تھا۔ فاضل جج کا یہ فرمانا بالکل درست ہے لیکن اب انسانی حقوق کا دائرہ تو اس سے بھی زیادہ وسیع ہوچکا ہے۔ عزت سے جینا اور عزت سے مرنا دونوں ہی انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔کسی کو تشدد کا نشانہ بنانا یا انسانیت سوز حرکات کے ذریعہ اس کی جان لینا تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ہی مگر مرنے کے بعد بھی کسی کی لاش یا میت یا اس کی قبر کی یا اس جگہ کی جہاں اسے دفن کیا گیا ہے یا نذرآتش کیا گیا ہے یا جہاں کسی قسم کی آخری رسوم ادا کی گئی ہیں، بے حرمتی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا بہت سے لوگوں کا یہ کہنا کہ انسانی حقوق انسان کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں بجا نہ ہوگا۔ جس طرح انسانی حقوق کی اہمیت انسانی زندگی کے خاتمہ کے بعد بھی، اگرچہ محدود حد تک، باقی رہتی ہے بالکل اسی طرح انسانی حقوق تو انسانی زندگی کے اس دنیا میں رونما ہونے سے قبل ہی (یعنی کسی کی پیدائش سے قبل ہی) وجود میں آجاتے ہیں۔ مثلاً ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اگر اس بچے کی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے جس نے ابھی جنم نہیں لیا ہے تو اس کی بابت یہ کہا جائے گا کہ اس کی حفاظت نفس کا بنیادی حق اس کی صحت کو ہونے والے ضرر کی حد تک متاثر ہوا ہے۔ اس بچے کی جانب سے کوئی بھی شخص آئین کی دفعہ 32 یا 226 کے تحت بالترتیب سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔انسانی حقوق براہِ راست تو صرف انسانوں کو ہی حاصل ہیں لیکن انسانوں کے توسط سے یہ حق جانوروں اور پرندوں کو بھی حاصل ہوگئے ہیں۔ اگر جانوروں یا پرندوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا جاتا ہے تو ہمارے ملک میں جانوروں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کا انسداد ایکٹ،1960 کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔
انسانی حقوق کی تعریف مختلف نقطۂ نظر سے کی جاسکتی ہے جیسے انفرادی، اجتماعی، اخلاقی، قانونی، سیاسی، معاشرتی، معاشی،تاریخی ، بین الاقوامی و مذہبی نقطۂ نظر (حقوق العباد کی شکل میں)۔ انسانی حقوق تحفظ ایکٹ، 1993 میں جو انسانی حقوق کی تعریف کی گئی ہے وہ ایک نہایت جامع تعریف ہے اور اس کو وضع کرتے وقت متذکرہ بالا تمام نظریات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا، اگر اس تعریف کو بین الاقوامی اصولوں پر بھی پرکھا جائے تو وہ پوری اترے گی۔ یہ تعریف اس طرح ہے:
دفعہ 2 (د):’’انسانی حقوق سے مراد ہیں کسی فرد کی زندگی، آزادی، مساوات اور عظمت کی نسبت ایسے حقوق جن کی آئین کی رو سے ضمانت دی گئی ہو یا جو بین الاقوامی معاہدوں میں شامل کیے گئے ہوں اور ہندوستان میں عدالتوں کے ذریعہ قابل نفاذ ہوں۔‘‘
جہاں تک ہندوستان کے آئین میں انسانی حقوق کی ضمانت کی بات ہے، انہیں آئین کے جز 3، میں انسانی حقوق کو بنیادی حقوق کی شکل میں شامل کیا گیا ہے، اسی لیے اسے انسانی حقوق کا چارٹر کہا جاتا ہے۔ جہاں تک بین الاقوامی دستاویزات کا سوال ہے اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ، شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی منشور یا معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کا بین الاقوامی منشور اور دیگر بین الاقوامی دستاویزات نے، جن میں مختلف اعلامیے اور تجاویز بھی شامل ہیں، انسانی حقوق کے دائرے کو اتنا وسیع کردیا گیا ہے کہ اس میں انسانوں سے متعلق وہ تمام حقوق شامل ہوگئے ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرے میں یا جہاں قانون کی بالادستی کا احترام کیا جاتا ہو، وہاں ایک عام انسان کو حاصل ہونے چاہئیں۔ مثلاً حق با وقار زندگی ، حق مساوات ، حقوق نسواں، حقوق اطفال، حق اظہار رائے، آزادیٔ مذہب اور اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ، ثقافت، زبان وتہذیب کے تحفظ کا حق، حق نقل وحرکت، حق قانونی چارہ جوئی و دادرسی، حق تعلیم، حق رائے دہی ، ماحولیاتی تحفظ،صاف ہواو پانی و غیرہ۔ اقوام عالم مختلف ا لنوع مسائل کے حل کے لیے اور اپنے اپنے ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کے میکانزم کو مزید فعال بنانے کے لیے کبھی اقوام متحدہ کا ہزار سالہ اعلامیہ، 2000کی شکل میں تو کبھی متمدن اقوام کے مابین ہم کلامی کے لیے اقوام متحدہ کاعالمی ایجنڈا، 2001،کی شکل میں اعادہ کرتے رہے ہیں لیکن صورت حال تا ہنوز اطمینان بخش نہیں ہے۔دریں صورت بلا مبالغہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اقوام متحدہ ایک باوقار ادارہ تو ضرور ہے مگر اس کے تا ہنوز ناتواںہونے سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا چونکہ سوائے حسب دلخواہ’چنندہ‘ ممالک پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے،اس کے پاس اپنے فیصلوں کو درآمد کرانے کے لیے کوئی مضبوط میکانزم نہیں ہے۔
)مضمون نگار عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے رکن تا حیات ہیں اور انسانی حقوق پران کی تصنیفات بھی ہیں(
[email protected]