دینی حمیت کو جنس بازاری بناتا سامراجی نظام

0

محمد فاروق اعظمی

جب کوئی ریاست یا کسی ریاست کا حکمراں طبقہ اپنے مفادات کیلئے کسی خطے، ملک،عام آدمی یا کسی مخصوص طبقہ کی زندگی میں براہ راست یا بالواسطہ مداخلت کرتا ہے تو اس کے مظہر کو سامراجیت کا نام دیا جاتا ہے۔ آج ہر جگہ یہ سامراجی نظام اپنی وحشتوں سمیت پنجے گاڑے ہوئے ہے،کہیں کشت و خون کی صورت میں توکہیں غربت و بیروزگاری کی صورت میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔مذہب، قومیت اور لسانیت اس کے پسندیدہ اورآزمودہ ہتھیار ہیں جن کے سہار ے سامراجیت اپنے مفادات پروان چڑھاتی اور اس کی حفاظت بھی کرتی ہے۔
سامراجیت کی اس تعریف کے پس منظر میں ہندوستان بالخصوص مغربی بنگال کے حالات کا جائزہ لیاجائے تو نظر آتا ہے کہ یہاں کاحکمراں طبقہ اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے مذہب کو مشق ستم بنائے ہوئے ہے۔مرکزی سطح کا حکمراں طبقہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک کررہا ہے جو ایک ناپسندیدہ، نامطلوب اور دشمن سے کیاجاتا ہے۔اس سلوک کے نتیجہ میں حکمراں طبقہ کے اقتدار کو طوالت مل رہی ہے اوراس کے سامراجی عزائم پورے ہو رہے ہیں تو دوسری جانب مسلمانوں کے خلاف ایسی فضاسازی ہورہی ہے کہ جس سے ان کا سماجی مقاطعہ یقینی بن جائے۔مغربی بنگال میں بھی سامراجیت کا یہ کھیل اسی طرح جاری ہے۔یہاں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ کھیل پس پردہ کھیلا جارہاہے بظاہر اسلام اور مسلمانوں کو تکریم دینے کا اعلان کیاجاتا ہے لیکن پس پردہ اسلام کا تقدس پامال اور مسلمانوں کی دینی غیرت و حمیت کو جنس بازار سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو ’ مقبول بارگاہ‘ کہہ کران کے ساتھ ’راندہ درگاہ‘ جیسا سلوک کیاجاتاہے۔غموں، دکھوں، تکلیفوں اور مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ان کامقدر بنا دیاگیا ہے۔ اگر ان میں ایک دکھ اور تکلیف کو سہنے کا حوصلہ ایک طویل عرصے بعد کہیں جا کر پیدا ہو بھی جاتا ہے یا اس غم کو برداشت کرنے کی کیفیت کہیں سے بن بھی جاتی ہے تو اگلے ہی پل ان کے سامنے اس سے کہیں بڑا غم اور دکھ برپا ہو جاتا ہے۔ان حالات میں ان کے اندرسے ہی سامراجی حکمرانوں کے گماشتے بھی نکل کر سامنے آتے ہیں اور مسلمانوں کو اس کشمکش اور محرومیوں سے نجات دلانے کے نام پر ان کے جذبات، احساسات،غیرت حتیٰ کہ دینی حمیت تک کا سودا کرڈالتے ہیں۔
ایسا ہی ایک سودا 21؍اگست 2023 کو مغربی بنگال کی راجدھانی کولکاتا میں واقع نیتاجی ان ڈور اسٹیڈیم میں ہوا۔ سامراجی حکمراں اور اس کے گماشتوں نے فقط500روپے ماہانہ کے عوض وارثان منبر و محراب کی دینی حمیت کاسودا کرلیا۔ اس سودے کیلئے جو بازار سجایا گیا تھا، اس کانام ’ ائمہ و موذنین کانفرنس‘ رکھاگیا تھا۔اس سودے کی تیاریاں کئی مہینوں سے جاری تھیں، ریاست گیر سطح پر اس کی تشہیر میں پوری طاقت جھونک دی گئی تھی۔ حکمراں سامراج کے گماشے مہینوں سے ضلع، سب ڈویژن، بلاک، پنچایت اور موضع کی سطح پر گھوم گھوم کرائمہ اور موذنین مساجد کو بتارہے تھے کہ ان کی مالی ناآسودگی کا سدباب کرلیاگیا ہے۔اب ان کی آرزوئوں کے کنول کھلنے ہی والے ہیں۔ ان کے وظائف میں بھاری بھرکم اضافہ کیا جائے گا، انہیں رہنے کیلئے گھر، بیماری کی صورت میں علاج، بچوں کی تعلیم کے اخراجات بھی ماہانہ بنیادوں پر دیے جائیں گے۔ سربراہ ریاست بھی آمادہ ہیںکہ ائمہ و موذنین کرام پر خزانے کا منہ کھول دیا جائے۔ مغربی بنگال ریاستی وقف بورڈنے اس کی تمام کاغذی اور قانونی تیاریاںمکمل کرلی ہیں۔ اب اس کا فقط رسمی اعلان ہونا باقی ہے جس کیلئے 21اگست 2023 کو پیر کا ’ یوم سعید‘ مقرر کیاگیا ہے۔تمام ائمہ وموذنین اس یوم سعید کو کانفرنس میں شامل ہوں اور اس اعلان مسعود سے اپنی سماعت کو آسودہ و شادکام کریں۔
بہترمستقبل، آسودہ حال زندگی کاحسین خواب سجائے ریاست کے کونے کونے سے ائمہ و موذنین کی بھاری تعداد کانفرنس میں حاضر ہوئی۔ دیکھتی آنکھوں نے احوال کانفرنس بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’مغربی بنگال کے تمام اضلاع سے ائمہ ومؤذنین اپنے منتخب مقتدیوں کے ہمراہ کولکاتا پہنچ گئے۔ دوپہر 2 بجے تک پورا اسٹیڈیم بھرجانے کے بعد اسٹیڈیم کی انتظامیہ نے مزید جگہ نہیں اور ’ہائوس فل‘ کا بورڈ لگادیا۔داخلی دروازے پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی۔ اسٹیڈیم کے باہر سیکڑوں علمائے کرام ’ وی آئی پی گیٹ پاس‘ لیے کانفرنس میں شرکت کیلئے دھکم پیل کرتے نظرآئے تو اندرون اسٹیڈیم سروں کا سیلاب نظر آرہا تھا۔پھولوں سے سجے اسٹیج پر کئی قطاروں میں کرسیاں رکھی ہوئی تھیں جن پر مغربی بنگال کے ممتاز ’’علمائے کرام‘‘ جلوہ افروز تھے،لیکن مایوسی اس وقت ہوئی جب نقیب کانفرنس سے لے کر علمائے کرام اور شریک کانفرنس وزرائے عظام تک کے لبوں پر اللہ پاک کی حمد و ثنا کی بجائے سربراہ ریاست کاقصیدہ مچلتا نظرآیا۔دل تو اس وقت فگار ہوگیا جب سربراہ ریاست کی آمد پر وارثان منبر و محراب کو سرافگندہ، کمرخمیدہ اوردست بستہ خیر مقدم کرتے ہوئے دیکھا۔ اس وقت امیدوں پر بجلی گری اور نخل آرزو پامال ہوا جب سربراہ ریاست نے حاتم کی قبر پر لات مارتے ہوئے ائمہ کرام و موذنین عظام کے وظائف میں 500روپے ماہانہ اضافہ کا اعلان کیا۔ اس حقیر اضافہ کے عوض ملت فروش اور سامراج کے گماشتے ایک مولوی نے دینی حمیت اور ملی غیرت کو اپنی طمع اور ہوس کی نذر کرتے ہوئے سربراہ ریاست کے ’سامراج‘ کی حفاظت کیلئے ’ابلہ جنت ‘ کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے پر بھی رضامند کرلیا۔
گزشتہ12برسوں سے مسلمانوں کے ہر مطالبہ، ہر ضرورت اور ہر حق کو پائے حقارت سے ٹھکرانے کا ریکارڈ بنانے والی ریاست کی حکمراں نے 500روپے کا یہ اضافہ بھی فقط اپنے سامراج کو بچانے کیلئے ہی کیاہے۔ مغربی بنگال کی سیاست میں حالیہ تبدیلی کی وجہ سے اس سامراج کو خطرات لاحق ہونے لگے ہیں۔پیرزادہ عباس صدیقی کی نومولودسیاسی پارٹی انڈین سیکولر فرنٹ اس سامراج کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے تو دوسری جانب فرفرہ شریف کے پیرزادہ طٰہ صدیقی کا مسلم ووٹوں کو مرکوزاور متحد کرنے کا اعلان بھی اس سامراج کے خدشات کا سبب بن رہاہے۔مغربی بنگال کی سیاست میں مسلم ووٹ کا کردارفیصلہ کن ہے۔ریاست میں تقریباً 30 فیصد مسلمان ہیں جو 100 اسمبلی اور ایک درجن سے زیادہ لوک سبھا سیٹوں پر کسی بھی پارٹی کو کامیاب بنانے میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔ان مسلم ووٹروں کی مدد سے ہی آج ممتابنرجی کی سامراجیت قائم ہے لیکن اب دھیرے دھیرے مسلمان ممتابنرجی سے مایوس ہورہے ہیں اوران کا جھکائو دوسری جانب ہورہاہے۔پیرزادہ عباس صدیقی کی پارٹی سیکولر فرنٹ آف انڈیا حال ہی میں ہونے والے پنچایتی انتخابات میں 336 پنچایت نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی، جن میں 325 گرام پنچایت،10 پنچایت سمیتی اور ایک ضلع پریشد سیٹ شامل ہیں۔ بنگال کے پنچایتی انتخابات میں مسلمانوں کا ووٹنگ پیٹرن حکمراں سامراج کیلئے پریشانی اور چیلنج کاسبب بن گیا ہے۔ حکمراں ٹولہ مسلمانوں کے اس ووٹنگ پیٹرن اور سیاسی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کیلئے ان میں اپنا گماشتہ بھیج چکاہے جو اس کے سامراج کی حفاظت کیلئے مسلمانوں کی دینی حمیت تک کاسودا فخر سے کررہاہے۔
ضرورت ہے کہ مسلمان ایسے گندم نما جو فروش سے ہوشیار رہیں۔ائمہ اور موذنین کرام بھی نام نہادخوش حالی اورآسودگی کیلئے سامراجی حکمراں اوراس کے گماشتہ کی جانب نظر گڑانے کے بجائے ملت کا گریباں تھامیں کیوں کہ یہ فرض ملت کا ہے کہ وہ اپنے ائمہ و موذنین کی زندگی کو بہتر، سہل اورآسودہ حال بنائے۔اگرایسا نہ کیاگیا تو خوف ہے کہ ہماری زوال آمادہ دینی حمیت ہمیں اس مقام پر نہ پہنچادے کہ ہم خدانخواستہ مزید 500 روپے کیلئے مسجدوں سے سامراج کی تسبیح و تقدیس پرمجبور ہوجائیںاور سامراج کے گماشتے ہمارے ائمہ و موذنین سے سامراج کی حفاظت کا عہد لیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS