آئی سی آئی جے کی تحقیق میں سچن ٹنڈولکر اور انیل امبانی کے نام بھی شامل

0
Image: Daily Pakistan

نئی دہلی (ایجنسی ):دنیائے کرکٹ کا ایک ستارہ، ہیروں کا ایک مفرور تاجر، صفِ اول کی ایک کاروباری شخصیت جنھیں دیوالیہ ہونے کا سامنا ہے اور بالی وڈ کا ایک پرانا اور مشہور نام اُن انڈین شخصیات میں شامل ہیں جن کے نام پنڈورا پیپرز میں آئے ہیں۔
آئی سی آئی جے نامی تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم اور اس کے شراکت دار میڈیا اداروں کی جانب سے سامنے لائے جانے والی مالی دستاویزات میں تقریباً 380 انڈین شہریوں کے نام سامنے آئے ہیں۔ ان میں کرکٹر سچن ٹنڈولکر، صنعت کار انیل امبانی، ادویات بنانے والی کمپنی بائیوکون کی بانی کرن مجمدار شا، ہیرے کے مفرور کاروباری نیرو مودی اور اداکار جیکی شیروف کے علاوہ متعدد شخصیات شامل ہیں۔ ان میں سے کئی انڈیا میں پہلے سے ہی زیر تفتیش ہیں۔انڈیا میں اکثر لوگوں کے لیے سچن ٹنڈولکر کا نام پینڈورا پیپرز میں آنا باعثِ حیرت ہے۔ سچن ممکنہ طور پر انڈیا میں ان شخصیات میں شامل ہیں جنھیں عوام میں بہت محبت اور پزیرائی حاصل ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ برٹش ورجن آئی لینڈ میں قائم ایک آف شور کمپنی ان کے خاندان کے افراد کی ملکیت ہے۔ اور پینڈورا پیپرز کے مطابق یہ کمپنی سنہ 2016 میں بند ہو چکی ہے۔
سچن ٹنڈولکر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ سرمایہ کاری قانونی تھی اور اس پر ٹیکس ادا کیے گئے تھے۔پینڈورا پیپرز کے مطابق صنعت کار انیل امبانی اور ان کے نمائندے جرسی، برٹش ورجن آئی لینڈ اور سائپرس میں کم از کم 18 آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔
انیل مبانی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انھوں نے قانون کے مطابق انڈین حکام کے سامنے اپنے اثاثے ظاہر کر دیے تھے۔اس کے علاوہ ہیروں کے ارب پتی تاجر نیرو مودی بھی ان افراد میں شامل ہیں جن کے نام اس تحقیق میں سامنے آئے ہیں۔ نیرو مودی انڈیا میں فراڈ کے بڑے مقدمات میں سے ایک میں مفرور قرار دیے جا چکے ہیں۔ انھوں نے انڈیا سے فرار ہونے سے ایک مہینے قبل آف شور کمپنی قائم کی تھی۔ انیل امبانی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انھوں نے قانون کے مطابق انڈین حکام کے سامنے اپنے یہ اثاثے ظاہر کر دیے تھے۔
پینڈورا پیپرز کے مطابق بالی وڈ کے اداکار جیکی شروف نیوزی لینڈ میں قائم کیے جانے والے ایک ٹرسٹ سے آمدنی حاصل کرتے ہیں جو ان کی ساس نے قائم کیا تھا۔اخبار انڈین ایکسپریس کا کہنا ہے کہ انڈیا کے امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے اکثر افراد کو اپنی دولت کو ٹیکس سے بچانے کے لیے نئے راستے مل رہے ہیں۔
14 آف شور کمپنیوں کی 1۔2 کروڑ دستاویزات پر مبنی اس سمری سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا میں کئی کروڑ پتیوں نے اثاثوں کو ‘آف شور’ یعنی بیرونِ ملک خفیہ رکھنے کے نئے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔ اس میں آئی سی آئی جے کے علاوہ بی بی سی، انڈین ایکسپریس اور دا نیوز انٹرنیشنل جیسی تقریباً 150 میڈیا کمپنیاں شامل ہیں جنھیں اس تفتیش میں کم از کم 18 مہینے لگے۔
پاناما اور پیراڈائز پیپرز نامی تحقیقات کے برعکس، جن میں بنیادی طور پر ایک ہی مالیاتی کمپنی کی دستاویزات شامل تھیں، پانڈورا پیپرز برٹش ورجن آئی لینڈز، پاناما، بیلیز، قبرص، متحدہ عرب امارات، سنگاپور اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک میں مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی 14 کمپنیوں کے 2.1 کروڑ دستاویزات پر مشتمل ہیں۔واضح رہے کہ یہ ضروری نہیں کہ غیر ملک میں مالی ادارے قائم کرنا یا ان سے فائدہ اٹھانا غیر قانونی ہی ہو۔ بعض صورتوں میں ایسا کرنے کی قانونی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن ‘ٹیکس ہیونس’ کی رازداری بعض اوقات ٹیکس چوروں، دھوکہ بازوں اور منی لانڈروں کے لیے پرکشش ثابت ہوتی ہے۔ اس کا استعمال دیگر دولت مند افراد اور کمپنیاں بھی اپنے اثاثوں کو کسی اور جگہ پر ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے لیے بھی کرتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS