عبدالماجد نظامی
جب ڈونالڈ ٹرمپ2016میں امریکہ کے صدر منتخب ہونے کی دوڑ میں شامل تھے تو انہوں نے جس نعرہ کو سب سے زیادہ استعمال کیا تھا، وہ تھا کہ ’’امریکہ کو پھر سے عظیم بناؤ۔‘‘ بطور صدر جب ان کا انتخاب عمل میں آ گیا تو دنیا نے دیکھا کہ امریکہ جس عظمت کا خواب دیکھ رہا تھا، اس کا اظہار کیسے ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو ٹرمپ نے تمام جمہوری قدروں کو اپنے پاؤں تلے روندا اور امریکی طاقت کا بیجا استعمال اس ڈھنگ سے کرنا شروع کر دیا کہ گویا وہ ’’مہذب‘‘ دور کا کوئی منتخب لیڈر نہیں بلکہ یوروپ کے دورِ جہالت و درندگی کا کوئی سنکی صاحب سطوت ہو جو ہر قیمت پر اپنی سنک کو نافذ کرنا چاہتا ہے۔ ٹرمپ نے اس مقصد کی تکمیل کے لیے وہی حربہ استعمال کیا جو ہمیشہ سے عیسائی دنیا میں رائج رہا ہے۔ یہ حربہ تھا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی دشمنی کا اعلان۔ ٹرمپ نے مسلم ممالک سے امریکہ آنے والے لوگوں پر پابندیاں ہی عائد نہیں کیں بلکہ مشرق وسطیٰ کا مزید استحصال کیسے کیا جائے، اس کا نسخہ بھی تیار کیا تاکہ یہودی و صہیونی اسٹیٹ اسرائیل کے ذریعہ اپنی اسلام دشمنی کو انتہائی بلندی تک لے جا سکے۔ ٹرمپ نے جو نسخہ تیار کیا، اس کا نام ’’معاہدۂ ابراہیمی‘‘ رکھا گیا تھا۔ اب اس کو عربوں کی شومئی قسمت ہی نام دیا جائے گا کہ انہوں نے بھی اس معاہدہ کو قبول کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے متحدہ عرب امارات، بحرین، مراقش اور سوڈان نے اس معاہدہ پر دستخط بھی کر دیے۔ عربوں کے ذریعہ اس معاہدہ کو قبول کرنا اس بات کا اشارہ تھا کہ انہوں نے عملی طور پر یہ مان لیا تھا کہ اب ان میں اپنی عظمت کو واپس لانے کی ہمت اور قوت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اب وہ صرف امریکہ کی عظمت کو مزید بلندی تک پہنچانے اور صہیونی نظام کو پورے خطہ میں نافذ کرنے کے لیے بس ایک امریکی و صہیونی آلۂ کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس معاہدہ کو قبول کرنا اس بات کی بھی دلیل تھی کہ عرب ممالک کے عوام کے جذبات کی رعایت کرنا وہاں کے لیڈران کی ترجیحات میں قطعاً شامل نہیں ہے۔ اگر عرب لیڈران نے اپنے عوام کو ان کا حق دیا ہوتا اور ان کے جذبات و آراء کا خیال رکھا ہوتا تو امریکی و مغربی غلامی کا یہ طوق ان کے گلے سے کب کا اتر چکا ہوتا اور آج فلسطین کے معصوم بچے اور عورتیں جس طرح سے ذلیل ہو رہے ہیں اور اپنے ہی گھروں کے ملبوں میں دانہ و پانی کے بغیر دفن ہو رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، اس کی نوبت قطعاً نہیں آتی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب، جو اسلام کا مرکز اور مہبط وحی ہے، اس کے لیڈر اور مستقبل کے بادشاہ نے بھی اس بات کا اعلان کر دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مصالحت کی دہلیز پر کھڑے ہیں اور جلد ہی یہ معاہدہ ہو جائے گا۔ جب یہ معاہدے اسرائیل کے ساتھ کیے جا رہے تھے تب بھی فلسطینی زندگیاں تباہ کی جا رہی تھیں، مسجد اقصیٰ کی عظمت و تقدس کو پامال کیا جا رہا تھا اور غزہ پٹی و ویسٹ بینک پر اسرائیلی حصار کا دائرہ سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا تھا۔ ان سب کے باوجود ان عرب ملکوں نے مغرب اور خاص طور سے امریکہ کے دباؤ میں ایک حرف کہنا گوارا نہیں کیا۔ لیکن جب حماس اور جہاد اسلامی جیسی مزاحمتی فلسطینی تحریکوں نے اسرائیلی بربریت کے خلاف اقدام کیا تو انہی ممالک نے اندرونِ خانہ امریکی ایجنٹوں سے کہنا شروع کیا کہ آپ حماس کو ختم کر دیجیے، ہمیں کوئی دقت نہیں ہے۔ عرب لیڈران نے یہ باتیں کی ہیں اور اس بات کا ثبوت امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمس‘‘ میں موجود ہے۔ کیا ایک لمحہ کے لیے بھی امریکہ نے عرب اور فلسطینی زندگیوں کا لحاظ کیا؟ کیا انہوں نے اپنے عرب ’’حلیفوں‘‘ کی ساکھ کا خیال رکھا کہ اگر ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی بچے، عورتیں اور بوڑھے شہید ہوں گے تو عرب ممالک کے اندر جو عوامی غم و غصہ کا آتش فشاں پھوٹے گا، اس کے کیا اثرات امریکی ’’حلیفوں‘‘ پر مرتب ہوں گے؟ امریکہ نے اس کا خیال بالکل نہیں کیا اور نہ ہی آج تک کر رہا ہے جب کہ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق تقریباً نو ہزار معصوم لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں اور ہزاروں زخمی حالت میں ہیں لیکن ان کا علاج تک نہیں ہوسکتا کیونکہ اسپتال بھی محفوظ نہیں ہیں اور نہ ہی علاج کے لیے ایندھن اور دیگر ضروری اشیاء فراہم ہیں۔ اس کے برعکس مغرب کا پورا خیمہ امریکی قیادت میں اسرائیل کے ساتھ نہ صرف کھڑا ہے بلکہ انہیں مالی تعاون کے ساتھ ہر قسم کے مہلک ترین ہتھیار مہیا کر وا رہا ہے تاکہ ان سے فلسطینی عوام کا قتل بے دردی کے ساتھ کیا جاسکے۔ یہ وہی مغرب اور امریکہ کا خیمہ ہے جو پوری دنیا کو صدیوں سے جمہوریت اور انسانی حقوق کا پاٹھ پڑھاتا رہا ہے۔ لیکن جب اس کی خود کی باری آتی ہے کہ وہ جمہوری اور انسانی قدروں کی رعایت کرے اور عالمی قوانین کے مطابق عمل کرے تو اس کا نفاق ہر بار طشت از بام ہوجاتا ہے۔ البتہ امریکہ و مغرب نے اس بار فلسطین کے معصوموں کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اور کر رہا ہے، اس کے اثرات بہت دور رس ہوں گے۔ مسلم دنیا کے عوام تو پہلے ہی سے اس صہیونی و صلیبی جنگ کے حقائق سے واقف رہے ہیں اور کبھی ان کے دوہرے معیار کی اصلیت سے بے خبر نہیں رہے لیکن غزہ پر اسرائیلی و امریکی بربریت نے دنیا کے سامنے مغربی دنیا کے کھوکھلے فلسفوں اور ان کی انسانیت مخالف پالیسیوں کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔ اب مسلم دنیا کے علاوہ دیگر حصوں میں بسنے والے انصاف پسند لوگ بھی امریکہ و مغرب کے اس دوہرے معیار سے محتاط رہیں گے اور مغرب کا خیمہ آئندہ جب اور جہاں کہیں بھی جمہوریت اور انسانیت کی بات کرے گا تو وہاں اسے صرف مذاق کے طور پر ہی لیا جائے گا۔ کیونکہ دنیا کو بار بار فریب میں مبتلا نہیں کیا جا سکتا۔ جو بائیڈن نے ایک بار اس فریب میں دنیا کو مبتلا کر دیا ہے۔ وہ ٹرمپ کے مقابلہ اس یقین دہانی کے ساتھ امریکی صدر بنے تھے کہ وہ جمہوریت کی گرتی ساکھ کو پوری دنیا میں بحال کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے جمہوری قدروں کی بحالی تو دور کی بات ہے، اس کی پامالی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اگر مستقبل میں اس دنیا کا نظام کبھی انصاف پرور لوگوں کے ہاتھ میں آیا تو نیتن یاہو کے ساتھ ساتھ جو بائیڈن بھی جنگی مجرموں کی فہرست میں شامل کیے جائیں گے۔ جہاں تک عربوں کا تعلق ہے تو عرب ممالک کے عوام میں آج بھی حق پسندی باقی ہے اور آج نہیں تو کل انہیں اپنا مستقبل طے کرنے کی آزادی مل کر رہے گی۔ لمحۂ فکریہ صرف عرب حکمرانوں کے لیے ہے جن کی عیش کوشی اور آپسی اختلافات کی وجہ سے ان کی ہوا اکھڑ گئی ہے۔ جس دن عرب قوم اپنے ابدی پیغام کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی، اس دن مغربی نظام کے ساتھ ساتھ ان عرب حکمرانوں کے خیمے بھی طوفان میں اڑ جائیں گے۔ وہ دن امریکہ و مغرب کی عظمت کی بحالی کا نہیں بلکہ انسانیت نوازی اور انصاف پسندی کا دن ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]