ہندوستان سے پھر وابستہ ہوئی دنیا کی امید

0
ہندوستان سے پھر وابستہ ہوئی دنیا کی امید

وزیراعظم نریندر مودی کل سے یوروپ کے تین دنوں کے دورہ پر رہیں گے۔ اس دورہ پر وزیراعظم جرمنی، ڈنمارک اور فرانس جائیں گے۔ سال2022میں وزیراعظم کا یہ پہلا عالمی دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب یوروپ کا ایک بڑا حصہ روس-یوکرین جنگ کی آنچ میں تپ رہا ہے۔ ایسے میں پوری دنیا کی نظریں اس سوال کے ساتھ اس دورہ پر مرکوز ہیں کہ کیا وزیراعظم مودی کی پرسنل ڈپلومیسی کا کرشمہ جنگ کو روکنے اور انسانیت کو ایک بار پھر بچانے میں مددگار ہوگا؟ ویسے یہ کیا کم حیرانی کی بات نہیں ہے کہ وزیراعظم کے دورہ کے تعلق سے اس بات کی چرچہ کم ہورہی ہے کہ ہندوستان کو اس دورہ سے کیا فائدہ ہوگا؟
وزیراعظم سے وابستہ ہورہی امیدوں کے خیال کی بنیاد ٹھوس بھی ہے اور وسیع بھی۔ اقوام متحدہ، یوروپی یونین، ناٹو جیسے ممالک اور امریکہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ جیسے ممالک کی اجتماعی کوششوںکے باوجود روس-یوکرین جنگ ابھی بھی جاری ہے اور اس کا کوئی سرا نظر نہیں آرہا ہے۔ لیکن اسی دور میں وزیراعظم نریندر مودی کی عالمی قبولیت اور روس کے ساتھ تاریخی دوستانہ رشتوں کے برعکس ہندوستان کی جانب سے ثالثی کی اہم پہل ہوئی ہے جس کی کئی ممالک نے کھلے دل سے ستائش کی ہے۔ وزیراعظم نے جنگ شروع ہونے کے بعد سے روس کے صدر ولادیمیرپوتن سے تین بار اور یوکرین کے صدر ولادیمیرپوتن زیلنسکی سے دو بار بات کی ہے اور دونوں فریقوں کو تحمل سے کام لینے اور امن وامان قائم رکھنے کی صلاح دی ہے۔ وزیراعظم مودی کی اس پہل کو مثبت اشارے بتاتے ہوئے ہندوستان میں آسٹریلیا کے ہائی کمشنر بیری اوفیریل تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان ہی ثالثی کرکے دونوں ممالک کے مابین چل رہی حالت کو سنبھالے گا۔ جرمنی کے وزیرمملکت برائے خارجہ امور ٹوبی یاس لنڈنر اور امریکی کانگریس ممبر کیرولن میلونی بھی کم و بیش اسی سوچ کے حمایتی نظر آئے ہیں کہ ہندوستان کے بغیر کوئی بڑا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس مسئلہ پر سب سے اہم روس کے وزیرخارجہ سرگوئی لاورو کا وہ بیان سمجھا جارہا ہے جس میں انہوں نے جنگ کو رکوانے میں ہندوستان کی ثالثی کے تعلق سے کہا ہے کہ روس کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
وزیراعظم کے دورہ سے پہلے ہندوستان روس پر اپنے انحصار سے وابستہ یوروپ کے اعتراض کو دور کرنے میں بھی کافی حد تک کامیاب ہوا ہے۔ ہندوستان کے دورہ پر آئے برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کا روس-یوکرین جنگ پر ہندوستان کے رُخ سے اتفاق کا اظہار کرنا اور روس کے ساتھ ہندوستان کے تاریخی تعلقات کو قبول کرتے ہوئے ان کا احترام کرنے کی بات کہنا یوروپ کے نظریہ میں آرہی تبدیلی کا اشارہ ہے۔
دراصل جنگ کے تعلق سے ہندوستان کا رویہ یوروپ کو ہی نہیں، امریکہ کو بھی کھٹکتا رہا ہے۔ وجہ صرف ’نیوٹرل‘ رہنے کی نہیں ہے، بلکہ ’نیوٹرل‘ رہتے ہوئے بھی ایسے وقت میں روس کا ساتھ نبھانے کو لے کر ہے جب کہ ان ممالک کے پاس اقتصادی پابندیاں عائد کرکے روس کو جھکنے کے لیے مجبور کرنے کا سنہرا موقع تھا۔ ہندوستان کے اس ڈپلومیٹک رُخ کو متاثر کرنے کے مقصد سے پہلے کچھ ہفتوں میں- روس اور چین کے علاوہ- آسٹریلیا، جرمنی، میکسیکو، برطانیہ، امریکہ سمیت کئی ممالک سے عالمی لیڈران نے ہندوستان کا رُخ کیا۔ حالاں کہ اس کے باوجود روس کے تعلق سے ہندوستان کی رائے غیرمتاثر ہی رہی ہے۔ روس کو ہندوستان کتنی توجہ دیتا ہے، یہ اسی بات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وزیراعظم نے ہندوستان کے دورہ پر آئے کسی بھی غیرملکی سفارت کار سے ملاقات نہیں کی، لیکن وہ روسی وزیرخارجہ سرگوئی لاورو سے ضرور ملے۔ اس ملاقات کے بعد ہی لاورو نے ثالثی کے لیے ہندوستان کی کوشش پر ’اعتراض نہیں ہونے‘ والا بیان جاری کیا تھا۔
یوکرین پر روس کے یکطرفہ حملہ پر بھلے ہی مغربی ممالک متحد ہوگئے ہوں، لیکن ہندوستان مسلسل روسی صدر ولادیمیرپوتن کی رسمی مذمت سے بچتا رہا ہے۔ ہندوستان نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف ووٹنگ سے پرہیز کیا لیکن تشدد کی مذمت کی۔ ساتھ میں روس کے ساتھ اپنے کاروبار کو بھی جاری رکھا ہے۔ عالمی حلقوں میں یہ بھلے ہی ایک غیرپسندیدہ فیصلہ ہو، لیکن توانائی کے لیے غیرملکی ذرائع پر انحصار کے سبب ہندوستان کے لیے یہ ناگزیر ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سول جوہری معاہدہ کے سبب ہندوستان نے امریکہ کے علاوہ صرف روس کو ہی ملک کے اندر نیوکلیئر پاور پلانٹس چلانے کی منظوری دی ہے۔ بات اگر تیل کی سرمایہ کاری کی کریں تو ہندوستانی فارموں کا روس میں تقریباً 16بلین ڈالر کے تیل کی سرمایہ کاری ہے۔ روس کے پاس ہندوستانی مغربی ساحل پر ایک پوری ریفائنری ہے۔ گزشتہ ماہ ہی ہم نے روس سے بھاری چھوٹ پر اتنا تیل خریدا جتنا ہم نے اس سے پورے 2021میں خریدا تھا۔ جو یوروپی ممالک ہم سے روس سے تیل کی خریداری بند کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں، وہ خود روس سے تیل خریداری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ فرانس، جرمنی جیسے ممالک نے تو پابندیوں کے باوجود سال 2014کی ایک ڈیل پوری کرنے کے لیے روس کو جنگ کے دوران ہتھیار تک مہیا کروائے ہیں۔ آج ہندوستان کے ڈیفنس ہارڈویئر کا 60فیصد، 85فیصد پرزے اور سبھی ٹیکنیکل ہارڈویئر کی منتقلی روس سے ہی ہورہی ہے۔ جنگ کے دور میں ایک نئی مالیاتی دنیا کا عروج بھی ہوا ہے جہاں ہر کوئی روس پر پابندی لگانے کے نظام میں شامل نہیں ہورہا ہے۔ ہندوستان بھی روس سے اپنے تاریخی دوستانہ رشتوں کو ایک نئی اونچائی پر لے جاتے ہوئے اس کے مشکل وقت میں اس کا سہارا بن رہا ہے۔ ایسے حالات میں ہندوستان نے اپنا نظریہ واضح کردیا ہے کہ اگر دنیا ڈالر اور غیرڈالر ممالک میں تقسیم ہونے جارہی ہے تو ہندوستان اپنے متبادل کھلے رکھنے جارہا ہے۔
ایسا اندازہ ہے کہ اپنے دورہ کے دوران وزیراعظم مودی یوروپی لیڈروں کو ہندوستان کے اس اسٹینڈ کے بارے میں بھی بتائیں گے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہوجاتا ہے کیوں کہ جرمنی، ڈنمارک اور فرانس تینوں ہی ناٹو کے اہم رکن ہیں۔ جرمنی اور فرانس تو یوروپی یونین کی سب سے بڑی اکنامی بھی ہیں اور جنگ کے اس دور میں روس پر پابندیاں لگانے میں امریکہ سے مقابلہ آرائی کرتے نظر آئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسی خبریں آئی تھیں کہ جنگ پر ہندوستان کے رُخ کے سبب جرمنی جی-20کی میٹنگ میں ہندوستان کو بلانے کے خلاف ہے۔ان خبروں کے درمیان جرمنی کو حال ہی میں اولاف اسکالج کی شکل میں نیا چانسلر ملا ہے اور یہی اولاف اسکالج اب وزیراعظم مودی کا خیرمقدم کریں گے۔ پرسنل ڈپلومیسی میں وزیراعظم کی کارکردگی کے دوران اسکالج کی ان سے میٹنگ اہم رہنے والی ہے۔ ادھر فرانس میں دوبارہ ملی جیت سے ایمینوئل میکرون ایک نئے جوش میں ہیں اور فرانس کو یوروپی خارجہ پالیسی کا رہنما بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں یہ دیکھنے والی بات ہوگی کہ کیا جرمنی میں نیا مقام بنانے کی اسکالج کی حسرت، یوروپ کے آسمان پر چھانے کی میکرون کی خواہش اور عالمی سیاست میں وزیراعظم مودی کی مہارت کا میل اس موقع کی تعمیر کرسکے گا جو جنگ روکنے اور دنیا میں امن کے اہم ایجنڈے کی بنیاد کو ایک نئی مضبوطی دے سکے؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS