حضور صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔مسیحائے انسانیت

0

*حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ مسیحائے انسانیت*

از : نیاز احمد سجاد ندوی ( مقیم کویت )

[email protected]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوی زندگی 23 سالوں پر محیط ہے ۔ 13 سال مکہ مکرمہ میں اور 10 سال مدینہ منورہ میں۔آپ نے اس قلیل مدت میں پورے خطہ عرب میں ایسا انقلاب برپا کردیا جس کی کوئی دوسری مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔محسنِ انسانیت، سرکارِ دو عالم جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سرزمین عرب میں ایسے جاہلی ماحول میں ہوئی کہ انسانیت پستی کی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور یہ حالت صرف عرب ہی کی نہیں تھی؛ بلکہ اکثر ممالک کی زبوں حالی قابلِ رحم تھی، ہر طرف سماجی ومعاشرتی بدنظمی اور معاشی واقتصادی بے چینی تھی، اخلاقی گراوٹ روز افزوں تھی، مزید برآں بت پرستی عروج پر تھی، قبائلی وخاندانی عصبیت بڑی سخت تھی اور شدید ترین نفرتوں، انتقامی جذبات، انتہا پسندانہ خیالات، لا قانونیت، سود خوری، شراب نوشی، خدا فراموشی، عیش پرستی وعیاشی، مال وزر کی ہوس، سنگ دلی اور سفاکی وبے رحمی سے پورا عالم متاثر تھا؛ الغرض چہار سُو تاریکی ہی تاریکی تھی. ایسے حالات میں آپ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا۔

نبوت ملنے بعد مکی زندگی میں آپ کو طرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔مظالم اور مشکلات کے پہاڑ آپ پر توڑے گئے.کفار و مشرکین نے مکہ مکرمہ میں وہ کون سا ظلم تھا جو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرامؓ کے ساتھ روا نہ رکھا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئیں، آپ پر پتھروں اور سنگریزوں کی بارش کی گئی، آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ کا گلا گھونٹا گیا، نماز کی حالت میں آپ پر اُونٹ کی اوجھڑی رکھ دی گئی، آپ کے قتل کے منصوبے تیار کیے گئے، تین سال تک شعب ابی طالب میں آپ کو محصور رکھا گیا، جس میں ببول کے پتے کھا کر گزارا کرنے کی نوبت آئی، طائف میں آپ کو سخت اذیت پہنچائی گئی۔ مگر کبھی بھی آپ نے باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا۔

آپ نے اپنی مکی اور مدنی زندگی کے قلیل عرصہ میں جس طرح مردہ قلوب میں روح ڈالی اس کی پوری انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ، نفرت و عداوت کی جگہ الفت ومحبت کو قائم کیا، ظلمت وجہالت کے فاسد مادے کو نکال باہر کیا، عرب کے بدوؤں کے قلوب واذہان میں نورِ صداقت اور ضیائے علم کو سمو دیا اور جس طرح ان کی کایا پلٹ دی یہ آپ کا عظیم الشان معجزہ ہے؛ جس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں، بہ قول سید سلیمان ندوی: ”آدم سے عیسیٰ تک اور شام سے ہندوستان تک انسان کی مصلحانہ زندگی پر ایک نظر ڈالو، کیا عملی ہدایتوں اور کامل مثالوں کا کوئی نمونہ کہیں نظر آتا ہے؟“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تبدیلیِ قلوب کی تحریک اس لیے کارگر اور زود اثر ثابت ہوئی کہ آپ نے جو کہا، اُسے پہلے خود کیا اور یہی اسلام کی شوکتِ روز افزوں کا بڑا سبب بنا، آج اقوام متحدہ سمیت حقوقِ انسانی کے تحفظ کی پاس داری کے لیے بے شمار تنظیمیں اور کمیشن قائم ہیں؛ لیکن نتیجہ اور کارکردگی دنیا کے سامنے ہے، کسی بھی تحریک اور مشن کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب بانیِ تحریک کے اقوال وافعال میں تضاد نہ ہو، اس کے کردار وگفتار میں یکسانیت ہو، تاریخ پڑھیں معلوم ہوگا کہ جملہ اخلاقِ حمیدہ، ہمدردانہ جذبات، قانعانہ قابلیت اور زاہدانہ سیرت کی جھلک بدرجہٴ اتم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں موجود تھیں، اور یہی وہ پوائنٹ ہے جو اصلاحی تحریکوں کی کامیابی کا ضامن ہے، اور حضور علیہ السلام کی حیاتِ مقدسہ کے حوالے سے یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جو آج تک سبھی اقوام کے لیے حیرت وحیرانی کا موجب بنی ہوئی ہے، اس مرکزی نقطہ کو مدِّنظر رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو یہ بات خوب سمجھ میں آتی ہے کہ بسا اوقات اصلاحی جلسے جلوس، اصلاحی تحریکیں، اصلاحی اکیڈمیاں اور اصلاحی انجمنیں، کیوں ناکام اور غیر مؤثر ہوجاتی ہیں کہ ان تحریکوں کے سربراہان حضرات کی زندگی عمل کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نہیں ہوتی، ان کے ظاہر و باطن میں تباین ہوتا ہے، اقوال وافعال میں تضاد ہوتا ہے اور ان کے کردار وگفتار میں اختلاف ہوتا ہے، اصلاحی کاموں کی نتیجہ خیزی اور کامیابی کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کردار وگفتار میں یکسانیت کے فلسفے کو پیشِ نظر رکھنا ناگزیر ہے اور یہی اصل پوائنٹ ہے۔

دُرفشانی نے تیری، قطروں کو دریا کردیا

دل کو روشن کردیا، آنکھوں کو بینا کردیا

خود نہ تھے خود راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی، جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ طبعا ترش کلام تھے نہ تکلفا،کبھی شور نہیں مچایا۔برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے۔عفو و درگزر اور تحمل سے کام لیتے‘‘۔

قرآن کریم اس کا شاہد ہے “إنك لعلي خلق عظيم” بیشک آپ بہت عظیم اخلاق کے حامل ہیں۔اپ مکارم اخلاق،رحم دلی و کرم گستری،شفقت و محبت، دلداری و دلنوازی، عفو و درگزر،کشادہ قلبی اور قوت برداشت میں ساری انسانیت کے امام و مقتدی ہیں۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے مسیحا اور نرم خو نہ ہوتے تو یہ درشت اور سخت دل عرب پہ حکمرانی نہ کرتے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا دوسری جگہ فرماتی ہیں کہ رسو ل اللہ کی عادتِ شریفہ کسی کو برا بھلا کہنے کی نہیں تھی ،آپ   برائی کے بدلے میں کسی کیساتھ برائی نہیں کرتے بلکہ اسے معاف فرما دیتے تھے ۔آپ کی زبان مبارک سے کبھی بھی کوئی غلط الفاظ نہیں نکلے ۔آپ گناہو ں کی باتوں سے ہمیشہ کوسوں دور رہے ۔آپ  اپنی ذات کیلئے کسی سے انتقام نہیں لیا۔غلام ،لونڈی، عورت،بچہ یا خادم یہاں تک کہ کسی جانور کوبھی کبھی نہیں مارا لیکن اگر کوئی حدود اللہ کی بے حرمتی کرتا تو نبی کریم اسے برداشت نہیں کرتے اور اس کا انتقام لیتے۔‘‘ ( مسلم ) ۔۔مندرجہ ذیل سطور میں آپ کے عفو و درگزر اور مسیحائے انسانیت کی چند مثالیں طوالت سے گریز کرتے ہوئے اشارۃً پیش خدمت ہیں۔

بحیثیت مسيحا انسانیت آپ کی شخصیت کو اگر دیکھنا ہو تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اُن دس سالوں کو دیکھا جا سکتا ہے جو رسول رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفیق و کریم بارگاہ ِ عظمت میں بسر ہوئے اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی فرماتے ہیں کہ:

” میں نے 10سال اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں گزارے مگر میرے کریم و شفیق آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی مجھے جِھڑ کا تک نہیں اور یہ تک نہیں فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا ہے اور یہ نہیں کیا‘‘

* فتح مکہ کے بعد دشمنان اسلام کو عام معافی کا اعلان اور آپ کا یہ فرمانا کہ و اذھبوا و انتم الطلقاء جاؤ تم سب آزاد ہو تم پہ کسی طرح کا کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔

* غزوہِ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم پر صحابی کے اعتراض کے باوجود عدم ناراضگی کا اظہار اور فرمایا کہ اللہ اور اس کا رسول درست فیصلہ نہیں کرے گا تو آخر کون کرے گا۔

* کعب ابن زبیر کو نہ معاف کیا بلکہ ان کو اپنی ردا مبارک عنایت کرکے فرط مسرت کا اظہار کیا۔

* خیبر کی یہودی عورت زینب بنت الحارث جس نے آپ کو زہر دیا تھا معاف کر کے آپ نے انسانیت کا اعلی نمونہ پیش کیا۔

* اسی طرح آپ نے حاتم طائی کی صاحب زادی طی کو عام معافی دیکر آزاد کر دیا

* اسی طرح ایک اعرابی مسجد نبوی میں داخل ہو کر مسجد کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کرتا ہے اور صحابہ کرام اس کو مارنے،پیٹنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن قربان جائیں اس ذات پر جس نے یہ کہ کر صحابہ کو ایسے کرنے سے منع کرکے اس کو پیار اور محبت سے سمجھانے کی تلقین کی کہ ہمیں حسنِ اخلاق اور حسنِ کردار کا مظاہرہ کرنا چاہئے، آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے،دشواریاں اور مشکلات پیدا کرنے گریز کرنا چاہئے۔

* آپ نے اپنے چچا سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل کو معاف کر دیا اور مشرف باسلام ہونے کے بعد یہ نصیحت کی کہ اے وحشی! بے شک تم دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئے ہولیکن ممکن ہو تو میرے سامنے مت آیا کرو اس لئے کہ تم کو دیکھ کر پیارے چچاکی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔‘‘

* ہندہ کی کرتوتوں کو اگر نظر میں رکھا جائے تو فتح مکہ کے بعد جب وہ اپ کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے تو اس کے تمام خطاؤں کو معاف کرکے دامن اسلام میں پناہ دے دی جاتی ہے۔

* ابو سفیان کی معافی کا واقعہ اگر نظر میں ہو جب ابو سفیان حضرت عباس ؓ کیساتھ نبیٔ رحمت اور محسنِ انسانیت کی خدمت میں سراسیمہ اور خوفزدہ حاضر ہوتے ہیں ۔نبی کریم تسلی اور اطمینان دلاتے ہیں :

’’ اے ابوسفیان!ڈرو مت!تم سے کوئی انتقام نہیں لیا جائیگا۔تمہارا کوئی مواخذہ نہیں ہوگا ۔‘‘

اور ابو سفیان کے تمام خطاؤں کو نہ صرف معاف کردیا جاتا ہے بلکہ ارشاد ہوتا ہے:    ’’جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا وہ مامون اور محفوظ ہے۔‘‘

اس طرح کی سیرت نبوی میں بے شمار مثالیں موجود ہیں جن کو اجاگر اور آج کے متمدن اور ترقی یافتہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

الغرض آپ کی پوری زندگی انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔زندگی کا کوئی گوشہ آپ کی تعلیمات سے محروم نہیں، رحمۃ للعالمین کی افادیت اور آفاقیت ، مکارم اخلاق اور قرآنی تعلیمات اور سیرت نبوی کے اصلاحی،تعمیری،معاشرتی،اجتماعی اور سماجی پہلوؤں کو عام کیا جائے اور گفتار کے غازی کے ساتھ ساتھ کردار کا غازی بنا جائے۔ اور پوری دنیا کو یہ بتایا جائے کہ آپ کی ذات ، آپ کے اقوال،افعال اور اعمال رہتی دنیا تک مشعل راہ ہیں۔

ترا نقش پا تھا جو رہنما تو غبار راہ تھی کہکشاں

اسے کھو دیا تو زمانے بھر نے ہمیں نظر سے گرا دیا

میرے رہنما ترا شکر یہ کروں کس زبان سے بھلا ادا

میری زندگی کی اندھیری شب میں چراغ فکر جلا دیا.

*****************

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS