گزشتہتین روز سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بڑے پیمانے پرتصادم ہورہاہے۔مغربی کنارے میں فوجی کارروائی کرنے کے دوران اسرائیل کو اپنی توجہ غزہ کی پٹی پر مرکوزکرنی پڑرہی ہے۔اورغزہ میں سرگرم دوجنگجو تنظیموں حماس اور اسلامک جہاد نے اسرائیل کے قریبی اوردوردراز والے علاقوں اوریہاں تک کہ تل ابیب تک راکٹ داغ کر اسرائیلی سیکورٹی حکام کو فکر میں ڈال دیاہے۔تادم تحریر دونوں طرف سے میزائل داغنے کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیل غزہ میںاب تک اپنی فوجی کارروائیوں میں 215 مقامات پر راکٹ داغ چکا ہے۔اسرائیل کی اس بمباری میں 47مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور لاتعدادسے زیادہ مکانات اتنی تباہ ہوگئے ہیں کہ ان کو استعمال نہیں کیاجاسکتاہے۔ اسرائیل کی کارروائی میں سیکڑوں فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں ،فلسطین کے حکام کا کہناہے کہ تین سوگھروں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔دوسری جانب اسلامک جہاد اور اسرائیل کے حکام کے درمیان جنگ بندی کے لئے مصر کی مصالحت سے مذاکرات جاری ہیں۔اقوام متحدہ اور قطر بھی محصورغزہ کے پٹی اورمغربی کنارے میںبربریت کے ننگے ناچ کو ختم کرنے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔جس وقت سطور لکھی جارہی تھیں تو اس وقت تک اسرائیل کے بمباری میں 31فلسطینی جانحق ہوچکے تھے ، مرنے والوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اسلامک جہاد نے گزشتہ تین دنوں میں 800راکٹ داغے ہیں ۔یہ تعداد غیر معمولی ہے اور غیر توقع بھی ہے۔ایک اندیشہ یہ بھی ظاہر کیاجارہاہے کہ اسلامک جہاد اور حماس نے اتحاد کردلیا ہے اور یہ دونوں مل کر اسرائیل کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔ اسرائیل کھلے طورپر اس بات کو تسلیم نہیں کررہاہے کہ یہ دونوں جنگجواس پرحملہ کررہے ہیں کیونکہ وہ ان دونوں تنظیموں کو الگ الگ انداز سے قابو کرنا چاہتاہے ان دونوں تنظیموں کے اتحاد کی بات افواہ ہی سہی مگر اس کے خلاف جاتی ہے۔ خیال رہے کہ پچھلے دنوں مغربی کنارے میں سرگرم اور مقتدرالفتح پارٹی جس کے پاس وہاں پر پولیس کا نظام بھی ہے مذکورہ بالا دونوں تنظیموں (حماس اور اسلامک جہاد)کے ساتھ مل کر فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے کوششیں کرنے کااندیشہ ظاہر کیاجارہاہے۔فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس جن کا تعلق پی ایل او سے وابستہ الفتح پارٹی سے ہے اسرائیل کے ساتھ تعاون ختم کرچکے ہیں ۔
محبودعباس کی پارٹی مغربی کنارے میں محدود اختیار ات والی فلسطینی اتھارٹی چلاتی ہے جس کے صدروہ خود ہیں۔فلسطینی اتھارٹی کی صدر کی حیثیت سے فلسطینیوں کی تمام امور کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں ، خارجہ پالیسی بھی ان کے دائراحتیار میں ہیں ،غزہ میں مقتدر حماس کوعالمی سطح پرمنظوری حاصل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اسرائیل کے فلسطینی علاقوں کے قبضے کی بابت جو قرارداد پاس ہوئی تھی اس کے پش پست فلسطینی اتھارٹی کی کاوشیں بتائی جاتی ہیں۔جنرل اسمبلی میں قرار داد پاس کرکے عالمی عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ اسرائیل کے قبضے کے بارے میں اپنی قانونی رائے پیش کرے اور بتائے کہ اس غیر قانونی قبضے کو کس طریقے سے ختم کیاجاسکتاہے۔اس قرار داد کو پاس ہونا اسرائیل کے لئے بڑی پریشانی اورقانونی الجھن کا سبب بن سکتاہے۔ جب سے موجودہ نتین یاہو سرکار اقتدار میں آئی ہے فلسطینیوں کو سبق سکھانے اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس پر فلسطینیوں کے لئے لڑنے والے تمام مسلح ،غیر مسلح رضا کار تنظیمیں اور پارٹیاں پہلے کے مقابلے میں زیادہ تال میل سے کام لے رہے ہیں ۔پچھلے دنوں سعودی عرب نے بھی فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم گروپوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا سلسلہ شروع کیاتھا۔عرب دنیا دونوں تنظیموں میں ثالث کرانے کی کوششیں کررہی ہیں۔سب سے زیادہ اختلاف محمودعباس کی الفتح اور حماس کے درمیان ہے ، الفتح مغربی کنارے میں مقتدر ہیں جب کہ غزہ پر حماس کا قبضہ ہے ۔2005میں اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوجیں واپس بلالی تھیں اور اپنے مکمل اقتدراعلیٰ والے علاقے اور غزہ کے درمیان ایک اونچی دیوار کھڑی کردی تھی جس سے غزہ اور اسرائیل کے درمیان آنے جانے میںکافی دقتیں پیش آرہی ہیں اور صرف چند چیک پوائنٹس سے ہی غزہ سے اسرائیل میں داخلہ ممکن ہے۔ بہرکیف محمود عباس نے اسرائیل کی بڑھتی جارحیت کو دیکھتے ہوئے اس کی فوج کے ساتھ تعاون تقریباً منقطع کردیاتھا جس کی وجہ سے اسرائیل کو خود گھس کر اسلامک جہاد وغیرہ کے جنگجو کے خلاف کارروائی کرنی پڑتی ہے جس سے فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان تصادم لگاتار بڑھتا جارہاہے۔oum
ارض فلسطین اورعالمی برادری کی بے بسی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS